Jasarat News:
2025-04-16@22:34:36 GMT

اعلان برائے تبدیلی نام

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

اعلان برائے تبدیلی نام

اخبارات میں تبدیلی نام اور تبدیلی پتا کے چھوٹے چھوٹے اشتہارات تو آپ نے دیکھے اور پڑھے بھی ہوں گے۔ کبھی تو ان کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے گھر یا دفتر کا ایڈریس تبدیل ہوجانے پر اشتہار کے ذریعے آگاہی دینا قانونی اور کاروباری ضرورت ہوتا ہے، نام تبدیلی کبھی اس لیے ہوتی ہے کہ واقعی نام تبدیل کرنا ’’مجبوری‘‘ بن جاتا ہے، ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا اور پیش کیے گئے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں کہا گیا ہے کہ نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی۔ اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا، اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔ حکومت نے بل پیش کرنے کی وجہ بھی بتائی۔

ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت 3 سال کی سزا دی جاسکے گی، غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہوگا۔ یہ بل حکومت کی ضرورت پوری کرسکے گا یا نہیں۔ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، بس تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کا محاورہ سامنے رکھ ہم بھی انتظار میں ہیں اس قانون کا حکومت کو کیا فائدہ ہوگا۔ سادہ الفاظ میں اس قانون کے بارے میں بات کی جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے اب اگر کسی نے کسی دوسرے کے بارے جھوٹ لکھا یا بولا‘ بہتان تراشی کی تو قانون حرکت میں آجائے گا۔ یہ سب کچھ درست‘ ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ کچھ لوگوں نے مذاق ہی بنالیا تھا، جو منہ میں آئے کہہ رہے تھے‘ یہاں تک تو قانون درست، تاہم ایک بات ضرور سمجھ میں آنی چاہیے… اور یہاں تک بات درست بھی ہے لیکن حکومت یہ تو بتا دے کہ اب فارم 47 کی بات ہوگی یا نہیں ویسے تو اگر کسی بھی شخص کے بارے میں فارم 47 کہا اور بولا جائے تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، بس یہ معلوم کرنا تھا کہ اب کسی نے بھی فارم 47 کا ذکر چھیڑا تو اسے سزا ہوگی یا نہیں ہوگی؟ بل میں یہی کہا گیا ہے کہ غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیرشائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہوگا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا شامل ہوگا۔

آج کل تو اگر حکومت کی جانب اشارہ کرکے فارم 47 بولا جائے تو حکومت اشتعال میں آجاتی ہے یہ بھی پوچھنا تھا کہ کسی کو اشتعال دلانا بھی اسی زمرے میں آئے گا؟ پوچھنا اس لیے ہے کہ احتیاط لازم ہے، پہلے حکومت اپوزیشن کو کنٹرول کیا کرتی تھی، اب میڈیا بھی کنٹرول کرنا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے کوئی علم نہیں، کسی بھی حکومت سے اگر اس کی وجہ معلوم کی جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے ہی حکومت کی شدید مخالفت کی جاتی ہے، اب سمجھ میں آئی کہ حکومت کی مخالفت نہیں کرنی، سب اچھا کی رپورٹ دینی ہے۔ شہباز حکومت، بہت ہی اچھا کام کر رہی ہے بہتر ہوتا کہ یہ حکومت اس بات کی بھی وضاحت کردیتی کہ اگر کوئی سابق نگران وزیر اعظم یہ کہے کہ ’’اگر زیادہ باتیں کیں تو فارم 47 کی حقیقت سامنے لے آئوں گا‘‘ یہ بھی لفظ لکھنے ہیں یا نہیں۔ چونکہ احتیاط لازم ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پہلے تولا جائے پھر بولا جائے۔ پہلے سوچا جائے اور پھر لکھا جائے، حکومت یہ قانون بنا چکی ہے اس میں ایک بات کی اپنی ایک اہمیت ہے وہ ہے آئین اور آئین شہریوں پر کیا پابندی لگاتا ہے اور کس کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیا تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں کرے گا نہ کرنا چاہیے۔ اسمبلی میں پیش کیے گئے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں کہا گیا ہے کہ نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی۔ اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا، اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔ اب ملک میں یہی قانون ہوگا اور یہ نافذ ہوچکا ہے۔ گویا نام کی تبدیلی کا اشتہار چھپ چکا ہے۔ کبھی بھول کر فارم 47 کا کوئی ذکر نہ کرے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: غیرقانونی مواد حکومت کی جائے تو فارم 47

