’’دعائوں میں یا رکھنا‘‘ محاورہ بن چکا مگر دعا تو نعمت ہے جس کا تعلق انسانوں کے درمیان حقیقی تعلق سے ہے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہی دل سے دعاگو ہوتے ہیں اور ویسے بھی جو دل خوش ہے وہ دل دعا ہے جو دل ناراض ہے وہ دل بددعا ہے چاہے زبان خاموش ہی کیوں نہ ہو۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ اللہ سے کرنے والی باتیں لوگ اپنے مخاطب سے ہی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تمہیں یہ کر دے، یہ دے دے، اللہ تمہیں کامیاب کر دے مگر دعا کا اصل تو وہ اہتمام ہے جب بندہ اپنے معبود سے مخاطب ہے تو پھر کس کس کے لیے کیا کیا دعا مانگتا ہے یہ حقیقی دعا ٹھہرتی ہے اور میرے خیال سے اب دعا ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔
اسی طرح توجہ دعا کا مغز ہے جو آپ کی توجہ میں رہتا ہے آپ اس کے لیے خاموشی میں بھی سراپا دعا ہیں۔ محض دعا تو جگالی ہے دراصل توجہ ہی دعا ہے۔ اللہ نہ کرے کسی کا کوئی مصیبت میں آ جائے اس کے متعلق توجہ اور نظر ہر وقت رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ہو تو بھوک لگتی نہ خوشی اچھی لگتی ہے، لباس بدلنا اچھا نہیں لگتا بس توجہ اس رشتے کی طرف ہوتی ہے یہ توجہ کا تسلسل دراصل دعا ہے اور بعض اوقات تو اللہ کو مخاطب کرنے سے پہلے ہی توجہ حاوی ہوا کرتی ہے۔ ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق پورے انہماک کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ اللہ کے ماننے والے رب سے مخاطب ہوتے ہیں، ہندو بھگوان اور ایشور کا نام لیتے ہیں۔ اور تو اور دہریے جس شخص کے ساتھ ان کا رشتہ یا تعلق ہو وہ کسی کو مخاطب کریں نہ کریں ان کی توجہ اس کے لیے ان کے آنسو دعا ہی ہوا کرتے ہیں اور Non Believer کس کو سناتا ہے؟ مگر ان کو بھی سب کچھ مل جاتا ہے جو طلب ان کے من کی دنیا میں اُمڈ آئے اور اس کی طرف توجہ کریں۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہم دعا کرتے ہیں کچھ مسنون دعائیں ہیں لیکن توجہ خودبخود دعا بن جایا کرتی ہے۔ اس میں مادری زبان ہی دل کھول کر اپنا مقدمہ بیان کیا کرتی ہے۔ میری دو تین روحانی شخصیات سے نیازمندی ہے۔ وہ کہیں بھی ہوں میں کسی معاملے میں الجھ جائوں تو ان سے خصوصی دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ الحمد للہ! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی دعا میرے لیے قبول نہ ہوئی ہو۔ اس کی وجہ صرف توجہ ہے البتہ ذاتی طور پر میری قوت نماز حاجت ہے جو چھٹی جماعت میں مجھے عطا ہوئی۔ روحانی شخصیت میرے نزدیک وہ ہے جس کے بشریت کے تقاضوں پر جو بنیادی ضرورتوں سے زائد ہوں پر روح کی پاکیزگی حاوی رہے جس کے وجود یا بدن کو روح لے کر چلے نہ کہ جو بت اسے عطا ہوا وہ اپنے بشری تقاضوں سے روح کو اتنا خوار کر دے کہ روح کے بار بار پکارنے پر یاد لانے پر بھی وہ اس کی نہ سنے اور بالآخر اس کے بشری تقاضے اس کی روح کو اتنا پراگندہ کر دیں کہ بذات خود بدروح کہلائے۔ بات تھوڑی مشکل ہو گئی۔ یہ پیار محبت عشق کے الفاظ اتنے بے دریغ استعمال ہوتے ہیں کہ اب ان کے مفہوم ہی بدل گئے۔ یہ ایک کاروباری زبان کے لیے مقبول ترین الفاظ بن گئے۔ میں روحانی ابلاغ کو ہی تعلق اور تعلق کی معراج سمجھتا ہوں۔
