Jasarat News:
2025-01-30@07:03:27 GMT

صدر ٹرمپ اور سستی کی افادیت

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

صدر ٹرمپ اور سستی کی افادیت


امریکا کو پیرس معاہدے سے باہر نکالنے، فوسل فیول کی پیداوار بڑھانے والے اقدامات کی یلغار کرنے، سب سے پہلے امریکا کے مفاد کا راستہ اختیار کرنے اور سابق صدر بائیڈن کے متعدد احکامات ختم کرکے، وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ نے پہلے ہی دن جو پھرتیاں دکھائیں اس کے بعد دنیا کو یقینا سستی اور سست الوجود لوگوں کی افادیت کا احساس ہو گیا ہوگا اور غالب کا وہ بے مثل شعر بھی یاد آگیا ہوگا۔

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

ہم صدرٹرمپ کی پھرتیوں پر لکھنا چاہ رہے تھے لیکن بات سستی کی آجائے تو پھر سستی کے سوا کچھ اور! ناممکن۔ غالب جسے تصور جاناں میں رات دن بیٹھنا کہتے ہیں وہ راحت جاں سُستی ہے۔ سستی زندگی کی شاعری ہے۔ سُستی دنیا کی سب سے سستی نشہ آور چیز ہے۔ سردی کے روزو شب ہیں۔ سردی سُستی سے لطف اٹھانے کا موسم ہے۔ بستر سستوں کی عبادت گاہ ہے۔ دن کا صحیح مصرف آرام کرنا ہے۔ سارے دن آرام کرکے تھک جائیں تو پھر رات کو چین سے سوئیں۔ سستی سے موت نہیں آتی۔ موت زیادہ کام کرنے سے آتی ہے۔ اعضا جواب دے جاتے ہیں۔ دل، کمر اور پھر آخر میں گردن ڈھلک جاتی ہے۔ کام کم اور دل بڑا رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہم ایک سست آدمی ہیں۔ ہمیں تو خواب میں بھی نیند ہی آتی ہے۔ محبوب سے بھی ہم یہی کہتے تھے ’’دھیرے دھیرے سے میری زندگی میں آنا‘‘۔

ہم نے آج کا کام کبھی کل پر نہیں ٹالا۔ پرسوں میں کیا یا پھر برسوں میں۔ شاہکار جلدی میں نہیں برسوں میں تخلیق ہوتے ہیں۔ سست روی عظیم شہ پارے تخلیق کرتی ہے۔ عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی اپنی تحریریں سست روی سے مکمل کرتے اور پھر ’’پال‘‘ میں لگا کررکھ چھوڑتے۔ مدت بعد دوبارہ پڑھتے۔ پھر فیصلہ کرتے کہ فروختنی ہے کہ سوختنی۔ ’’زرگزشت‘‘ کا پہلا باب انہوں نے ایک سال میں لکھا اور کتاب پانچ سال میں۔ آب گم انہوں نے بارہ سال میں مکمل کی۔ لیو نارڈو ڈاونچی نے ’’مونا لیزا‘‘ سولہ برس میں مکمل کی۔ ’’لاسٹ سپر‘‘ انہوں نے پندرہ برس میں مکمل کی تھی۔ انیسویں صدی کے مشہور کیمیا دان آ گسٹ کیکیولے نے بینزین کی کیمیائی ساخت خواب میں دیکھی تھی جب اس نے بندروں کو ایک دوسرے کی پونچھ پکڑے ایک حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا۔ اسی انداز میں اس نے بینزین کے ایٹموں کو ایک حلقے کی صورت ترتیب دیا اور بینزین کی ساخت کا مسئلہ حل ہوگیا۔ آرگینک کیمسٹری میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ نیوٹن اگر آلکس کے مارے درخت کے نیچے نہ بیٹھا ہوتا اور چست اور چالاک لوگوں کی طرح سیب کھالیتا تو ’’کشش ثقل کا قانون‘‘ صرف سیب کو پتا رہتا۔ ارشمیدس ٹب میں لیٹنے کے بجائے اگر کسی تند وتیز سمندر میں ہاتھ پائوں مار رہا ہوتا تو دنیا ایک عظیم قانون سے محروم رہ جاتی۔ سستی اک خوشبودار نشہ ہے۔ سستی دنیا کی سب سے سستی شے ہے۔ دنیا میں نغمگی سُستی کے دم سے ہے۔

