سپریم کورٹ آئینی بینچ نے جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 جنوری 2025ء ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ کے آرٹیکل 191 اے کی تشریح کے نوٹس اور کیس دوبارہ اسی بنچ کے سامنے منتقل کرنے کے آرڈرز ختم کر دیئے، اس کے علاوہ آئینی بینچ کی جانب سے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کا بھی حکم دے دیا گیا۔
قبل ازیں دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے جسٹس منصورعلی شاہ کے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کیا، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ فیصلے میں منصور علی شاہ نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، منصور علی شاہ یہ اختیار استعمال نہیں کرسکتے تھے، فیصلہ غیرآئینی ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی، توہین عدالت فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے، جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر پر نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنایا، جس میں بینچ نے کمیٹیز کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے فائل چیف جسٹس کو ارسال کردی، عدالت نے قرار دیا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی، اس لیے نذرعباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے‘۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’انتظامی سطح پر جوڈیشل احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کے خلاف ہوتی ہے تاہم ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی، کمیٹیز کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے فائل چیف جسٹس کو ارسال کردی گئی ہے، چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو دیکھیں، فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے‘۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے توہین عدالت کی منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے آرڈر فل کورٹ کے خلاف
پڑھیں:
سپریم کورٹ؛ 9 مئی مقدمات میں ملزمان کی ضمانت منسوخی کی اپیلوں پر سماعت
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے 9 مئی مقدمات کے سلسلے میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
9 مئی مقدمات میں نامزد ملزمان کی ضمانت منسوخی کے لیے اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی درخواست ضمانت پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے حافظ فرحت عباس اور امتیاز شیخ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حافظ فرحت عباس کو جمعرات تک گرفتار کرنے سے روک دیا اور ان کی عبوری ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرلی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ امتیاز شیخ پہلے ہی عبوری ضمانت پر ہیں، جس پر سپریم کورٹ نے امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت میں جمعرات تک توسیع کر دی۔
9 مئی واقعات میں نامزد ملزم محمد فہیم قیصر کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکمنامے سے کارکنان کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ کوئی چھلیاں بیچنے والا ہے تو کوئی جوتے پالش کرنے والا، جنھیں 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹرائل سرگودھا کے بجائے میانوالی میں چلانے کی استدعا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ طے کریں عدالت کہاں ہوگی۔ یہ ٹرائل کورٹ نے خود طے کرنا ہے۔
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی آر ختم کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر ختم کرانے کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انسانی طور پر 4 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونا ممکن نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں ٹرائل 3 ماہ مکمل کرنے کا ذکر ہے۔ ہم اپنے تحریری حکمنامے میں ٹرائل مکمل کرنےکے لیے ڈیڈ لائن والی تاریخ بھی لکھ لیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تو ہر ہفتے عمل درآمد رپورٹس لے رہی تھیں۔ ہم 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے آپ چیلنج کر لیجیے گا، ہم اپیل خارج کر رہے ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ضمانت منسوخی کے لیے مجھے گزارشات تو کرنے دیں۔ ضمانت کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ضمانت کا غلط استعمال کیا گیا تو آپ متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہم سے تعاون کرنے کی بات کی جا رہی ہے، اور کیا سر کاٹ کر دیدیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 9مئی کے تمام کیسز پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی مرتبہ آرڈر جاری کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