Jasarat News:
2025-01-30@06:48:23 GMT

جشن معراج مصطفی ؐنہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایاگیا

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

کراچی (اسٹاف رپورٹر)جما عت اہلسنّت پاکستان کے تحت ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی 27 ویں شب رجب المرجب جشن معراج مصطفی ؐنہایت عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منایاگیا۔ شہر بھرکی مساجد میں شب معراج النبیؐ کے روح پرور اجتماعات میں علمائے کرام نے رحمۃللعالمینؐ کے عظیم معجزہ معراج شریف کے واقعات و فضائل بیان کیے۔ معراج النبی ؐ کے مرکزی اجتماع سے میمن مسجد مصلح الدین گارڈن جوڑیا بازار میں جما عت اہلسنّت کراچی کے امیر علامہ شاہ عبد الحق قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ معراج محسن انسانیتؐ کی عظمت و رفعت کا شاہکا ر ہے۔ سفرِ معراج کو حضو ر خاتم الانبیاء ؑکے تمام معجزوں پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔شب معراج حضور نبی کریم ؐنے اپنی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کیا اور رحمت عالم کو جتنے بھی معجزے عطا کیے گئے ان میں معجزہ معراج سب سے بڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رب العالمین نے اپنے حبیب کو قلیل وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ،سات آسمانوں اور جنت کی سیر کرائی،رسا لت مآب مسجد اقصیٰ میں انبیا ء و رسولﷺ کی امامت فرما کر امام الانبیا ہ کے مرتبے سے نوازے گئے۔ باری تعالیٰ نے شب معراج میں امت مسلمہ کو عظیم تحفہ نماز پنچگانہ عطا فرمایا۔انہوں نے معجزہ معراج بیان کر تے ہو ئے عوام الناس سے اسوہ حسنہ کو اپنانے پر زور دیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سبق ملا ہے معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے

ظاہر پرست آنکھ عروج کے کسی سفر کی شاہد نہیں ہو تی۔ مادّہ پرست فکر طائف کے سفر کی عظمت سے آگاہ نہیں۔ کسے خبر تھی،طائف کا سفر معراج کے سفر کا ابتدائیہ ٹھہرے گا۔ طائف کا سفر لطائف کا سفر ٹھہرا۔ یہاں زمین پر ناقدری، ناشناسی اورپھر ناسپاسی اپنے عروج پر تھی، آسمان سے پہاڑوں کا فرشتہ بحکمِ ربی نازل ہوتا ہے، اور سرکارِ دوعالمؐ سے کہتا ہے کہ اگر آپؐ حکم فرمائیں تو اس بستی کو ان ناہنجاروں سمیت دوپہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے۔ زخموں سے چْور اور دل سے رنجور سرکارِ دوعالمؐ نے فرمایا: مجھے رحمت اللعالمینؐ بنا کر بھیجا گیا ہے، یہ مجھے پہچانتے نہیں، یہ اگر ایمان نہیں لے کر آتے تو ان کی نسلوں سے ایمان والے پیدا ہو جائیں گے۔ میں انہیں معاف کرتا ہوں۔ سبحان اللہ سبحان اللہ! رب العالمین کو اپنے محبوب کی یہ اَدا کس قدر پسند آئی ہوگی۔اس سے قبل ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی بستی یو ں اپنے رسول کا انکار کرتی ہے تو اسے عذاب کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ، لیکن یہاں معاملہ عجیب و لطیف ٹھہرا۔ یوں تو خالق ِ ارض و سماء نے یہ کائنات و مافہا سب کی سب اپنے محبوبؐ کی محبت میں پیدا فرمائی ہے کہ حدیثِ قدسی کے مطابق آپؐ صاحبِ لولاک ہیں… اگر آپؐ نہ ہوتے افلاکِ عالم پیدا ہی نہ کیے جاتے۔ لازم ہے کہ افلاک پیدا کرنے والی ذات اس ہستی کو افلاک کی سیر کو بلائے ، جس کی خاطراس نے افلاکِ عالم خلق کیے ہیں۔ واقعاتِ عالم میں کیا حْسنِ ترتیب ہے، کہ سفرِ طائف کے بعد سفرِ افلاک ، یعنی سفرِ معراج ترتیب دیا گیا۔ وقت کی طنابیں کھینچ لی گئیں۔ خیمہ افلاک دم بخود رہ گیا۔ جو چیز جہاں تھی، وہیں ٹھہرا دی گئی، اس کائنات کا معائنہ کرنے کے لیے وجہِ تخلیق ِ کائنات ہستی تشریف لا رہی ہے۔ ماضی ، حال اور مستقبل سب حاضر باش کر دیئے گئے۔ براق کو حاضرِ خدمت کر دیا گیا۔ براق صرف برق رفتاری ہی کی علامت نہیں بلکہ حیاتِ عالم میں جاری و ساری برقی لہر بھی ہے۔ گویا چشمِ زدن میں ہر قریب و بعید حاضرِ خدمت ہوگیا۔

