وفادار گنڈا پوربشریٰ بی بی کی شکایتوں پر برطرف ہوئے‘ مریم اورنگزیب
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
لاہور (نمائندہ جسارت) پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی وفاداری کام نہیں آئی، بشریٰ بی بی کی شکایتوں پر انہیں ہٹا دیا گیا، عقل لوگ ایک شخص کی فطرت کو سمجھیں اور اگلی کسی قسم کی ملک کے خلاف سازش کا حصہ نہ بنیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے صوبائی صدارت سے ہٹا کر علی امین گنڈا پور کو کو وفاق کی اکائیوں کو کمزور کر نے کی وفاداری کا انعام دیا۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو دوسرے صوبے پر چڑھائی کرنے کا حکم دے کر استعمال کرکے فارغ کردیا گیا، عمران خان کی فطرت میں کسی کے ساتھ وفاداری ہے ہی نہیں۔ عمران خان ہر دوست، کارکن اور ساتھی کو اپنے ذات کے لیے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے اورلوگوں کو ملک کے خلاف سازش کے لیے استعمال کر کے بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں، عمران خان کے ہاتھوںاکبر بابر، جسٹس وجیہہ، نعیم الحق، جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان عمران خان کی احسان فراموشی کی چند بڑی مثالیں ہیں۔گنڈاپور نے عمران خان کے لیے 9 مئی سے لے کر 26 نومبر تک ہر انتشاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عمران نے اسے صوبائی صدارت کی عہدے سے ہٹا کر اچھا صلہ دیا۔ 9 مئی اور 26 نومبر کو نوجوانوں کو استعمال کیا اور پھر انہیں جیلوں میں سڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ساری زندگی دوسروں کو اپنے سیاسی مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے کی فطرت آج بھی نہیں بدلی۔ آج کوئی پْرانا دوست ، عہدے دار، ساتھی کارکن ساتھ کھڑا نہیں ہے۔ عقل رکھنے والے کسی بھی سازش اور ذاتی مقاصد کا حصہ بننے سے پہلے سوچیں جو آج علی امین گنڈا پور سوچ رہے ہیں لیکن بہت دیر ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
انطالیہ سے لاہور تک مریم نواز کی عالمی ڈپلومیسی
ڈپلومیسی ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی ذہن میں نفیس لباس، نرم لہجہ، شائستہ انداز، اور بہت تہذیب سے کہے گئے ایک’’نا‘‘کی تصویر ابھرتی ہے۔ درحقیقت یہ وہ فن ہے جس میں انسان سامنے والے کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ’’آپ کی بات نہ صرف درست ہے بلکہ ہم ہمیشہ سے اس کی حمایت کرتے آئے ہیں‘‘ اور پھر خاموشی سے اپنے مفاد کی راہ بھی چن لیتا ہے۔
یہ ہنر اب محض بادشاہوں کے دربار یا اقوام متحدہ کے اجلاسوں تک محدود نہیں رہا۔ یہ تو اب عام گھریلو سطح تک پھیل چکا ہے۔ دفتر میں باس سے کہنا: جناب ! آپ کی دور اندیشی واقعی لاجواب ہے۔ جب کہ دل کچھ اور کہہ رہا ہو… یہی تو ہے روزمرہ کی ڈپلومیسی۔ یہ اب کوئی خفیہ فن نہیں رہا بلکہ ہر دوسرا شخص اس کا ماہر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اسے تھری پیس سوٹ میں استعمال کرتا ہے تو کوئی سادہ شلوار قمیص میں۔
اسی ڈپلومیسی کی دنیا میں ایک اہم عالمی ایونٹ ’’ڈپلومیسی فورم 2025‘‘ ترکیہ کے خوبصورت شہر انطالیہ میں منعقد ہوا۔ دنیا بھر سے رہنما، اسکالرز، پالیسی ساز اور سفارتی ماہرین اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے کی جو ترکیہ کی خاتونِ اول محترمہ امینے ایردوان کی خصوصی دعوت پر وہاں پہنچیں۔ ان کا پرتپاک استقبال انطالیہ کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر سعاد سید اوغلو اور دیگر اعلیٰ حکام نے کیا۔
کانفرنس کا موضوع تھا: ’’تقسیم شدہ دنیا میں مستقبل کی تعمیر ۔! تعلیم تبدیلی لانے کی ایک طاقت‘‘۔ اس عنوان کے عین مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پراعتماد انداز میں خطاب کیا اور لاہور میں نواز شریف انٹرنیٹ سٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ صوبے میں آئی ٹی کے فروغ اور نوجوانوں کو ڈیجیٹل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک انقلابی کوشش ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2024 ء میں وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے وہ تعلیم، اصلاحات اور جدیدیت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اصلاحات کا آغاز اسکولوں سے کیا اور ان کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف کی کامیاب پالیسیاں مشعلِ راہ ہیں۔ صرف عمارتیں نہیں بلکہ روایتی سوچ کو بدلنا اصل چیلنج ہے۔