کبھی ٹھیر کے سنی ہے بہائو کی آواز
سبک ندی میں کسی سست نائو کی آواز

سستی اور کاہلی میں ایک بنیادی فرق ہے۔ کاہلی کسی کام کی مشقت سے بچنے کی عادت ہے جب کہ سستی کسی کام کو آہستہ اور دھیمی رفتار سے کرنے کو کہتے ہیں۔ سست افراد کی انجمن کے سالانہ اجلاس میں سب ارکان سناٹے میں تھے۔ ایک رکن نے صدر پر اعتراض کردیا تھا۔ اعتراض کی نوعیت بہت سنگین تھی۔ رکن کا کہنا تھا میں نے صدر صاحب کو انتہائی تیز رفتاری سے کار چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسپیڈ کم ازکم سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہوگی۔ صدر صاحب چپ تھے۔ بمشکل بولنے پر راضی ہوئے۔ ’’بات یہ تھی کہ کار چلاتے ہوئے پائوں غلطی سے بریک کے بجائے ایکسی لیٹر پر رکھا گیا۔ اب بھئی کون پائوں ہٹاتا۔ ایکسی لیٹر پر پائوں رکھ دیا تو رکھ دیا۔ رفتار تیزہوتی چلی گئی‘‘۔
سر شام ہمیں ایک صاحب نے کہا ’’آپ نے وہ کام کیا ہے کہ صبح تک پچھتاتے رہیں گے‘‘۔ ہم دوپہر تک سوتے رہے۔ ان کے اندازہ تیل ہوگیا۔ اس کالم کا مقصد آپ کو ایک اہم بات سے آگاہ کرنا تھا۔ چھوڑیے پھر کبھی بتائیں گے تب تک آپ کسی اور سے پوچھ لیجیے۔

تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کے معنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں

ہم برصغیر کے لوگ سستی کو پسند کرتے ہیں۔ عمران خان حکومت کی ہمیں کوئی بات اگر پسند تھی تو انڈوں، مرغیوں سے دولت مند بننے کا آئیڈیا پسند تھا۔ شیخ چلی کے دور میں بھی ممکن ہے کسی نے یہ آئیڈیا پیش کیا ہو جس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ایک انڈہ خریدا تھا۔ انڈہ ہاتھ میں لیے سوچتے جارہے تھے۔ یہ انڈہ کسی مرغی کے نیچے رکھ دونگا۔ انڈے سے چوزہ نکلے گا۔ چوزہ کچھ ہی دنوں میں مرغی بن جائے گا۔ مرغی کا جوڑ محلے کے کسی مرغے سے لگوا دوں گا۔ تھوڑے ہی دنوں میں انڈے اور مرغیاں۔ انڈے اور مرغیاں۔ انڈے اور مرغیاں۔ چھوٹا سا پولٹری فارم بن جائے گا۔ اسے بیچ کر ایک بڑا پولٹری فارم خرید لوں گا۔ پھر ایک اور۔۔ پھر ایک اور۔ اتنے میں راہ چلتے ایک شخص سے ٹکرا گئے۔ انڈہ نیچے گرا اور ٹوٹ گیا۔ شیخ چلی اس شخص کے گلے پڑگئے۔ وہ شخص حیران! حضرت ایک انڈہ ہی تو ٹوٹا ہے اس پر اتنا ہنگامہ، اتنا شور۔ آپ مجھ سے انڈے کی قیمت لے لو۔ شیخ چلی بولے ’’ظالم تو کتنے انڈوں کی قیمت ادا کرے گا۔ انڈہ نہیں تونے ایک پولٹری فارم توڑا ہے‘‘۔ ہم نے بھی عمران خان کی اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے آمدنی بڑھانے کے لیے ایک مرغی خریدی تھی۔ چند دن بعد ہی جسے ایک ظالم بلا کھا گیا۔

ہر مرغی کے ہاتھوں میں ہے قوم کی تقدیر
ہر انڈہ ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

