اب بحریہ ٹاؤن کراچی کا کیا بنے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے متحرک ہونے کے بعد بحریہ ٹاؤن کے پاکستان بھر میں موجود پراجیکٹس پر تلوار لٹکنے لگی ہے۔ ملک میں کم و بیش 7 برسوں سے زوال پزیر پراپرٹیز کے کاروبار میں مندی کے اثرات بالآخر ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار پھر سے سر اٹھانے لگا ہے لیکن بحریہ ٹاؤن کراچی میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پراپرٹی کی قیمتیں سر اٹھانے ہی والی تھیں کہ نیب کے بحریہ ٹاؤن دبئی سے متعلق بیان اور اس پر ملک ریاض کے ردعمل نے بحریہ ٹاؤن کو بڑا دھچکا دیدیا ہے۔
بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کے مالک اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک عبدالجلیل خان مروت کا کہنا ہے کہ مشکل سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بہتر ہوتا دکھائی دے رہا تھا کہ نیب متحرک ہو گئی اور ملک ریاض کا بیان سامنے آگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اگر بحریہ ٹاؤن سے دفتری امور کے لیے کراچی شہر جانا ہوتا ہے تو فیول کے علاوہ بحریہ ٹاؤن تک آنے جانے کا 140 روپے ٹال ٹیکس اور لیاری ایکسپریس وے پر آنے جانے کے 120 روپے ادا کرنا ہوتے ہیں یعنی روزانہ 260 روپے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے یہ ٹیکس ختم کردیا تھا لیکن اب پھر لینے لگ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:بحریہ ٹاؤن کراچی کیخلاف بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز
پراپرٹی کی قیمتوں سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس میں ایک ماہ قبل مثبت تبدیلی آئی تھی لیکن جب سے یہ بیانات آئے ہیں بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی پھر سے گر چکی ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جن ولاز کی قیمتیں 2021 میں 50 لاکھ تھیں، اور ان کی قیمت 95 لاکھ تک پہنچ چکی تھی، اب پھر سے وہی ولاز 50-55 لاکھ تک آچکے ہیں۔ جو ولا 1 کروڑ 95 لاکھ پر تھا اس کی قیمت اس وقت 1 کروڑ 25 لاکھ تک گر چکی ہے۔ جو صورت حال چل رہی ہے اس سے لگتا یہ ہے کہ قیمتیں مزید نیچے آئیں گی۔
عبدالجلیل خان مروت کے مطابق خریدار نہ ہونا ایک الگ بات ہے لیکن جو لوگ پراپرٹی خرید چکے یا بحریہ ٹاؤن میں آباد ہیں وہ بھی اب وہاں سے نکلنے کی کوشش میں ہیں کیوں کہ اکثریت یہ سوچ رہی ہے کہ خود کو بچا کر کہیں اور سرمایہ کاری کریں۔
پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک معاذ لیاقت عبداللہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں پراپرٹی کا کاروبار پھر سے چل پڑا ہے اور اس کا آغاز ڈیفنس سے ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات پورے کراچی تک جائیں گے اور یہاں سے نکل کر پورے ملک میں پراپرٹی بہتر ہوگی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ملک ریاض کے حالیہ بیان سے بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی بالکل نیچے آگئی ہے تو ایسا بھی نہیں، فرق ضرور آیا ہوگا لیکن 5 سے 10 فیصد۔
یہ بھی پڑھیے:ملک ریاض کے دبئی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئےگی، نیب کا انتباہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن میں جس کی پراپرٹی کی قیمت پوری ہورہی ہے وہ پراپرٹی بیچ کر نکل رہا ہے لیکن خریدار بھی موجود ہیں۔ اب بھی ایسی سوچ موجود ہے کہ ڈیفنس میں 500 گز کا گھر 9 کروڑ روپے کا ملتا ہے اور بحریہ ٹاؤن میں 350 گز کا گھر 2 سے ڈھائی کروڑ میں مل جاتا ہے۔ لوگ بحریہ ٹاؤن میں خرید کر باقی رقم اپنی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں یا کہیں اور سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے فیصل شیروانی نے وی نیوز کو بتایا کہ پراپرٹی کا کاروبار پورے کراچی میں تب سے اٹھنا شروع ہوا جب شرح سود میں کمی آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا کیوں کہ جو پیسہ بنکوں میں تھا وہ پراپرٹی میں آیا اور اس کے مثبت اثرات بحریہ ٹاؤن کراچی پر بھی پڑے لیکن نیب کا بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے بیان اور اس کے بعد ملک ریاض کے ردعمل نے مارکیٹ پر کچھ اثر ضرور ڈالا لیکن جیسے جیسے لوگ یہ بات سمجھنا شروع ہوگئے کہ حکومت منی لانڈرنگ روکنا چاہتی ہے تو دوبارہ لوگوں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:ملک ریاض کی حوالگی کے لیے نیب اقدامات کررہا ہے، وزیر اطلاعات عطا تارڑ
ان کا مزید کہنا تھا ان 2 دنوں میں خوف میں لوگوں نے اپنی پراپرٹی بیچی بھی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بحریہ ٹاؤن ختم ہو رہا ہے یا لوگ بالکل چھوڑ جا رہے ہیں۔ کاروبار چل رہا ہے اور تھوڑی سی مندی کے بعد پھر سے نہ صرف خرید وفروخت ہورہی ہے بلکہ شعبہ تعمیرات میں بھی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
bahria town malik riaz NAB property بحریہ ٹاؤن کاروبار ملک ریاض نیب تحقیقات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بحریہ ٹاؤن کاروبار ملک ریاض نیب تحقیقات بحریہ ٹاؤن میں کا کہنا ہے کہ میں پراپرٹی ملک ریاض کے کا کاروبار ان کا کہنا کراچی میں ہے لیکن رہا ہے پھر سے اور اس
پڑھیں:
نیب کا ملک ریاض کی حوالگی کیلیے امارات سے رابطہ
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قومی احتساب بیورو (نیب) نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک کو متحدہ عرب امارات سے وطن واپس لانے کا عمل شروع کر دیا، نیب حکام نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک کی حوالگی کے لیے اماراتی حکام سے رابطہ کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق معاملے سے آگاہ نیب کے ایک ذرائع نے منگل کو بتایا کہ پراپرٹی ٹائیکون کو بین الاقوامی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور ویانا کنونشن کے تحت متحدہ عرب امارات سے ملک بدر کروایا جائے گا۔نیب نے متحدہ عرب امارات کے حکام سے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے رابطہ کیا ہے جن کے
بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ناقابل گرفت ہیں۔ذرائع نے پی ٹی آئی کے اس موقف کی نفی کی ہے کہ ملک ریاض پر برطانوی حکام نے 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا۔ذرائع نے نومبر 2021 میں برطانیہ کی رائل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اپیل مسترد کرتے ہوئے برطانوی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہوم آفس کا یہ نتیجہ کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں کرپشن اور مالی/کاروبای بدانتظامی میں ملوث رہے ہیں، بحریہ ٹاؤن ملک ریاض اور ان کے اہلخانہ کی زیر ملکیت اور زیرانتظام کمپنی ہے جسے ایشیا کی سب سے بڑی پراپرٹی ڈیولپر کمپنی شمار کیا جاتا ہے‘۔ذرائع نے بتایا کہ برطانوی محکمہ داخلہ نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کا ویزا نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات اور 2019 میں طے پانے والے معاملات، بحریہ ٹاؤن کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلوں، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی رقم پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپریل 2019 میں دائر کردہ نیب ریفرنس کا جائزہ لینے کے بعد کا منسوخ کیا تھا۔