یہ بحث پِٹ چکی کہ معراج جسمانی تھی ، یا روحانی…یہ بحث تمام ہو چکی ہے۔ اہلِ مشاہدہ نے مشاہدہ کر کے دیکھ لیا، مشاہدہ کرا کے دکھا دیا کہ یہ بحث عبث ہے۔ انڈیا کی ریاست ناگپور کا واقعہ ہے، 1930 کی دہائی ہے۔ بابا تاج الدین اولیاء کی درس گاہ میں چند نوجوان معراج کے جسمانی اور روحانی ہونے کی بحث میں مبتلا تھے۔ بابا جی، انہیں دیکھ کر ایک لَے میں کہتے جا رہے ہیں: میرے بچّو! تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ معراج جسمانی تھی ، یا روحانی تھی،میرے بچّو! بہت جلد جان لو گے کہ معراج جسمانی تھی ، یا روحانی تھی۔ نوجوان بابا جی کی نشست گاہ سے اٹھ کر چل دیئے۔ تھوڑے سے فاصلے پر ایک مسجد تھی، جس کی دیواریں اتنی مختصر تھیں کہ باہر سے گزرنے والوں کو مسجد کے اندر نماز پڑھنے والے نمازی دکھائی دیتے ہیں۔ اچانک نوجوانوں کی نظر مسجد کے بیرونی صحن پر پڑھی، کیا دیکھتے ہیں کہ بابا جی وہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اْس دَور کی نیوٹونین فزکس کے سحر میں مبتلا نوجوان ششدر رہ گئے، وہ ابھی چند لمحوں پہلے بابا جی کو ان کی نشست گاہ میں چھوڑ کر آئے تھے۔ وہ بھاگم بھاگ واپس پہنچے۔ دیکھتے ہیں کہ بابا جی وہیں موجود ہیں اور انہیں دیکھ کر کہہ رہے ہیں: بچّو! تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ معراج جسمانی تھی، یا روحانی۔ حواسِ خمسہ سے بالا ایک تجربے سے دوچار ہونے والے جب لاجواب ہو کر دوبارہ مسجد پہنچے تو دیکھا کہ بابا جی وہاں نماز پڑھنے میں مصروف تھے۔ کنڈی ہل رہی تھی، وضو کا پانی ابھی بہہ رہا تھا۔

یہ بات شائد پرانی ہو گئی ، اہلِ تشکیک اسے تحقیق کے نام پر شک کی نگاہ سے دیکھیں گے، کسی عقیدت مند کا حسنِ عقیدت تصور کریں گے۔ چند برس قبل کی بات ہے، فیصل ٹاؤن سے ہمارے ایک دوست خواجہ محمد یوسف بغرض ملاقات تشریف لایا کرتے تھے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے، وہ سائیں فضل شاہ صاحب، انفنٹری روڈ والوں کے بڑے چہیتے مریدتھے۔ بابا جی کے پاس اشفاق احمد اور حنیف رامے صاحب بڑی باقاعدگی سے حاضر ِ خدمت ہوا کرتے تھے۔ خواجہ یوسف صاحب بتاتے ہیں کہ بابا جی نور والوں کے ڈیرے پر ایک دن اشفاق احمد اور حنیف رامے معراج کے روحانی یا جسمانی ہونے پر گفتگو کر رہے تھے، اتنے میں بابا جی نور والے تشریف لائے، اور دریافت کیا کہ کس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ روئے سخن دیکھ کر ، بابا جی کہنے لگے تم میں سے کون معراج پر جانے والا تھا، اور کون بھیجنے والا تھا۔ حاضرین نے کہا: حضور والا! ہم میں سے تو کوئی بھی ایسا نہیں تھا۔ بابا جی پھر اپنی طرف اشارہ کر کے چہک کر فرمانے لگے: پھر ان سے پوچھو، جو باراتی ساتھ گئے تھے۔ سچ ہے، دلہا اکیلا نہیں جاتا۔کائنات کا دلہا ایک ہی ہے، ماضی ، حال اور مستقبل کے سب اولیاء و انبیاء اس کے باراتی ہیں۔ زمان و مکاں کے پردے اگر صاحبِ لولاک کے لیے اٹھا دیئے گئے تو شاہدین کے لیے بھی جستہ جستہ یہ پردے اٹھتے ہیں۔ ہر واقعہ کا گواہ بنایا جاتا ہے…اور گواہ کو محفوظ رکھا جاتا ہے…دراصل گواہ عینی شاہد ہوتا ہے۔ فوق سدرۃ المنتہیٰ ایک استثنیٰ ہے، جہاں کا عالم یہ ہے کہ "فاوحیٰ الا عبدہ ما اوحیٰ…” بس اپنے بندے پر وحی کی جو وحی کی… یہ وحی بھی وہی کر سکتا ہے۔ شاہدِ اوّل سے لے کر درجہ بدرجہ اب تک تمام شاہدین گواہی دیتے رہے ہیں اور بر بنیادِ مشاہدہ گواہی دیتے ہیں کہ جسم اور روح دونوں کو معراج نصیب ہوئی … اور ایسی معراج کہ اس کے بعد کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ اس معراج کے صدقے میں اولیائے محمدیؐ کو بھی معراج نصیب ہوتی ہے ، لیکن وہ کسی پر حجت نہیں ہوتی … وہ روحانی ہوتی ہے۔ اپنی اپنی معراج کے تذکرے گاہے گاہے اولیاء اللہ نے کیے ہیں، حکیم الامّت نے بھی اپنی معراج کا ذکر کیا ہے ، حضرت بایزید بسطامیؒ کا معراج کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ افسانہ نہیں ، بلکہ تصرفات اور عنایات کی داستانِ دل پذیر ہے۔

