چینی ڈیپ سیک کیا ہے اور اس نے کیسے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو بٹھادیا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
چین کی مصنوعی ذہانت کی ایپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے امریکا اور یورپ میں سرمایہ کاروں کو اس حد تک خوفزدہ کردیا ہے کہ امریکی ٹیک کمپنی نویڈیا اپنی قیمت کا چھٹا حصہ کھو بیٹھی ہے۔
مبینہ طور پر اپنے حریفوں کی لاگت کے مقابلے پر ایک چھوٹے سے خرچ پر تخلیق کیا گیا ایک چینی آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹ، ڈیپ سیک، گزشتہ ہفتے متعارف کرایا گیا تھا جو اس وقت امریکا میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دوڑ: چینی کمپنی ڈیپ سیک نے میدان مار لیا
مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس چپ بنانیوالی نویڈیا اور مصنوعی ذہانت سے منسلک مائیکروسوفٹ اور گوگل سمیت دیگر ٹیک کمپنیوں نے ڈیپ سیک کی اچانک پذیرائی کے بعد پیر کے روز اپنے شیئرز کی قیمت کو گرتے دیکھا۔
ایک الگ پیش رفت میں، ڈیپ سیک نے کہا ہے کہ وہ اپنے سوفٹ ویئر پر بڑے پیمانے پر بدنیتی پر مبنی حملوں کی وجہ سے رجسٹریشن کو عارضی طور پر محدود کر دے گا۔
مزید پڑھیں: چین کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل ’ڈیپسیک آر1‘ نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا
ڈیپ سیک چیٹ بوٹ مبینہ طور پر اپنے حریفوں کی لاگت کے ایک معمولی حصے پر تیار کیا گیا تھا، جس سے امریکا کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے غلبے کے مستقبل اور امریکی فرموں کی منصوبہ بندی کے لیے سرمایہ کاری کے پیمانے پر سوالات اٹھتے ہیں۔
پچھلے ہفتے، اوپن اے آئی دیگر فرموں کے ایک گروپ میں شامل ہوا جنہوں نے امریکہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس انفراسٹرکچر کی تعمیر میں 500 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں:کیا گوگل نے 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی فوج کو مصنوعی ذہانت کے آلات فراہم کیے؟
وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ابتدائی اعلانات میں سے ایک میں اسے ’تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا آرٹیفیشل انٹیلیجنس انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ قرار دیا جو امریکا میں ’ٹیکنالوجی کے مستقبل‘ کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ڈیپ سیک اوپن سورس ڈیپ سیک وی 3 ماڈل سے تقویت یافتہ ہے، جس کے محققین کا دعویٰ ہے کہ اسے تقریباً 6 ملین ڈالر میں تیار کیا گیا ہے، جو حریفوں کے خرچ کیے گئے اربوں ڈالرز سے یقیقناً نمایاں طور پر بہت کم ہے۔
مزید پڑھیں: نیویڈیا کا مصنوعی ذہانت پر مبنی نیا اور مفت چیٹ بوٹ متعارف، یہ چیٹ جی پی ٹی سے کیسے مختلف ہوگا؟
لیکن اس دعوے کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں موجود دوسرے فریقین نے متنازع قرار دیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اوپن سورس کوڈ بھی استعمال کرتے ہیں، ایسا سوفٹ ویئر جسے کوئی بھی مفت میں استعمال، ترمیم یا تقسیم کر سکتا ہے۔
ڈیپ سیک ایپ اس وقت سامنے آئی جب امریکا چین کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو طاقت دینے والی جدید چپ ٹیکنالوجی کی فروخت پر پابندی عائد کررہا ہے۔
مزید پڑھیں:ریاض میں پہلی سعودی ڈرون اور مصنوعی ذہانت کی زرعی نمائش ’سادف‘ کا انعقاد
درآمد شدہ جدید چپس کی مسلسل فراہمی کے بغیر اپنا کام جاری رکھنے کے لیے، چینی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈویلپرز نے اپنے کام کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا ہے اور ٹیکنالوجی کے لیے نئے طریقوں کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔
