سکھر: واردات کے دوران مزاحمت پر 17 سالہ نوجوان قتل
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
سکھر (نمائندہ جسارت) بھوسہ لائن کا رہائشی نوجوان پیر بخش چوہان رہزنی کی واردات کے دوران مزاحمت پر قتل کر دیا گیا، 17 سالہ پیر بخش چوہان گھر جا رہا تھا کہ راستے میں 2 مسلح ڈاکوؤں نے لوٹنے کی کوشش کی، مزاحمت پر اس کے سر پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، مقتول کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال منتقل کرنے کے بعد علاقے کے لوگ و عزیز و اقارب انصاف کی فراہمی کے لیے پریس کلب پہنچ گئے اور دھرنا دے کر مینارہ روڈ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند کر دی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نوجوان کو سرعام قتل کیا گیا، پولیس تعاون نہیں کررہی۔ مظاہرین نے پولیس و دیگر حکام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ
غزہ کے لوگوں کی استقامت، ایمان اور قربانیاں نہ صرف ایک تاریخی نظیر بن گئی ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کو اسرائیل کی حقیقت اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ ان کی قربانیوں نے عالمی سطح پر ایک نئی بیداری پیدا کی ہے اور لاکھوں لوگوں کے دلوں میں اسلام کی سچائی اور عدلیہ کے اصولوں کا شعور اجاگر کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کی صورتحال نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دی ہیں، اور ان کے دل میں فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے ہمدردی اور حمایت کی لہر اْٹھی ہے۔ دنیا بھر کے عوام نے اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات سے گریز شروع کیا ہے، جس سے اس پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کا ایمان اور قربانیاں لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہیں، اور یہ بچّے جو قرآن حفظ کرنے اور جہاد کی راہ اختیار کرنے کے شوقین ہو رہے ہیں، اس بات کا غماز ہیں کہ ایک نئی نسل اب اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تڑپ رکھتی ہے۔ غزہ کی سر زمین کو واقعی ایک جنّت کا ٹکڑا کہنا بے جا نہیں ہوگا، جہاں شہداء کی بے شمار قربانیاں اور غازیوں کی انتھک جدوجہد نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی اس جدوجہد کو دیکھ کر پوری دنیا میں ایک نئی امید کی لہر پیدا ہوئی ہے کہ اصل کامیابی صرف آخرت میں ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جسے غزہ کے مسلمان بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر خوش ہیں۔ غزہ (فلسطین) کے میدان میں ایک شاندار اور جذباتی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ قابض فوج کی چار خواتین سپاہیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جن کی خوشی اور سکون ان کے چہروں اور بدن کی حرکات سے واضح ہو رہی تھی۔ ان کا انداز یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کسی دشمن کی قید میں نہیں تھیں، بلکہ آزادی اور خوشی کا تجربہ کر رہی تھیں۔
مغوی سپاہیوں کو نئی فوجی یونیفارم میں ملبوس کیا گیا، ان کے گلے میں فلسطینی پرچم سے سجا ایک کارڈ ڈالا گیا، اور ساتھ ہی انہیں گفٹ پیکٹ بھی دیے گئے۔ اس منظر نے جذباتی طور پر دلوں کو چھو لیا، اور ویڈیوز میں ہونے والے تبصرے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی عظمت اور ان کی انسانی قدروں کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ مناظر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ غزہ میں مزاحمت نہ صرف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے بلکہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاقی معیار کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے، جو دشمنوں کے ساتھ برتائو میں نمایاں ہے۔
اسی تناظر میں اسرائیلی قیدی ایمیلی دماری کا غزہ میں رہنے کی خواہش ظاہر کرنا، ایک معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ اْس ماحول کی گہرائیوں کا عکاس ہے جس میں ایک شخص کا دل، اس جگہ اور اس کے لوگوں کے ساتھ جڑ جاتا ہے، چاہے وہ دشمن ہو۔ یہ حقیقت میں نہ صرف غزہ کی مزاحمت کی استقامت اور انصاف کی جیت کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کی روح اور جذبات کبھی کبھی ایسی صورتحال میں بھی عجیب و غریب انداز میں برتائو کرتے ہیں۔ اسرائیلی گلوکارہ کا غزہ کے ساتھ تعلق اور اب ایمیلی کا اسی علاقے میں رہنے کی خواہش ظاہر کرنا، یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ظلم و ستم کے باوجود غزہ کی روح اور اس کا ایمان ایک ایسی قوت ہے جو انسانوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
