غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
لاس اینجلس میں لگی آگ کی راکھ ابھی صاف بھی نہ ہوپائی تھی کہ سیمابی طبیعت کے حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ کی صفائی کا خیال ستانے لگا، ان کی خواہش ہے کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن کو قائم کیا جاسکے، اس ضمن میں انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات بھی کرلی ہے جب کہ مصری صدر سے بھی رابطے کے خواہش مند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ہم اس سارے معاملے کو صاف کررہے ہیں، میں پوری غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، یہاں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے، دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ امریکا غزہ کے باشندوں کی بڑی تعداد انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے، دریں اثناء امریکی وزیرخاجہ مارکو روبیو نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا حصہ بننے پر اظہارِ مسرت کیا، مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت برقرار رکھنا ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی ترجیح ہے، ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں، خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہیں، نیتن یاہو نے اسرائیل کی دفاع کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال پر مصر کی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کو مسترد کردیا ہے، اردن کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرتا ہے اور اس عزم میں ہم ثابت قدم اور غیر متزلزل ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید اور مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کا کہنا ہے کہ ہم تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے، ہم نے 15 ماہ تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کیا ہے، ہم نے موت اور تباہی تک کو برداشت کیا، ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان اطلاعات پر غزہ کے باشندوں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے، یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے، ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے کہ ہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایا جائے، ماضی میں بھی ہمیں اپنی مقدس سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی اب پھر کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد غزہ میں اچانک جنگ بندی پر کئی حلقے اس امر کے منتظر تھے کہ ’’دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟‘‘ بادی النظر میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ فلسطین اور یوکرین سمیت ہر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے کوشش کریں گے جہاں جنگ جاری ہے مگر جو حقائق و عزائم سلسلہ وار منظر پر عام آرہے ہیں، اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے، یوں تو فلسطینیوں کو بے گھر کرکے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے تاہم غزہ جنگ کے فوری بعد بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نہ بھی کیا جاتا تب بھی غزہ پر اسرائیل کسی صورت حملے سے باز نہیں آتا، اب ایک بار پھر اس خدشے کے عملی مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اسرائیل غزہ کو اس کے ساحلی گیس کے وسائل کی وجہ سے مکمل طور پر خالی کرانے کا خواہش مند ہے، جب اس خواہش کی بیل کسی طور منڈھے نہ چڑ ھ سکی تو اس نے 8 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کو جواز بنا لیا، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جان بوجھ کر انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا گیا، پے درپے بمباری کے ذریعے اسپتالوں اور رہائشی مکانوں کو ملیا میٹ کیا گیا، رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ کو عملاً کھنڈرات میں اسی لیے تبدیل کیا گیا کہ غزہ کسی طور رہائش کے قابل نہ رہ سکے اور غزہ کے باشندے غزہ خالی کردیں اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے، بد قسمتی سے امریکی انتظامیہ اسرائیل کے ان عزائم اور منصوبوں کی ہمرکاب ہے، غزہ پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری اور اب ٹرمپ کے حالیہ عزائم اس امر کی حقیقت پر دال ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ارشادات انہی منصوبے کا حصہ ہیں، اس صورتحال کو غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، فلسطین کے ساحل سے تقریباً 36 کلومیٹر مغرب میں بحیرۂ روم میں واقع ایک قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے، یہ ذخیرہ فلسطینی علاقوں میں دریافت ہونے والا پہلا گیس فیلڈ ہے، جو غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے میدان میں ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذخیرہ 1.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غزہ کے باشندوں کو کا کہنا ہے کہ کسی بھی کیا گیا کرنے کی اور اس کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ اسرائیل کو غزہ کا مکمل قبضہ دلانے کی چال چل رہا ہے،تنظیم اسلامی
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)غزہ کی تعمیر نو کے نام پر 15 لاکھ مسلمانوں کو عرب ممالک منتقل کرنے کی تجویز درحقیت اسرائیلی قبضہ کا بہانہ ہے۔ یہ بات تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے 13 ماہ تک اسرائیل غزہ کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں پر مسلسل وحشیانہ بمباری کرتا رہا جس کے باعث عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت تقریبا 47000 مسلمانوں کو شہید اور ایک لاکھ سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ غزہ کے 90فیصد گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ غزہ کے مسلمانوں کی اِس کھلم کھلا نسل کشی میں اسرائیل کو امریکا کی مکمل عسکری، مالی اور سفارتی معاونت حاصل رہی، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو تحریکِ مزاحمت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنا ایک بھی مغوی رہا نہ کرا سکا۔ آج دنیا بھر کا میڈیا اس ہزیمت ناک اسرائیلی شکست کو جنگ بندی کا نام دے رہا ہے۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اسرائیلی درندگی کے زبردست حامی ہیں ان کی یہ تجویز کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے 15لاکھ مسلمانوں کو مصر اور اردن منتقل کر دیا جائے، جسے حماس اور بعض عرب ممالک نے بھی مسترد کر دیا ہے، درحقیقت اسرائیل کو غزہ کا مکمل قبضہ دلانے کی ایک چال ہے۔انہوں نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی درندگی کے بعد اب ان کی آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ اسرائیل کا اگلا ہدف دیگر مسلم ممالک ہی ہوں گے،ہذا تمام مسلم ممالک صورتِ حال کی سنگینی پر سنجیدگی سے غور کریں، اپنے باہمی تنازعات کو پسِ پشت ڈالیں اور متحد ہو کر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