Nai Baat:
2025-01-30@06:45:54 GMT

مکہ مکرمہ واپسی…!

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

مکہ مکرمہ واپسی…!

(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں آٹھ راتوں کے قیام کے بعد ۲۸ جولائی کو میں نے اور اہلیہ محترمہ نے واپس مکہ مکرمہ آ جانا تھا جبکہ باقی لوگوں نے ابھی مزید تین راتیں مدینہ منورہ میں گزارنا تھیں۔ عمران اور راضیہ نے بھی ہمارے ہمراہ مکہ جانے کا پروگرام بنا لیا کہ وہ عمرہ ادا کرنے کے بعد اگلے دن واپس مدینہ منورہ آ جائیں گے۔ عمرے کی ادائیگی کے ساتھ انہیں ہمارا بھی خیال تھا کہ ہمیں واپس مکہ مکرمہ میں پہنچ کر بھاری سامان کے ساتھ ہوٹل پہنچنے میں کچھ دقت ہو گی، وہ ساتھ ہوں گے تو آسانی رہے گی۔ اس طرح ہم چاروں کا مکہ جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ مکہ روانگی کے لیے بس کے حوالے سے مدینہ منورہ میں ہمارے عمرہ آرگنائزر کے نمائندے عمران صاحب سے ہماری بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھاکہ ظہر کی نماز کے بعد بس آپ کے ہوٹل کے باہر آ جائے گی۔ اس سے قبل آپ نے اپنا سامان وغیرہ لے کے نیچے آ جانا ہو گا تا کہ بس کو انتظار نہ کرنا پڑے۔
ہم نے ظہر کی نماز مسجد نبوی ؐ میں ادا کی اور جلد ہی ہوٹل واپس آ گئے، سامان وغیرہ ہمارا پیک تھا۔ کھجوریں بھی ہم نے ہوٹل کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکان سے اسی دن خریدیں جو ہمیں مناسب نرخوں پر مل گئی تھیں۔ اب ہمارے یعنی میرے اور اہلیہ محترمہ کے پاس سامان میں تین اٹیچی کیسوں کے ساتھ کھجوروں کا ایک کرٹن بھی تھا۔ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے ہمیں بس کی آمد کا انتظار تھا ۔ اس کے لیے ہم عمران صاحب سمیت اِدھر اُدھر فون پر رابطہ بھی کر رہے تھے ۔ ہمیں آگے سے یہی جواب مل رہا تھا کہ آپ سامان کے ساتھ تیار رہیں، بس کچھ دیر میں آ جائے گی۔ ڈیڑھ دو بجے کے لگ بھگ ہم کمرے سے سامان لے کر نیچے ہوٹل کی لالی (استقبالیہ) میں آگئے اور وہاں بس کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ استقبالیہ پر ائیر کنڈیشنز بند تھے اور گرمی کا سماں تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو ہم نے واپس اوپر کمرے میں بھیج دیا کہ بس آئے گی تو پھر بلا لیں گے۔ وقفے وقفے کے بعد عمران اور واجد باہر ذرا فاصلے پر سڑک پر جا کر دیکھ لیتے کہ بس کہیں آ نہ گئی ہو۔ اس دوران ایک آدھ بس وہاں آ کر رُکی بھی ، لیکن وہ ہماری مطلوبہ بس نہیں تھی۔ انتظار میںکم و بیش ڈیڑھ دو گھنٹے مزید گزرے ہوں گے کہ پتہ چلا ہماری بس آ گئی ہے۔ دھوپ کچھ تیز تھی، گرمی بھی تھی ۔ اوپر کمرے سے اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو بلایا اور سامان کے ساتھ سڑک پر بس کے پاس پہنچے۔ واجد اور عمران نے ہمارے اٹیچی اور کھجوروں کا کرٹن بس
کے نچلے حصے میں سامان کی جگہ پر رکھا۔ ہم نے واجد کو الوداع کہا اور بس میں بیٹھ گئے۔ بس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک دو افراد کے علاوہ اور کوئی سواریاں نہیں تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ابھی مدینہ منورہ کے دیگر ہوٹلوں سے مکہ مکرمہ کے لیے اور افراد یا لوگوں نے بس میں سوار ہونا تھا۔ ہم بس کے اگلے حصے میں اپنی مرضی کی سیٹوں پر بیٹھ گئے تاکہ سفر کے دوران باہر کے مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں۔
سہ پہر پانچ بجے یا اس سے کچھ بعدکا وقت ہو گا کہ بس ہمارے ہوٹل کے سامنے سے روانہ ہوئی۔اس نے دیگر ہوٹلوں سے اور لوگوں کو جو ہماری طرح بس کے انتظار میں تھے اٹھاتے ہوئے مزید ایک آدھ گھنٹہ یا اس سے کچھ زائد وقت لگایا۔ بس مدینہ منورہ کی شاہراہوں سے باہر نکلی تو شام چھ بجے کے لگ بھگ کا وقت ہو گا۔ اب ہم لوگوں کی اگلی منزل مدینہ منورہ کے مضافات میں ذوالحلیفہ یا بہارِ علی (بئر علی) کی بستی تھی جہاں ہم نے عمرے کی نیت کر کے احرام باندھنا تھے۔ ذوالحلیفہ میں ایک وسیع و عریض مسجد ہے جہاں بڑی تعداد میں غسل خانے اور وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو اور لوگ بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ وضو کر کے ہم نے احرام باندھے ۔ ہم نے یہاں عصر کی قصر نماز پڑھی، عمرے کی نیت کی ، نوافل پڑھے اور باہر بس میں آ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور صاحب اور ان کے ساتھی نے اپنی سیٹیں سنبھالیں اور بس مکہ مکرمہ کی شاہراہ (شارع ہجرہ) پر رواں دواں ہو گئی۔