’’میان عاشق و معشوق رمزیست کراما کاتبیں را ہم خبر نیست‘‘ ایک گہرا اور دلنشین پیغام دیتا ہے، جو عاشق اور معشوق کے درمیان چھپے اس رمز و راز کی نشاندہی کرتا ہے جسے خدا اور اس کی تقدیر کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ شعر غزہ کے ان دلوں کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جو اپنے ایمان اور عزم کی بنیاد پر نہ صرف جیتے ہیں بلکہ محبت، انسانیت اور اخلاص کے مختلف رنگوں کو اپنے دلوں میں سجاتے ہیں، چاہے وہ دشمنوں کے ساتھ برتائو ہی کیوں نہ ہو۔ غزہ کے عوام کا یہ طرزِ عمل ان کے بلند اخلاق اور ان کی بے مثال روحانی طاقت کو ظاہر کرتا ہے، جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور دشمن کے دلوں میں بھی محبت اور احترام پیدا کر دیتی ہے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے جدید ٹیکنالوجی، جاسوسی کے جدید ترین طریقوں اور مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، لیکن غزہ کے عوام کی استقامت اور مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا کہ جبر و ظلم کے مقابلے میں حق اور عزم کی طاقت ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود، دجالی طاقتیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے حوصلے، قربانی اور غیر متزلزل ایمان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی میں وسیع پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے کیے تاکہ فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈال سکیں اور قیدیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان حملوں کا بنیادی ہدف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو کمزور اور عوام کو خوفزدہ کرنا تھا۔ اسرائیل نے غزہ کے مختلف علاقوں میں شدّید بمباری کی، خاص طور پر ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہاں سرنگیں یا چھپے ہوئے ٹھکانے موجود ہو سکتے ہیں۔ جدید اسمارٹ بموں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے مقامی آبادی کے ہر ممکن پناہ گاہ کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی۔ زمینی کارروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں نے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی یونٹس کو متحرک کیا۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مخصوص علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں تک رسائی کے لیے جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ گھروں کی تلاشی اور عوامی مقامات پر چھاپے مارے گئے تاکہ مقامی لوگوں سے قیدیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان فوجی آپریشنوں نے غزہ میں بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، معصوم شہری جاں بحق ہوئے، اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، فلسطینی عوام اور مزاحمتی تنظیموں نے اپنی استقامت اور ثابت قدمی سے اسرائیلی کوششوں کو ناکام بنا دیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ ظلم و جبر کے باوجود آزادی کی جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔
اسرائیل نے قیدیوں کی تلاش اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی سرکوبی کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس ذرائع کا بھرپور استعمال کیا۔ اسرائیل نے جاسوسی اور حملہ آور ڈرونز کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا، جو 24/7 غزہ کی فضاؤں میں گردش کرتے رہے۔ ان ڈرونز کے ذریعے زمینی حرکات و سکنات کی مانیٹرنگ کی گئی اور زیر زمین سرنگوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ڈرونز کی مدد سے ہدف پر میزائل حملے بھی کیے گئے، جن کا مقصد ممکنہ طور پر قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے الگورتھمز کے ذریعے سیٹلائٹ تصاویر، سوشل میڈیا پوسٹس، اور دیگر ڈیجیٹل شواہد کا تجزیہ کیا گیا تاکہ قیدیوں کے ٹھکانوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اے آئی کے ذریعے مشتبہ افراد کی نقل و حرکت اور مواصلاتی رابطوں کا تجزیہ کیا گیا، جس کے تحت فلسطینی شہریوں کو نگرانی کے دائرے میں لایا گیا۔ سننے کی خفیہ ڈیوائس کو غزہ کے مختلف علاقوں میں نصب کیا گیا تاکہ تنظیموں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا سکے۔ زیر زمین سرنگوں اور محفوظ ٹھکانوں کے مقام کا پتا چلانے کے لیے جدید سنسرز اور تھرمل امیجنگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گوگل اور دیگر بڑی آئی ٹی کمپنیوں کی مدد حاصل رہی، جنہوں نے ڈیٹا مائننگ اور مقام کی نشاندہی کے لیے ٹولز فراہم کیے۔ فلسطینیوں کی آن لائن سرگرمیوں اور رابطوں پر نظر رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کو استعمال کیا گیا۔ غزہ کے اندر موجود مخبروں کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی عوام کو لالچ، دھمکیوں اور دباؤ کے ذریعے معلومات فراہم کرنے پر مجبور کیا گیا، جن میں بھاری مالی انعامات کی پیشکش بھی شامل تھی۔ اسرائیل نے انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کاروں کی مستعدی اور راز داری نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی عوام کے غیر متزلزل حوصلے اور اجتماعی مزاحمت کے سامنے محدود ثابت ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)