اس کے نتیجے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈلز سامنے آئے ہیں جن کے لیے پہلے سے کہیں کم کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی لاگت اس سے بہت کم ہے جو پہلے سوچی گئی تھی، جس میں صنعت کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے۔
مزید پڑھیں: ‘مصنوعی ذہانت سے خوفناک غربت پیدا ہو سکتی ہے’
اس مہینے کے اوائل میں ڈیپ سیک آر 1 کے اجرا کے بعد، کمپنی نے اوپن اے آئی کے جدید ترین ماڈلز میں سے ایک کی ’مسابقتی کارکردگی‘ پر فخر کیا جب اسے ریاضی، کوڈنگ اور قدرتی زبان کے استدلال جیسے کاموں کے لیے استعمال کیا گیا۔
سلیکون ویلی وینچر کیپیٹلسٹ اور ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈریسن نے ڈیپ سیک-آر 1 کو ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا اسپوتنک لمحہ‘ قرار دیا، جو 1957 میں سوویت یونین کی جانب سے لانچ کیے گئے سیٹلائٹ کا حوالہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسٹاک مارکیٹ امریکا چیٹ بوٹ چین ڈیپ سیک گوگل مائیکروسوفٹ مصنوعی ذہانت نویڈیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رٹیفیشل انٹیلیجنس اسٹاک مارکیٹ امریکا چیٹ بوٹ چین ڈیپ سیک گوگل مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت مزید پڑھیں کیا گیا ڈیپ سیک کے لیے کے بعد
پڑھیں:
چین کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل ’ڈیپسیک آر1‘ نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا
چین کی مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپسیک کے تازہ ترین ماڈل نے بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی ہے، اس ایپ نے چیٹ جی پی ٹی کو امریکا میں پیچھے چھوڑ دیا ہے کیوں کہ امریکا میں آئی فون صارفین چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ڈیپسیک زیادہ استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت، ایٹمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، ماہرین
نئے لانچ ہونے والے ڈیپسیک R1 ، جس کی لاگت اوپنائی کے مسابقتی ماڈلز سے 95 فیصد کم ہ، یہ ماڈل صرف 5.6 ملین ڈالر میں تیار کیا گیا ہے، یہ مصنوعی ماڈل دوسرے مصنوعی ذہانت سے زیادہ بہتر نتائج دیتا ہے، خاص طور پر ریاضی کے سوال حل کرنے میں یہ چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں بہتر نتائج دیتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے چین کے لیے سیمی کنڈیکٹرز کی برآمد پر پابندی عائد کررکھی ہے، یہ پابندیاں چین کو NVIDIA کے H100s جیسے اعلی کارکردگی والے چپس حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیویڈیا کا مصنوعی ذہانت پر مبنی نیا اور مفت چیٹ بوٹ متعارف، یہ چیٹ جی پی ٹی سے کیسے مختلف ہوگا؟
تاہم ، ڈیپیسیک نے پابندیوں سے پہلے حاصل کردہ پرانے NVIDIA A100 چپس کے ذخیرے کا فائدہ اٹھایا ، اور اپنے ماڈلز کی تربیت کے لیے کم صلاحیت والے H800 چپس استعمال کیے۔
مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیہ نڈیلا نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ڈیپیسیک کی کامیابیوں پر روشنی ڈالی اور کہا ’یہ انتہائی متاثر کن ہے کہ انہوں نے ایک کمپیوٹ-مؤثر، اوپن سورس ماڈل کس حد تک مؤثر طریقے سے بنایا ہے۔ دیپسیک جیسی پیشرفتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں: چیٹ جی پی ٹی سے ’بریک اپ‘ لیٹر لکھوانا کتنا مہنگا پڑسکتا ہے؟
مائیکروسافٹ کے ایک پرنسپل محقق ، دیمٹریس پاپیلیوپلوس نے اپنی سادگی کے لیے ڈیپ سیک ماڈل کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا ’ڈیپیسیک نے بنیادی کارکردگی پر توجہ مرکوز کی ، جس نے تاثیر کو برقرار رکھتے ہوئے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کیا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا چیٹ جی پی ٹی چین ڈیپسیک