حدیثِ نبویؐ ہے، نماز مومن کی معراج ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ اْمّتی کی معراج نقشِ پائے مصطفیٰؐ تک پہنچنا ہے۔ گویا معراج کی طلب ہر اْمّتی کا حق بھی ہے اور اْس پر فرض بھی! اْمّتی جب اپنی بشریت کو زیر کر لیتا ہے تو اسے روحانی معراج نصیب ہو جاتی ہے۔ جب وہ اپنے اقطارالسماوات و الارض سے باہر نکل آتا ہے تو یہ اْس کی حالتِ معراج ہے۔ جب زمان و مکاں کے طلسم سے اسے رہائی نصیب ہوتی ہے تو وہ معراج کی حالت میں ہوتا ہے۔ ہبوطِ آدم صرف ایک مرتبہ لاحق ہوا تھا، عروجِ آدم خاکی بار بار ہونا مقدر کر دیا جاتا ہے۔ وہ جب بھی توبہ کر کے پلٹتا ہے، اسے یک گونہ معراجِ روحانی عطا کی جاتی ہے۔ طبق در طبق بلندیوں پر لیے چلے جانا، حضرتِ انسان سے رحمان کا وعدہ ہے۔ انسان اپنا وعدہ بھول جاتا ہے، رحمان نہیں بھولتا ہے۔ انسان کو نسیان لاحق ہوتا ہے، رحمان ہر عیب سے پاک ہے… منزّہ ہے۔ تشبیہہ سے تنزیہہ کا سارا سفر انسانی شعور کے لیے بمنزلہ ِ معراج ہے۔

لاکھوں درود ، اس ہستیؐ پر جو صاحبِ معراج بھی ہے، صاحبِ قوسین بھی ہے، اور صاحبِ لولاک بھی! سلامِ عقیدت ان تمام شاہدین کی خدمت میں، جو اس صاحبِ معراج ؐکے نعلین کا صدقہ ہمیں اپنے مشاہدات کے سبب اہلِ یقین میں شامل کرتے ہیں، ہمارے علم کو علم الیقین کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ فضلِ خداوندی جب شاملِ حال ہوتا ہے تو علم الیقین عین الیقین بھی بن جاتا ہے۔ صاحبِ عین الیقین صاحبِ مشاہدہ ہوتا ہے، صاحب ِ حق الیقین مشاہدہ کرا بھی سکتا ہے۔ اہلِ مشاہدہ اور اہلِ متشاہدہ سب کی خدمت میں سلام…گر قبول افتد، زہے عزو شرف!

متعلقہ مضامین

  • دعوت اسلامی کے شب معراج النبی ﷺ کے موقع پر روح پرور اجتماعات
  • سبق ملا ہے معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
  • لاہور، منہاج القرآن کے زیراہتمام معراج النبی(ص) کانفرنس
  • ملک بھر میں شب معراج انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی
  • شب معراج عقیدت و احترام  سے منائی گئی
  • ملک بھر میں شب معراج انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی
  • شب معراج  مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی  گئی 
  • شب معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے
  • آج ملک میں شب معراج مذہبی عقیدت و احترام کیساتھ منائی جائیگی