اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنا دیا، عدالت نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہینِ عدالت نہیں کی،نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیکر معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا جاتا ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس واپس لے، ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی۔ نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں ہے نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی، نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا، ان کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی، نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔

نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے، اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔

چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو دیکھیں۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے، کسٹمز کیس واپس اسی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3رکنی بینچ نے یہ کیس پہلے سنا تھا۔

عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔

پہلی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر زیر سماعت مقدمات کو ایک بینچ سے واپس لے کر انتظامی حکم کے ذریعے دوسری کمیٹی کے سپرد کیا، جس سے عدالتی حکم کا اثر زائل ہوا،دوسری کمیٹی نے عدالتی حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض پہلی کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ 27 جنوری 2025 کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کر دیا۔

دونوں کمیٹیاں 17 جنوری 2025 کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے انتظامی فیصلے لینے کی مجاز نہیں تھیں، اس پس منظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دو کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کی جانی چاہیے تاہم عدالتی روایات اور وقار کا تقاضا ہے کہ اس سوال کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے حتمی اور مستند طور پر حل کیا جا سکے۔

ہم یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ 14 ججوں پر مشتمل ایک بڑا بنچ تشکیل دیا گیا ،لہذا ہماری رائے میں یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، جو اس عدالت کے تمام ججوں کی اجتماعی اور ادارہ جاتی غور و فکر کا متقاضی ہے، اس لیے ہم اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس اہم مسئلے پر غور اور فیصلہ کیا جا سکے۔

یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت قائم کمیٹی کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی اتھارٹی سپریم کورٹ کے بینچز کی تشکیل تک محدود ہے، عدالت کے بنچز اور فل کورٹ کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل203J(2)(c) اور (d) کی دفعات میں تسلیم شدہ ہے اور فل کورٹ بلانے کی ذمے داری روایتی طور پر چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس معاملے کو جوڈیشل ا رڈر نذر عباس کی عدالتی حکم چیف جسٹس کے خلاف فل کورٹ کورٹ کے

پڑھیں:

جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل

سپریم کورٹ میں جنگلات اراضی کیس پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ زیر قبضہ اور واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات بھی جمع کروائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک ایشو اسلام آباد کی حدود کا بھی تھا اس کا کیا ہوا؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد کی حدود کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ساری دنیا میں جنگلات بڑھائے جا رہے ہیں پاکستان میں کم، ہمیں رپورٹ نہیں حقیقت دیکھنا ہے، سب کو حقیقت کو بھی دیکھنا ہے۔ زیارت میں منفی 17 درجہ حرارت میں لوگ درخت نہیں کاٹیں تو کیا کریں؟

مزید پڑھیں: جنگلات کی بحالی کے لیے صحافی کا انوکھا گنیز ورلڈ ریکارڈ

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا حکومت سرد علاقوں میں کوئی متبادل انرجی سورس دی رہی ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ زیارت میں ایل پی جی فراہم کی جارہی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہاڑی علاقوں پر بسنے والے غریب لوگوں کو کیا سبسڈی دی جا رہی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عوام کو بہتر سہولیات دینا حکومتوں کا کام ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2018 سے آج تک مقدمے میں رپورٹس ہی آرہی ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سندھ میں سندر اراضی سمندر کھا رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس امین الدین خان جنگلات اراضی کیس زیارت سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • صدر سپریم کورٹ بارکی وفدکے ہمراہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات
  • چیف جسٹس سے ترکیہ اور ایران کے سفیر کی ملاقات، عدالتی شعبے میں تعلقات کوفروغ دینے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں
  • سپریم کورٹ بار کے صدر کی آئی ایم ایف حکام سے ملاقات
  • آئی ایم ایف مشن کی صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا سے ملاقات
  • 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز :سپریم کورٹ کا بڑا حکم
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • سپریم کورٹ کی 9مئی واقعات سے متعلق کیسز کا ٹرائل چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • محکمہ داخلہ نے صوبہ بھر میں عوامی رابطہ کمیٹیوں کے قیام کی ہدایت کر دی
  • پنجاب میں امن و امان کے قیام کیلئے عوامی رابطہ کمیٹیاں بنانے کا حکم