میرے ایک دوست میاں نعیم نے کہا ’’لوگ آج کل سجدوں میں بھی لوگوں کا بُرا مانگتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا لوگوں کو تکلیف دینے والے، منافق، غاصب، فاجر، فاسق سجدوں میں ہی تو قابو آتے ہیں جب لاچار انسان کائنات اور سارے جہانوں کے حقیقی بادشاہ کے سامنے سجدہ ریز ہو اب کوئی ظالم اور آستین کا سانپ سجدوں میں مانگی جانے والی نجات سے تو منع نہیں کر سکتا۔ 2012 میں عمرہ پر جا رہا تھا تو منافق دفتر میں ملے۔ ایک نے کہا کہ ہمارے لیے بھی دعا کیجئے گا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو دعا کرنی ہے ’’یااللہ جو کوئی میرے لیے جیسا سوچتا ہے تو اس کے لیے ویسا ہی معاملہ کر دے‘‘۔ وہ فوراً چلا کر بولا یہ تو بد دعا ہے۔ میں نے کہا تم میرے لیے بھلائی سوچ لو پھر اس کو بتایا کہ یہ حضرت علیؓ کی دعا تھی۔ کہنے لگا کہ ان کی تو بڑی لمبی چوڑی دشمنی تھی۔ میں نے کہا کہ آقاؐ کا غلام ہوں حضرت علیؓ کا پیروکار ہوں ہمارے حصے میں جتنی دشمنی آئی تھی نبھا رہا ہوں۔
میرے ایک جاننے والے عمرہ پر گئے وہاں سے اس نے دعائیہ پیغام بھیجا، پھر وہ در اقدس سرکارؐ کے قدموں میں گیا تو ریاض الجنۃ سے واٹس ایپ میسیج کیا کہ آصف بٹ صاحب میں نے آپ کا سلام بھی پہنچا دیا، حاضری لگوا دی اور دعا بھی کر دی۔ میں اس کو ان دونوں حرمین شریفین میں یاد آیا جو گواہی تھی کہ میرا دل اس کے لیے کبھی بُرا نہ تھا اور آئندہ تو بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ دوسرے دوست نے بتایا کہ مکہ مدینہ میں دعائیں کرنے والا حاضری لگوانے والا آپ کی غیر موجودگی میں بکواس کرتا ہے۔ مجھے امام جعفر صادق ؑ کا کہا ہوا یاد آ گیا۔ کوئی شخص ان کے پاس آیا کہ فلاں بندہ آپ کو تبرہ بول رہا تھا۔ امام نے فرمایا کہ اس نے تیر ہوا میں چھوڑا، تم نے میرے سینے میں اتار دیا۔ یوں تو نہیں معلوم کہ اگلا سانس بھی آئے کہ نہ آئے لیکن اللہ اگر تندرستی اور زندگی رکھے تو اس پر کرفیو لگا سکتا ہوں، اس سے تعلقات ختم کر سکتا ہوں۔ اب ایسے لوگوں کا کیا کریں جن کے حقیقی چہرے ہی ساری ساری زندگی گزر جائے اور سامنے نہ آئیں۔ایک روحانی شخصیت سے ایسی نیاز مندی ہے کہ بیان کرنے کو الفاظ نہیں۔ علامہ صاحب نے فرمایا تھا:
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
انہوں نے اپنی نظر سے میری تقدیر بدل کر رکھ دی۔ میرا کردار بدل کر رکھ دیا۔ ان کے لیے وہ میری توجہ کا اس قدر مرکز ہیں کہ نہیں معلوم اپنی عاقبت کے لیے پچھلے پہر رات کو اٹھتا ہوں یا ان کے لیے دعا کرنے کیلئے گویا…
تیرے غم نے
میرے کان میں
شام در آنے کی
سرگوشی کی ہے
تمہیں تو پتہ ہے
تمہاری یاد میرے رتجگوں
کی رُت ہے
اور پھر درد اتنا کہ جیسے
دل کی مخملی پرتوں سے
کانٹوں کو کھینچ کر
نکالا جائے
تمہارے فراق کے
رت جگوں میں
دیوانگی کا یہ عالم ہے
کہ کچھ پتہ نہیں
کہ کیا مانگتا ہوں
تمہیں یا جنت
یا پھر ایک ہی بات ہے!!
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: میں نے کہا اس کے لیے ہوتے ہیں دعا ہے
پڑھیں:
افسوس میرے سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ افسوس سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں،میرا تعلق کے پی سے ہے، ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کی وجہ سے سوال کرتی ہوں،افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے،ہمیں بے لگام معاشرے کا سامنا ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیونیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے، اس کا جائزہ لے،زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے،جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلا تا ہے،پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو فراہم ہونا چاہئے، آج کل ہمارا ملک میں اتنا ٹرینڈ ہو چکا ہے کہ 8ججز کے فیصلے کو 2لوگ بیٹھ کر کہتے ہیں غلط ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ افسوس سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں،میرا تعلق کے پی سے ہے، ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کی وجہ سے سوال کرتی ہوں،افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے،ہمیں بے لگام معاشرے کا سامنا ہے۔
زلزلے کے جھٹکے
مزید :