جلدی کا کام شیطان کا۔ زیادہ کام کرنے والے اوور ہیٹ انجن کی طرح ہوتے ہیں جلد بیٹھ جاتے ہیں۔ زیادہ کام کرنے والے حسن فطرت کی بے چین روحیں ہیں۔ بستر جیسا راحت کدہ انہیں تنور لگتا ہے۔ آرام بھی وہ اس طرح کرتے ہیں جیسے تنور میں بیٹھے ہوئے ہوں اور اپنی ہی ران بھون رہے ہوں۔ چلتے پھرتے بھی اس رفتار اور بے چینی سے جیسے پائوں میں موزوں کی جگہ انگارے پہنے ہوئے ہیں۔ زیادہ کام کرنے والے دنیا میں شکایت کنندگان کا ٹولہ ہیں۔ نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ اوروں کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی اسی دریچے میں کھڑے رہتے ہیں جہاں شکایت کنندگان کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ کام، پیسہ، نام اور قبر۔ بچوں کو بھی وہ اسی راہ پر لگا جاتے ہیں۔ والدین کی قبر پر حاضری تو کجا ان کے پاس یاد رکھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ہم نے تو اکثر ایسے بچوں کو شکوہ کرتے ہی دیکھا ’’ہمارے باپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘‘ کبھی اپنی بالکونی سے سڑک کا منظر دیکھیے۔ ہر شخص بھاگم بھاگ کسی اذیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ زیادہ محنت اگر آپ کو کامیاب تاجر بناتی ہے تو یہ بھی یاد رکھیے زیادہ ٹیکس بھی تاجروں کو ہی دینا پڑتا ہے۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور حکومت ان ہی کی جان کے درپے ہوتی ہے۔ یہ بیوقوف ہی انکم ٹیکس افسران کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا محنت اور کام کے ٹارچر سیل سے نکلیں زندگی مشین نہیں اللہ کا بندہ بن کر گزاریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: زیادہ کام کرنے انہوں نے

پڑھیں:

غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!

