میٹرک بورڈ کے تحت 28 جنوری کو ہونے والا ضمنی عملی امتحان ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی میں میٹرک بورڈ کے تحت 28 جنوری کو ہونے والے ضمنی عملی امتحان کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ امتحان کے ملتوی ہونے سے متعلق اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ضمنی عملی امتحان 31 جنوری 2025 ء کو لیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان، قرآن اور ہمارا امتحان
اللہ اکبر‘ وہ کون ساگھرہے آپ کی نگاہیں جس کی دیواروں کی بلائیں لے کر پلٹی ہیں جہاں آپ کاجسم بھی طواف میں تھااورآپ کا دل بھی ‘ دنیاکے بت کدوں میں کل بھی وہ پہلا گھر تھا خداکااورآج بھی ۔دوچارصدیوں کی بات نہیں بلکہ دنیاکاسب سے پہلاعبادت خانہ!بنی آدم میں کسی کے حافظے میں اس وقت کی یادیں محفوظ ہیں! اس طویل عرصے میں بے حساب مندر تعمیر ہوئے، لاتعداد گرجے آبادہوئے،کیسے کیسے انقلابات سے یہ زمین آشناہوئی،کیسی کیسی بلندیاں پستیاں ہوئیں،کون کون سی تہذیبیں ابھریں اور مٹیں‘ چاہے مصروبابل ہوں یاروم وایران لیکن عرب کے ریگستانوں میں چٹانوں اورپہاڑوں کے وسط میں سیاہ غلاف میں لپٹی یہ عمارت جس کورب نے ’’اپناگھر‘‘کہا،اس کوزمانے کاکو ئی طوفان، کوئی انقلاب،کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے نہ ہلاسکا‘ ابرہہ اس کومٹا نے اٹھاوہ خودمٹ گیا۔
اللہ کاخاص کرم ہے ان نفوس پرجن کو رب العزت اپنے گھرکی زیارت کی توفیق مرحمت فرمادیں۔اس سفرحجازمیں باربارعملی طواف ِشوق کی تکمیل کہاں ممکن ہے،آپ کی نظروں سے اس گھرکاطواف ابھی مکمل نہیں ہوپاتاکہ روح کی ضدکہ یہیں حیات تمام ہوجائے‘ ہرتکلف وتصنع سے مبرایہ سیاہ چوکورگھر‘ آپ کی نگاہ جب پڑتی ہے توجم کررہ جاتی ہے اورروح ایسی سرشار ہوتی ہے کہ عجزوانکساری سے سجدہ ریزہوجاتی ہے!! اور اس موقع پرموسی کلیم اللہ یادآتے چلے جاتے ہیں جب اس کے گھرکی تجلی پرہوش وحواس قائم رکھنا مشکل ہے تواس رب کے گھرکی تجلی کیاکیاہلچل بپاکرتی ہوگی!جب گھرکی برق پا شیوں کا یہ عالم ہے کہ جودیکھتاہے وہ کچھ اوردیکھنابھول جاتاہے اور ہمیشہ کیلئے یہی نظروں میں سما جاتاہے تو گھر والے کے دیدارکی تاب انسانی بصارت بھلا کہاں لاسکتی ہے!