انہوں نے بتایا کہ 4000سے زائد پرائمری اسکول ایلیمنٹری سطح پر اپ گریڈ کیے جا رہے ہیں اور 6000 اسکولوں میں ڈیجیٹل لرننگ رومز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ طلبہ جدید سکرینوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ وہ خود کو صرف وزیراعلیٰ نہیں بلکہ ’’ایجوکیشن کی سفیر‘‘ سمجھتی ہیں اور گرلز ایجوکیشن میں ہر طالبہ کی ماں کی طرح سوچتی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اسکول نیوٹریشن پروگرام بھی جاری ہے۔اساتذہ کی بھرتی اور تربیت پر زور دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ 30 ہزار اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے جا رہے ہیں اور ہر طالب علم کی انفرادی ضروریات کو مدنظر رکھ کر لرننگ ماڈل متعارف کروایا جا رہا ہے، آرٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے تعلیمی پلیٹ فارمز تیار کیے جا رہے ہیں۔مریم نواز نے اعلان کیا کہ لاہور میں نواز شریف انٹرنیٹ سٹی اور پاکستان کی پہلی اے آئی یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے جو ڈیجیٹل دور کی طرف ایک انقلابی قدم ہو گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا ’’میری حکومت اور میری جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اس یقین پر قائم ہے کہ تعلیم صرف ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے۔ ہم نے تعلیم کو’پہلی ایمرجنسی‘ قرار دیا ہے۔ بجٹ میں سب سے بڑا حصہ اسی کے لیے مختص ہے اور عملدرآمد میں کسی قسم کی سستی برداشت نہیں کی جاتی۔‘‘
انہوں نے لیپ ٹاپ اسکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کی وہ واحد حکومت ہیں جس نے طلبہ کو عملی طور پر بااختیار بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ ہماری لیپ ٹاپ اسکیم اس کی روشن مثال ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ دیئے گئے ہوں تاکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے جڑ سکیں۔انہوں نے تعلیمی ترقی کے لیے اسکالرشپ، فری انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور ڈیجیٹل لرننگ نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب صرف علم ہی نہیں بلکہ مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غریب، یتیم اور ذہین بچوں کے لیے تعلیم مکمل طور پر مفت کر دی گئی ہے، جبکہ دیگر طبقات کے لیے بھی تعلیمی سہولیات کو قابلِ رسائی بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے دانش اسکول سسٹم کا بھی ذکر کیا جو نہ صرف پنجاب بلکہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی عالمی معیار کے مطابق قائم کیے جا رہے ہیں۔وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی یہ تقریر نہ صرف پاکستان کا مثبت تاثر دنیا کے سامنے لائی بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی تھا کہ ہمیں معلوم ہے ڈپلومیسی کا فن ۔ اور ہم نے اسے صرف تعلقات کے لیے نہیں، بلکہ تعلیم، ترقی، اور ٹیکنالوجی کے لیے اپنایا ہے۔
اس خطاب کو عالمی ماہرین تعلیم اور سفارتکاروں نے سراہا۔ یہ صرف تعلیم کی بات نہیں تھی بلکہ وژن کی بات تھی اور جب وژن میں ڈپلومیسی شامل ہو تو اس کی چمک دو چند ہو جاتی ہے۔
ڈپلومیسی فورم جیسے عالمی ایونٹس صرف فوٹو سیشن یا چائے کے وقفے نہیں ہوتے۔ یہ وہ مقام ہوتے ہیں جہاں نرم جملوں میں سخت فیصلے لپٹے ہوتے ہیں۔ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک پیغام ہوتا ہے اور ہر مصافحے کے اندر کئی مفروضے چھپے ہوتے ہیں۔ایسے فورمز دنیا کے لیے امید کی کرن بن سکتے ہیں خاص طور پر جب بات تعلیم کی ہو۔ نوجوانوں کو مستقبل کا سرمایہ سمجھنا، تعلیم کو بقا سے جوڑنا یہی وہ سوچ ہے جو کسی بھی قوم کو بلند کر سکتی ہے۔ جب ہم واپس اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ ’’ڈپلومیسی کیا ہے؟‘‘ تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف سیاستدانوں کا ہتھیار نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔یہ وہ فن ہے جو تعلقات کو بناتا بھی ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے اور اگر کوئی اسے مہارت سے استعمال کرے تو نہ صرف دوست بناتا ہے بلکہ دشمن کو بھی قائل کر لیتا ہے۔
تو اگلی بار جب کوئی سیاستدان نہایت شائستگی سے کہے: ’’ہم نے تعلیم کو اولین ترجیح دی ہے‘‘! تو سمجھ جائیے کہ وہ یا تو واقعی سنجیدہ ہے یا بہت اعلیٰ درجے کا ڈپلومیٹ!