لاس اینجلس میں لگی آگ کی راکھ ابھی صاف بھی نہ ہوپائی تھی کہ سیمابی طبیعت کے حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ کی صفائی کا خیال ستانے لگا، ان کی خواہش ہے کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن کو قائم کیا جاسکے، اس ضمن میں انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات بھی کرلی ہے جب کہ مصری صدر سے بھی رابطے کے خواہش مند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ہم اس سارے معاملے کو صاف کررہے ہیں، میں پوری غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، یہاں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے، دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ امریکا غزہ کے باشندوں کی بڑی تعداد انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے، دریں اثناء امریکی وزیرخاجہ مارکو روبیو نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا حصہ بننے پر اظہارِ مسرت کیا، مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت برقرار رکھنا ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی ترجیح ہے، ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں، خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہیں، نیتن یاہو نے اسرائیل کی دفاع کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال پر مصر کی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کو مسترد کردیا ہے، اردن کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرتا ہے اور اس عزم میں ہم ثابت قدم اور غیر متزلزل ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید اور مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کا کہنا ہے کہ ہم تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے، ہم نے 15 ماہ تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کیا ہے، ہم نے موت اور تباہی تک کو برداشت کیا، ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان اطلاعات پر غزہ کے باشندوں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے، یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے، ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے کہ ہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایا جائے، ماضی میں بھی ہمیں اپنی مقدس سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی اب پھر کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد غزہ میں اچانک جنگ بندی پر کئی حلقے اس امر کے منتظر تھے کہ ’’دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟‘‘ بادی النظر میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ فلسطین اور یوکرین سمیت ہر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے کوشش کریں گے جہاں جنگ جاری ہے مگر جو حقائق و عزائم سلسلہ وار منظر پر عام آرہے ہیں، اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے، یوں تو فلسطینیوں کو بے گھر کرکے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے تاہم غزہ جنگ کے فوری بعد بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نہ بھی کیا جاتا تب بھی غزہ پر اسرائیل کسی صورت حملے سے باز نہیں آتا، اب ایک بار پھر اس خدشے کے عملی مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اسرائیل غزہ کو اس کے ساحلی گیس کے وسائل کی وجہ سے مکمل طور پر خالی کرانے کا خواہش مند ہے، جب اس خواہش کی بیل کسی طور منڈھے نہ چڑ ھ سکی تو اس نے 8 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کو جواز بنا لیا، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جان بوجھ کر انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا گیا، پے درپے بمباری کے ذریعے اسپتالوں اور رہائشی مکانوں کو ملیا میٹ کیا گیا، رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ کو عملاً کھنڈرات میں اسی لیے تبدیل کیا گیا کہ غزہ کسی طور رہائش کے قابل نہ رہ سکے اور غزہ کے باشندے غزہ خالی کردیں اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے، بد قسمتی سے امریکی انتظامیہ اسرائیل کے ان عزائم اور منصوبوں کی ہمرکاب ہے، غزہ پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری اور اب ٹرمپ کے حالیہ عزائم اس امر کی حقیقت پر دال ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ارشادات انہی منصوبے کا حصہ ہیں، اس صورتحال کو غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، فلسطین کے ساحل سے تقریباً 36 کلومیٹر مغرب میں بحیرۂ روم میں واقع ایک قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے، یہ ذخیرہ فلسطینی علاقوں میں دریافت ہونے والا پہلا گیس فیلڈ ہے، جو غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے میدان میں ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذخیرہ 1.1 ٹریلین کیوبک فٹ گیس پر مشتمل ہے، جو بیس سال تک سالانہ 1.5 بلین مکعب میٹر گیس فراہم کر سکتا ہے۔ گیس کے یہ ذخائر سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور غزہ میں جب تک حماس موجود ہے اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تاہم اسرائیل، امریکا اور مغرب کے جو بھی عزائم ہوں، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت پر کسی طور خط ِ تنسیخ نہیں پھیرا جاسکتا اور نہ ہی زور بردستی غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جاسکتا ہے، اردن سے کہا جارہا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دے جب کہ بائیس لاکھ فلسطینی پہلے ہی وہاں پناہ گزین کمیپوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ لبنان، شام، مصر، سعودی عرب، کویت، قطر، ترکی اور دیگر ممالک میں لاکھوں فلسطینی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے ہی ہفتے جس نوع کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی پر مبنی امریکا کی تباہ کن خارجہ پالیسی جوں کی توں برقرار رہے گی اور ٹرمپ بھی صہیونی قیادت کی زلفِ گرہ گیر کے اسی طرح اسیر رہیں گے جس طرح ان کے پیش رواسرائیلیوں پر فریفتہ تھے، جو مہلک بم، بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس سے انسانی المیہ جنم لے گا، اسرائیلی محبت میں وہ مہلک بم بھی اسرائیل کو فراہم کردیے، اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں تاریخ میں انہیں امن قائم کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے مگر حالیہ بیان کسی طور بھی ان کی اس خواہش سے ہم آہنگ نہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے سے وہاں کے باشندوں کی جبری بے دخلی جنگی جرم اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے، فلسطینی باشندے کسی بھی قیمت پر ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، 15 ماہ تک غزہ کے عوام نے اپنے عزم، ہمت اور استقامت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ غزہ تو کیا اس کی ایک انچ زمین سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کی علی الرغم جارح قوت کو روکنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے عزائم جلتی پر تیل چھڑنے کے مترادف ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ تیل چھڑک کر آگ لگانے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، امریکا اور مغرب کا یہی وہ دہرا طرز عمل ہے جس کے رد عمل کو دہشت گردی پر محمول کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے آنے کے بعد
  • دجال آ چکا ہے
  • ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں
  • ٹرمپ کے سامنے گٹھنے ٹیکنے سے انکار، امریکی صحافی نے استعفیٰ دے دیا
  • حکومت کا صنعتوں کو سستی بجلی اور تنخواہ داروں کو ٹیکس میں ریلیف دینے کا عندیہ
  • یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی اب سستی چینی نہیں ملے گی
  • ڈیپ سیک کی مقبولیت ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے، ٹرمپ
  • غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!
  • بجلی مزید سستی ہوگی م بس چلے ٹیکس 15فیصد کم کرسوں ، آئی ایم ایف کی مجبوری ہے : شہباز شریف