درمصحف روئے اونظرکن
خسرو،غزل وکتاب تاکے
’’اس کے چہرے کی زیبائی کودیکھواے خسرو، شعروکتاب میں کب تک مشغول رہو گے‘‘۔
رب کعبہ کایکتاگھرنظروں کے سامنے تجلیاں بکھیررہاتھاجسے پہلی مرتبہ کسی انجینئر،کسی ماہرتعمیرات نے نہیں بنایا،نہ لاکھوں روپے کاسامان ِتعمیراس پرلگا،نہ جدیدمشینری استعمال ہوئی! اللہ کے گھرکامعمار؟؟ہاں وہ معماربھی لمحہ لمحہ ہمارے تصور میں آرہاہے جواپنے سرپربھاری بھاری پتھراٹھاکرلارہاتھا،جس کے ہاتھ چونے،مٹی اورگارے سے بھرے ہوئے تھے۔عرب کی چلچلاتی ہوئی دوپہروں میں ریگستان کی آگ بھرساتی دھوپ کی پرواکیے بغیرروپے پیسے کی مزدوری سے بے نیاز،وہ مزدور ‘ جوگویااپنے پورے وجودکو اس گھرکی تعمیرمیں لگارہے تھے اورگھرکامالک بڑے چاسے بڑے پیارسے ذکر کرتا ہے ان مزدوروں کاجب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اس گھرکی بنیادیں اٹھارہے تھے:
ہاں!اس گھرکی زیارت کرتے ہوئے جب چشم تصورمیں نظریں اس پرٹھہرجاتی ہیں تولگتاہے کہ جوہاتھ اب تعمیربیت اللہ میں مشغول ہیں،پتھر پرپتھررکھ رہے ہیں،ہاتھوں میں چونا اورگاراہے اورچشم ِ اشکباراشکوں سے لبریز ‘کہ دل کاسوزوگداززبان پر آجاتاہے کہ‘اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے بے شک توسب کچھ سننے اور جا ننے والاہے۔تویہ ہے دوستوں کی شان ‘عشق کی منزلوں سے آگے کی منزلیں ‘فدائیت کی منزلیں‘کہ سب کچھ لگاکر بھی دھڑکایہی لگاہواہے کہ مٹناقبول بھی ہوگا کہ نہیں؟
اگرایساگھرنہیں دنیامیں تواس گھرکے سے مزدورکب دیکھے ہیں دنیانے!دنیاکے کسی مزدور نے وہ مزدوری مانگی جوبیت اللہ کے مزدوروں نے مانگی تھی اورمزدوری کی طلب تو دیکھئے ،تنہااپنی ذات کیلئے نہیں،ہم بھی شریک تھے اس اجرت کی طلب میں کہ :اے ہمارے رب!ہم دونوں کواپنافرما نبرداربنااورہماری اولادسے ایک امت اپنی فرما نبرداربنااورہمیں ہمارے حج کے اعمال بتااورہم پررحمت سے تو جہ فرمااورتوبے شک رحمت سے توجہ کرنے والاہے (البقر ہ )
گھربنانے والے کوجومزدوری ملی وہ مزدور جانے یامالک‘ لیکن اس اجرت میں مجھے اور آپ کوجوحصہ ملااوراس گھرکی زیارت کرنے والوں کو،طواف کرنے والوں کو، سفر کرنے والوں کو،اس گھرسے محبت کرنے والوں کو،اس کی تعظیم کرنے والوں کو‘کیاکچھ نہیں ملا، کیا کچھ نہیں مل جاتا،برکتوں اورعزتوں کے اس گھر سے۔ ہرایک یہی خزانے لے کرپلٹتاہے اور‘ ساتھ آپ کادل بھی توانہی خزانوں سے مالامال ہے۔ایک شکرسپاس ہے آپ کے پاس بھی،اس وقت کہ آپ کانفس پاک ہوکراپنی خودی (انا) کو مٹا کراپنے رب کی معرفت کی منزلوں میں سرگرداں ہے۔رب کاگھرہے یہ!مقام تفریح تو نہیں؟
یہ آگرہ کے تاج محل یافرانس کے ایفل ٹاورکانظارہ تونہیں تھا‘ یہ گھروندے جوسیرتماشے اوردل کے بہلاوے کیلئے صدیوں سے موجودہیں لیکن وہاں آنے والے لاکھوں لوگ نہ عقیدت مندہوتے ہیں نہ انہیں چومتے ہیں نہ آنکھوں سے لگاتے ہیں نہ والہانہ طواف کرتے ہیں نہ سجدے کرتے ہیں نہ روتے اورگڑگڑا تے ہیں،نہ جھکتے اورگرتے ہیں نہ عشق وفدائیت سے سر شارپکارتے رہتے ہیں کہ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ آگیا ہوں مولا،میں آگیامیرے رب میں حاضر ہوگیا، تونے بلایاتھامیں کیوں نہ آتا؟میں آگیاسب کچھ چھوڑ کر آگیا،درویشوں اوردرماندہ فقیرکے روپ میں تیرے درپہ آیاہوں،دنیاکی لذتوں کو ٹھوکر مار کر آیاہوں۔