شام کا ملجگا، اندھیر چھا رہا تھا،بس چل رہی تھی۔ سڑک سے ہٹ کر کھجوروں کے درخت ، چھوٹے بڑے باغ اور کچھ سر سبز قطعات نگاہوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ ایک دوسرے سے ہٹ کر اور فاصلے پر بنے اِکا دُکا مکانات میں بجلی کے بلب روشن ہو چکے تھے۔ بس بڑی یکساں سپیڈ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی شاہراہ پر رواں دواں تھی۔ عمران کا خیال تھا کہ رات بارہ بجے تک بس ہمیں مکہ مکرمہ پہنچا دے گی جبکہ بس کی سپیڈ کو سامنے رکھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ یہ ہمیں رات کو ئی ایک بجے کے بعد ہی مکہ مکرمہ پہنچائے گی۔ اس دوران مکہ مکرمہ میں عمرہ آرگنائزر کے نمائندے شیر افضل کا فون آ گیا ۔ ان کا پوچھنا تھا کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ آ رہے ہیں اور آپ کس وقت تک مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ چار لوگ ہیںاور زیادہ امکان یہی ہے کہ ایک بجے کے لگ بھگ ہماری بس مکہ مکرمہ پہنچ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھ سے رابطہ رکھیے ۔ میں ادھر ہی آپ کے پہلے والے قیام کے ہوٹل المروج کے قریب ہی دوسرے ہوٹل فندق مشاعر الذ ھبیہ میں آپ کے پہنچنے تک موجود ہوں گا۔
کوئی دو اڑھائی گھنٹے کا سفر طے ہوا ہو گا کہ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے بنے ایک پر رونق ہوٹل کے سامنے بس روکی اور بتایا کہ ہم کوئی آدھا گھنٹہ یہاں رُکیں گے، آپ لوگ کھانے پینے کے ساتھ اپنی دیگر ضروریات سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ہلکے سے کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر باہر نکلے، میں نے ایک چکر لگایا اور بس میں آ کر بیٹھ گئے ۔ باقی لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور اور ان کا ساتھی بھی آ گئے اور بس ایک بار پھر اپنی منزل مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہو گئی۔

