۔5 فروری کو پوری قوم کشمیر و فلسطین سے غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرے گی،لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
صوابی / اسلام آباد / لاہو ر(نمائندگان جسارت)نائب امیر جماعت اسلامی، مجلس قائمہ سیاسی قومی اُمور کے صدر لیاقت بلوچ نے صوابی (خیبرپختونخوا) میں ضلعی مشران کانفرنس اور اسلام آباد میں نوجوان رہنما راجا عمیر کی دعوتِ ولیمہ اور 3 فروری قومی کشمیر کانفرنس کے انعقاد کے لیے انتظامی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ 5 فروری کو پوری قوم پورے ملک میں کشمیر و فلسطین سے غیرمتزلزل یکجہتی کا اظہار کرے گی۔ مسئلہ کشمیر و فلسطین کا حل ملت اسلامیہ اور پاکستانی ملت کے لیے رگِ جاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ 3 فروری کو قومی کشمیر کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان کے قومی دینی رہنماؤں اور آزاد جموں و کشمیر آل پارٹیز حریت کانفرنس، سینئر سفارت کاروں، دانش وروں اور سینئر صحافیوں کو مدعو کیا جارہا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمت، استقامت نے فتح کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بہادر مظلوم کشمیریوں کو مستقبل میں کامیابی کی روشنی مل گئی ہے۔ مشاورتی اجلاس میں خالد رحمن، ڈاکٹر محمد مشتاق خان، عبدالرشید ترابی، انجینئر نصراللہ رندھاوا، ڈاکٹر خالد محمود، غلام محمد صفی، زبیرصفدر اور دیگر رہنما موجود تھے۔لیاقت بلوچ نے صوابی میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے مابین مضبوط، پائیدار، بااعتماد تعلقات خطے کے امن و سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں۔ افغانستان میں ازسرنو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اثرات بڑی بدقسمتی ہوگی۔ افغانستان کی طالبان قیادت افغانستان کو غلبہ اسلام، اتحادِ اُمت اور استعماری دشمن قوتوں سے پاک سرزمین بنائیں۔ دُنیا میں توسیع پسندی اور یک محوری ڈاکٹرائین نہیں چل سکتا، ‘جیو اور جینے دو’ کا اصول ہی انسانوں کو تحفظ دے گا۔ امریکا دُنیا میں اپنی ساکھ اور اعتماد کھوچکا ہے، ہر آنے والا دِن امریکا کے خلاف مزاحمت کو بڑھا رہا ہے۔ امریکی صدر کو امریکا کی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور امریکا کو جنگی جنون سے نجات دلانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی، بدامنی، تاجروں اور عوام کے جان، مال، عزت کے لیے بڑھتے خطرات تشویشناک ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے اسلام آباد کی مجلس مشاورت میں ملی یکجہتی کونسل امن کا لائحہ عمل دے گی۔ جماعت اسلامی ہی خیبرپختونخوا کے عوام کی اولین چوائس بنانے کے لیے جماعت اسلامی کے کارکنان دِن رات محنت کریں۔لیاقت بلوچ نے صحافیوں اور معززین کے سوالات کے جواب میں کہا کہ مفاہمت، مذاکرات، اقرار و انکار پراسرار کھیل بنا ہوا ہے، اِس وجہ سے سیاست، جمہوریت کے لیے خطرات کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور مفاد پرستانہ ذہنیت و نظام کے خلاف عوام بغاوت پر آمادہ ہیں۔ ملک کا معاشی نظام غریب اور سفید پوش طبقے کے لیے موت کا کھیل بن گیا ہے۔ بجلی، گیس، تیل اور ٹیکسوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ شرحِ سود میں کمی اور آئی پی پیز کے خلاف اقدامات کے باوجود عوام کو سستی بجلی دینے میں حکومت خود بڑی رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف کی بدترین شرائط کے سامنے حکومتی سرنڈر قومی معیشت کو مفلوج کرچکا ہے۔ وزیراعظم اور اقتصادی ٹیم کے بیرونی دورے سیرسپاٹے ہیں، دوسری طرف تباہ حال معیشت میں سرکاری افسران کے لیے اربوں کی گاڑیوں کی خریداری، ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کی تنخواہ و مراعات میں بے تحاشا اضافہ، سرکاری محکموں میں کرپشن اور مفت خوری اقتصادی نظام کو کینسر زدہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ ملک کے اندر خودانحصاری کے فروغ اور عیاشیوں سے انکار کا نظام لائیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ کے لیے
پڑھیں:
متنازعہ پیکا ترمیمی بل پر پارلیمانی صحافیوں کا واک آؤٹ، شیری رحمان کا اظہار یکجہتی
اسلام آباد(نیوزڈیسک) متنازعہ پیکا ترمیمی بل کے سینیٹ میں پیش کئے جانے پر پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے بل کو “کالا قانون” قرار دیتے ہوئے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے صحافیوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ شیری رحمان نے کہا، “ہم میڈیا کی آواز دبانے کے حق میں نہیں ہیں۔ پیکا قانون پہلے ہی ایک خراب قانون تھا اور اس میں ترامیم نے اسے مزید متنازعہ بنا دیا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ بل عجلت میں پیش کیا گیا اور اس پر مشاورت کے عمل کو نظرانداز کیا گیا۔ شیری رحمان نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے گی اور اس قانون میں مزید ترامیم کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے شیری رحمان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور بل پر اپنے تحفظات کا اعادہ کیا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس قانون میں مزید ترامیم لانے کی حمایت کی اور کہا کہ یہ بل شہریوں کے حقوق پر اثر انداز ہوتا ہے، جس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
صحافیوں اور سینیٹرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے قوانین کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے مشاورت اور ترمیم ضروری ہے۔