پڑھیں:

نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لانی ہے ،ہم ای میل کاپی پیسٹ نہیں کر سکتے،  جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد :اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں قوانین بن چکے مگر عملدرآمد نہیں  ، میری عمر کے لوگ اب سیکھ نہیں سکتے۔
نیشنل لرننگ اینڈ شیئرنگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے   جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ دنیا میں ابھی آئیڈیاز پر بات ہو رہی ہے، عدلیہ میں ٹیکنالوجی کی شمولیت ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے صنفی تشدد کے تدارک کے قوانین بنا دیئے گئے، میری عمر کے لوگ اب نہیں سیکھ سکتے، نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لانی ہے ہم تو موبائل میں ای میل کاپی پیسٹ نہیں کر سکتے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جسٹس مشیر عالم نے سپریم کورٹ کے کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ہمیں ٹیکنالوجی سکھائی، ہم ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہی 25 کروڑ عوام کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سائبر کرائم ونگ کے پاس 15 لیب ہیں جن میں صرف دو خواتین ہیں، ہر سطح پر ٹیکنالوجی کا استعمال ہو گا تو ٹیکنالوجی سے صنفی تشدد کا تدارک ممکن ہو گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر ہم یہ دیکھیں کہ ملزمان بری کیوں ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ سزا کسے ہوتی ہے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ جج چیمبر میں بیٹھ کر ایک ہی طرح سے سوچنا شروع کر دیتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر جوائنٹ مشقیں ہونی چاہئیں تا کہ جج کا وژن وسیع ہو، جو بھی جماعت حکومت میں آتی ہے وہ اپنے منشور کے حساب سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا پاکستان مین ریجنل دفتر نہیں اور شکایات کا ازالہ نہیں ہوتا۔ محسن اختر کیانی نے کہا کہ پاکستان میں نواز شریف  دورحکومت میں پنجاب فارنزک لیب بنی، اس وقت صنفی تشدد پر حکومت سندھ کی پالیسیز مثالی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نیشنل فارنزک اتھارٹی کا قیام ہو رہا ہے اور اس کے لیے سیاسی کوشش چاہیے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ کا آغاز — ملکی ترقی، آئی ٹی، ماحولیاتی تبدیلی، عدالتی اصلاحات اور نجکاری پر توجہ مرکوز
  • ایران امریکا جوہری مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، مقام کی تبدیلی پیشہ ورانہ غلطی ہے، تہران
  • حکومت پنجاب کا کسانوں کیلئے 15 ارب روپے کے امدادی گندم پیکیج کا اعلان
  • نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی لانی ہے ،ہم ای میل کاپی پیسٹ نہیں کر سکتے،  جسٹس محسن اختر کیانی
  • سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اجلاس؛ انکم ٹیکس ترمیمی بل موخر
  • جوڈیشل کمیشن اجلاس کی تاریخ تبدیل، آئندہ اجلاس 17 اپریل کو ہوگا
  • ون ڈے فارمیٹ میں گیندوں سے متعلق قانون میں تبدیلی کا امکان
  • ہیٹ ویو اور پانی کی قلت کے خطرات
  • وفاقی حکومت کی کینال منصوبہ ختم کرنیکی پیشکش لیکن پیپلزپارٹی نے کیا جواب دیا؟ تہلکہ خیز دعویٰ 
  • گندم بحران حل کیا جائے، کاشتکار 900 روپے فی من نقصان میں جارہے ہیں: صدر کسان اتحاد