ہمیں اندازہ تھا کہ مکہ مکرمہ پہنچنے میں ہمیں اڑھائی تین گھنٹے لگیں گے کیوں نہ کچھ وقت کے لیے سو لیا جائے۔ میں نے سونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔آنکھیں بند ہوتیں تو بھی چند منٹوں میں دوبارہ کُھل جاتیں۔باہر کے مناظر بھی اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہے تھے البتہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کی اگلی روشنیاں اور ہمارے آگے جانے والی گاڑیوں کی پچھلی طر ف کی سرخ روشنیاں سامنے بس کی ونڈ سکرین پر باہم گُڈ مُڈ ہوکر نظر آ رہی تھیں۔ میں نے ایک بار پھر سونے کی کوشش کی ۔ کچھ دیر کے لیے سویا بھی لیکن پھر جاگ پڑا۔ اسی دوران ہمیں مکہ مکرمہ سے شیر افضل صاحب کا یہ پوچھنے کے لیے فون آیا کہ ہم کتنی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے اندازے سے انہیں بتایا کہ ہمیں مکہ مکرمہ پہنچنے میں شاید مزید ایک دو گھنٹے لگ جائیں گے۔

گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں ۔ کوئی پونے ایک بجے یا اس کے ذرا بعد کا وقت ہو گا کہ ایسے لگا کہ بس مکہ مکرمہ کے مضافات میں سے گزر رہی ہے۔کچھ ہی دیر میں دُور مکہ رائل کلاک ٹاور کی روشنیاں نظر آناشروع ہو گئیں بلکہ بس جس سڑک (شارع) سے گزر رہی تھی اس پر مسجد الحرام کی طرف اشارہ کرنے والے بورڈ بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔ بس چلتی رہی اور کچھ ہی دیر میں اس نے ہمیں ہمارے ہوٹل کے قریب شارع ابراہیم خلیل پر بنے سٹاپ جو ایک مسجد (غالباً مسجد بخاری )سے متصل ہے پر پہنچا دیا۔ ہم گاڑی سے اترے تو سامنے مکہ رائل کلاک ٹاور کے کلاک کی چمکتی سوئیاں کوئی ڈیڑھ بجے کا وقت دکھا رہی تھیں۔ عمران نے بس سے سامان اتروایا۔ میں نے شیر افضل صاحب کو فون کیا کہ ہم شارع ابراہیم خلیل پر بس سٹاپ سے اترے ہیں۔ شیر افضل صاحب نے بتایا کہ آپ سڑک پار کر کے بائیں طرف نکلنے والے راستے پر ذرا چڑھائی پر اوپر آ جائیں، سامنے ہی ہوٹل مشاعرالذھبیہ ہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اہلیہ محترمہ مکہ مکرمہ کے سامنے بتایا کہ شیر افضل بیٹھ گئے ہوٹل کے کے ساتھ رہی تھی کچھ دیر نے ایک کے بعد کا وقت اور بس کے لیے بجے کے تھا کہ

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کو سیاست کا حق ہے، بلاول صاحب کو کوئی ایشو ہے تو ہمیں بلائیں، رانا ثنااللہ

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں سیاست کرنے کا حق ہے، اگر بلاول بھٹو کو کوئی ایشوز پتا ہیں تو ہمیں بلائیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو جب اپوزیشن ریلی پشاور سے چلی تب سے گولی چل رہی تھی چونگی نمبر 26 پر گولی کس نے چلائی؟ جس سے سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔

 رانا ثناءاللہ نے کہا کہ اٹک پل سے لیکر اسلام آباد تک دس بارہ مقامات پر تشدد ہوا وہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہوئے تشدد اس جتھے نے کی جو مسلح اسلام آباد پر چڑھائی کر رہا تھا ایسا تو نہیں کہ کسی نے چھاپہ مارا یا حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ یہ ہے کہ اسلام آباد پر مسلح چڑھائی کی گئی جو واقعہ جہاں ہوا، اس کا مقدمہ درج ہوا ہے، ایف آئی آرز درجنوں کی تعداد میں ہے سب کی انکوائری جاری ہے، تمام ایف آئی آرز کے عدالتوں میں چالان پیش ہونگے 22 میں سے 8 آئی ایف آرز عدالتوں نے ڈسچارج کردیں باقی ایف آئی آرز پر عدالتوں میں کارروائی جاری ہے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر عمران خان کہتے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھیں گے تو یقین دلاتا ہوں میاں صاحب کی جانب سے مثبت جواب آتا، عجیب و غریب تبصرہ کیا گیا کہ میاں صاحب بارہویں کھلاڑی بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب نے 21 اکتوبر کو کہا کہ ملک جہاں پہنچ گیا ہے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا، جیل جا کر ملاقات کرنا اور چیز ہے، نواز شریف کی جانب سے قومی ایشوز پر ہٹ دھرمی کا رویہ نہیں اپنا گیا۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ میاں نواز شریف عمران خان کی تیمار داری کےلئے ہسپتال اور گھر بھی گئے پارلیمانی جمہوری سسٹم مذاکرات سے آگے بڑھتا ہے، ڈیڈ لاک سے نہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ 26 نومبر کو جو راستہ سڑک سے نکالنا چاہتے تھے نہ پہلے نکلا نہ آئندہ نکلے گا، اگر اس بات کو اب بھی نہ سمجھیں گے تو اپنا اور جمہوریت کا نقصان کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ راستہ جب بھی نکلنا ہے وہ مذاکرات کی ٹیبل سے نکلنا ہے 25 نومبر کو اگر سنگجانی بیٹھ جاتے تو مذاکرات سے راستہ نکل آتا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے دوبارہ آج غلطی کی کہ مذاکرات سے باہر ہوئے، پی ٹی آئی کا انتظار آئندہ الیکشن 2029 تک کریں گے، وزیراعظم نے بھی مذاکرات کا راستہ اپنانے کا کہا ہے، پی ٹی آئی اپنی بات پر قائم رہے لیکن مذاکرات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سسٹم میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف آپس میں بائیکاٹ نہیں کر سکتے یہ ڈیڈ لاک ہوتا جس سے پارلیمنٹ آگے نہیں چل سکتی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ہے، انہیں سیاست کرنے کا حق ہے، پنجاب میں جو ایک کمیٹی بنی ہے  گورنر ہاؤس میں اجلاس میں تمام مسائل حل کئےپنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں کوئی ایشو نہیں، اگر بلاول صاحب کو کوئی ایشوز پتا ہیں تو ہمیں بلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • پھانسی سے 24گھنٹے قبل 2دوست قیدیوں کومعافی مل گئی
  • بلاول صاحب کو کوئی ایشو ہے تو ہمیں بتائیں ‘ رانا ثنا
  • 31 جنوری کو ملک گیراحتجاج اور دھرنے دیں گے، ہمیں روکا گیا تو پرامن مزاحمت کریں گے
  • پیپلز پارٹی کو سیاست کا حق ہے، بلاول صاحب کو کوئی ایشو ہے تو ہمیں بلائیں، رانا ثنااللہ
  • عمرہ پیکج اور ہوٹل کرایوں میں اضافہ، رمضان میں سفر مزید مہنگا
  • حکومت میں ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، راجہ ناصر علی خان
  • سجاول: نا معلوم افراد کا ہوٹل مالک پر حملہ، پولیس نے کارروائی نہ کی
  • خوشیوں کے راز تلاش کیجیے!
  • میرا بس چلے تو ٹیکس ریٹ 15 فیصد کم کردوں لیکن آئی ایم یف کی مجبوری ہے، وزیراعظم