گرین پاسپورٹ کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اس وقت لگ بھگ 64 لاکھ پاکستانی بیرون ملک ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارا شمار چوٹی کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جن کے سب سے زیادہ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ لگ بھگ نصف کارکن خلیجی ممالک (بالخصوص سعودی عرب اور امارات) میں ہیں۔ اس کے بعد یورپ اور پھر شمالی امریکا جاتے ہیں۔ زیادہ تر نے قانونی طور پر وطن چھوڑا ہے مگر غیرقانونی انداز میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بین الاقوامی معیار کے حساب سے کم نہیں ہے۔ اس وقت پاکستانی پاسپورٹ سے نیچے صرف 4 ممالک ( یمن، عراق، شام اور افغانستان) کے پاسپورٹ ہیں۔
پاکستان سے نیچے کے ان چاروں ممالک کے پاسپورٹس کی بے وقعتی تو اس لیے سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب جنگ زدہ ہیں اور وہاں سے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد بیرون جانا چاہتی ہے چنانچہ بیشتر دنیا نے ان پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ مگر پاکستانی پاسپورٹ کیوں رینکنگ میں تہہ سے آن لگا ہے؟
ہم کوئی للو پنجو ریاست تو نہیں ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے 5ویں اور معیشت کے اعتبار سے 47ویں عالمی پائیدان پر ہیں۔ 7یں ایٹمی طاقت بھی ہیں ۔بزعمِ خود عالمِ اسلام کا قلعہ بھی ہیں۔ دہشت گردی سے بھلے دوچار ہیں مگر حالتِ جنگ یا خانہ جنگی کی کفیت میں تو نہیں ہیں۔ گورننس کا ڈھانچہ بھی بظاہر اپنی جگہ مستحکم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگلے 5 برس اور اڑتا پاکستان
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا پاسپورٹ عالمی سطح پر ٹکے سیر ہے۔ گزشتہ برس 34 ممالک میں ہم بنا پیشگی ویزا جا سکتے تھے۔ اس برس ان ممالک کی تعداد 33 رہ گئی ہے ۔ (ان میں بھی اکثریت ایسے ممالک یا دور دراز جزائر کی ہے جن کے نام بھی بیشتر پاکستانی نہیں جانتے)۔
یہ وہی پاکستان ہے جس کا پاسپورٹ سنہ 1974 تک چوٹی کے 30 پاسپورٹوں میں شامل تھا۔ پاکستانی شہری 60 ممالک میں بنا ویزہ داخل ہو سکتے تھے اور دیگر 100 ممالک بشمول چائنا ویزا آن آرائیول تھا۔
سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے کیمونسٹ ممالک کا ویزا مشکل سے ملتا تھا۔ ویسے بھی پاکستانیوں کو سوویت بلاک سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ جبکہ جنوبی افریقہ میں نسل پرست گورا شاہی اور اسرائیل میں صیہونیت پرستی کے سبب ہمارا کبھی بھی ان سے لینا دینا نہیں تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ سنہ 1980 کے عشرے میں افغان خانہ جنگی کے سبب جیسے جیسے مغرب نے ہمیں اپنے مفاد میں گلے لگانا شروع کیا ویسے ویسے ہم پر ان کا پاسپورٹانہ اعتبار بڑھنے کے بجائے گھٹنا شروع ہو گیا۔ ویزا آن ارائیوال کی سہولت سکڑتی چلی گئی اور پھر ہم سال بہ سال پھسلتے ہی چلے گئے ۔
سنہ 2006 تک بھی ہمارا پاسپورٹ 110 کی فہرست میں 79ویں نمبر پر تھا۔ مگر ہم نے محنت جاری رکھی اور آج ماشاءالله ہمارا شمار 103 کی رینکنگ کے ساتھ 5 سب سے بے وقعت پاسپورٹوں میں ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے
کچھ عرصے پہلے تک متحدہ عرب امارات کا ویزا حاصل کرنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش آتی تھی۔ اب 80 فیصد دھڑکا رہتا ہے کہ شاید ویزا نہ ملے ۔حالانکہ سب سے زیادہ پاکستانی کارکن سعودی عرب کے بعد امارات میں ہی موجود ہیں۔
جب سے پاکستانی پاسپورٹ سے بیشتر دنیا نے منھ موڑا ہے۔ تب سے غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ ہفتے 2 ہفتے بعد خبر آ جاتی ہے کہ شمالی افریقہ سے یورپ جانے والی کشتی بحیرہ روم میں ڈوب گئی۔ مرنے والوں میں اتنے پاکستانی شامل ہیں۔
نوبت بہ ایں جا رسید کی وجوہات ہم سب اچھے سے جانتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد اقوامِ متحدہ اور امریکا کو مطلوب کئی القاعدہ و غیر القاعدہ دہشت گرد پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ ابھی سنہ 2023 میں ہی سعودی عرب نے 12 ہزار افغان باشندوں سے پاکستانی پاسپورٹ برآمد کیے۔
پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر پی آئی اے کریو متعدد بار کینیڈا میں ’سلپ‘ ہو گیا۔ سنا ہے کہ اب تنگ آ کر کینیڈین امیگریشن حکام عملے کے پاسپورٹ تحویل میں لے لیتے ہیں اور واپسی فلائٹ پر لوٹا دے دیتے ہیں۔
پچھلے ہفتے ہی کسٹمز حکام نے پی آئی اے کریو کے 5 ارکان کو دبئی سے آئی فون اسمگلنگ کے الزامات میں حراست میں لیا۔ جبکہ پی آئی اے نے 5 دیگر ملازمین کو اسمگلنگ کے الزام میں معطل کر دیا ۔
کئی پاکستانی کھلاڑی ٹیم کے ساتھ بیرونِ ملک گئے اور واپسی کی گنتی میں کم ہو گئے۔ کچھ برس پہلے جاپان میں تو ایک پوری ٹیم اڑن چھو ہو گئی۔
مزید پڑھیں:
لگ بھگ 23 ہزار پاکستانی جعلی دستاویزات یا چھوٹے موٹے جرائم کی پاداش میں غیر ملکی حوالات میں ہیں۔ ان میں سے آدھے سعودی و اماراتی جیلوں میں ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں بشمول عراق اس لیے بھی تنگ ہیں کہ حالیہ برسوں میں پیشہ ور بھکاریوں کے غول سیاحت، زیارت اور عمرے کے ویزوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے دھندے سے باز نہیں آتے اور پھر انہیں ڈیپورٹیشن تک جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔
ہر ماہ کوئی نہ کوئی خلیجی یا یورپی ملک سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو زائد از معیاد رکنے یا جعلی دستاویزات کے شبہے میں ڈیپورٹ کر دیتا ہے۔ بظاہر پاکستانی امیگریشن حکام اپنے خلیجی اور یورپی ہم منصبوں سے ان مسائل کے تدارک کے لیے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دوطرفہ سمجھوتے بھی موجود ہیں۔
نادرا اور ایف آئی اے کا نظام ’فول پروف‘ بنانے اور ایئرپورٹوں اور سرحدی گزرگاہوں پر پاسپورٹ کنٹرول مزید سخت کرنے اور انسانی اسمگلروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عہد و پیمان بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ تادیبی اقدامات بھی وقتی طور پر سامنے آتے ہیں۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اکثر ممالک ان تمام وعدوں اور پھرتیوں پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
اب تو خود اہلِ پاکستان نے سوشل میڈیا پر اس حالت کے چسکے لینے شروع کر دیے ہیں۔ کسی نے مجھے واٹس ایپ پر میسیج بھیجا کہ یہ محض پروپیگنڈا ہے کہ گرین پاسپورٹ کی کوئی عزت نہیں۔ ہم سے زیادہ کسی کا احترام نہیں ہے۔ آپ کسی بھی ایئرپورٹ پر اتریں۔ وہ گرین پاسپورٹ دیکھتے ہی ہم سے کہتے ہیں آپ زرا ایک سائیڈ پر آ جائیں۔
قلابے، دعوے اور خواب پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر نظام کو خود فریبی کے کنوئیں سے نکالے بغیر کچھ نہ ہونے والا۔ جس دن پاکستانی پاسپورٹ نے عالمی رینکنگ میں نیچے سے اوپر کی جانب دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ اس دن یقین آنے لگے گا کہ ہم واقعی بحیثیت ریاست بھی گورننس کے رن وے سے ٹیک آف کرنے والے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں
اوورسیز پاکستانی بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستانی پاسپورٹ ویزا آن ارائیول.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانی بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستانی پاسپورٹ پاکستانی پاسپورٹ کی تعداد اور پھر میں ہیں آئی اے میں ہی
پڑھیں:
آزاد منڈی اور ٹیرف
میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔
دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔
چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔
یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔
آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔
عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔
مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔
جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔
ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔
امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔
وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔
چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔
یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔
آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