لاکھوں لوگ‘ایک ہی وقت میں، ایک ہی لے ہے،ایک ہی دھن جس کاسوداسرمیں سمایاہے،دیوانہ وارطواف کرتے ہیں اورہم بھی احرام کایونیفارم پہنے اس سلطانِ عالم کی فوج کاحصہ تھے اورجب نمازوں کے اوقات میں بھی اورصبح کے تڑکے میں بھی،جب ہربلندی اورہرپستی پر لبیک کی آوازیں گو نجتی تھیں تومیں اورآپ بھی ایک نشے میں سرشارہوجا تے ہیں،ایک کیفیت میں جذب ہوجاتے ہیں اورایک مرتبہ پھرچشم تصورمیں ہمیں اس خاک پرکبھی اس محبوب علیہ اسلام کے قدموں کے نشان نظرآتے ہوں گے جوکبھی آگ میں کودا توکبھی عزیزازجان نورنظرکے حلقوم پرچھری پھیردی کہ آسمانوں پر ملائکہ بھی ششدررہ گئے اوریک زبان ہوکر پکار اٹھے کہ واقعی اس نے خلیل اللہ ہونے کاحق ادا کردیا اورپسراطاعت کی معراج کوجاپہنچا اور‘ اور یہ کیاکہ وقت ہمیں چودہ صدیاں پیچھے لے گیا، یکدم ہماراشعوراسی خاک پراس عظیم ہستیﷺ پرقربان،اوریوں طواف کرتے کرتے ہماری وار فتگی میں یکبارگی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ یکایک یہ شعرحجاب بن کرنظروں کے سامنے آگیا کہ
توبردن درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
چوبطرف کعبہ رفتم بحرم اہم ندااند
جب میں کعبہ کے طواف کیلئے گیاتومجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیاگیا،کہاگیاکہ تونے حرم سے باہرتونافرمانی کی،اب بیت اللہ کس منہ سے آیاہے؟
تب ہماری سانسیں تھم تھم جاتی ہیں، گردشِ ایام کے جائزے پراورتوبتہ النصوح کا مفہوم آپ پرآشکارہوجاتاہے۔دوران سعی آپ کو اس خاکِ پاک پرسیدہ ہاجرہ صدیقہ کے قدموں کے نشان بھی نظرآناشروع ہوجاتے ہیں جونبی کی ماں اورنبی کی بیوی ہونے کے شرف سے مشرف تھیں اور برسہابرس سے قافلے اس عظیم خاتون کے قدموں کے نشانوں پر دوڑرہے ہیں،کیساشرف ایک عورت کودیاہے اس دین نے کہ رب ذوالجلال نے اپنے محبوبﷺکوبھی بی بی ہاجرہ کی سنت کی پیروی کرنے کاحکم دیا، کیا منظر ہوگا جب رسول خدا بھی اس مخصوص مقامات پراماں ہاجرہ پرتفاخر کرتے ہوئے تیزتیزبھاگ رہے ہوں گے!یقینا حضرت ام المومنین حضرت عائشہ بھی بی بی حاجرہ کی سنت کی ادائیگی کے مناظراورعظیم عورت کے عظیم کردارپراپنے رب سے مناجات میں رازونیاز کرتی ہوں گی،جگرگوشہ رسولﷺ سیدہ فاطمہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاہاتھ تھامے رب کے حضورسرجھکائے اماں حاجرہ کے نقوشِ پائے کی نسبت پرتیزتیزچل رہی ہوں گی۔ یقینایہ سب کارہائے عظیم کتابوں میں ہم درجنوں مرتبہ پڑھتے ہیں لیکن آج اپنی چشم ترسے ان کاجی بھرکرنظارہ کرتے ہوئے اپنے مقدرپر رشک کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے کئی مرتبہ جبیں سرنگوں ہو جاتی ہے۔
کعبہ سے غم ِجدائی کاعظیم بوجھ گریہ وزاری کرکے ہلکاکرنے کاوقت بڑاہی مشکل اور آزمائش کاہوتاہے۔طواف وداع کرتے ہوئے دل ملول ومغموم اوررنج وحزن میں غرق ہوجاتا ہے،کیوں نہ ہو،اب کچھ ہی دیرمیں کعبہ مشرفہ سے وداع جولیناتھی۔جوں جوں گھڑی کی سوئیاں آگے جارہی ہوتی ہیں،مکہ کی روح پروراورایمان افروزتجلیات رودادِ ماضی بن جائیں گی اوردل ان اندیشوں اور وسوسوں سے لبریزہوجاتاہے کہ عمربھر تمنائوں میں بسنے والے مرکزہدایت اورقبلہ دل کی ساری دلنوازیاں،جلوتیں اوردلربائیاں اب صرف یادوں، خوابوں اورخیالوں کی جنت بننے والی ہیں۔
(جاری ہیں)