Express News:
2025-01-29@18:27:50 GMT

’مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔۔۔؟‘

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

کچھ دن پہلے میں بیرون ملک سے واپس اپنے شہر کراچی آتے ہوئے ’ہوائی اڈے‘ کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھ کر اپنی پرواز کا انتظار کرنے لگی۔ وہاں اور بھی بہت سے پاکستانی نظر آئے۔ کچھ دیر بعد مجھے پیاس لگی، تو کینٹین کا رخ کیا۔ وہاں ایک جوڑا پہلے سے موجود تھا۔

  ان صاحب اور صاحبہ نے اپنے لیے چائے اور ’کافی‘ لی اور میں اپنی پانی کی بوتل لے کر اپنی نشست پر آ بیٹھی۔ وہ جوڑا بھی ہماری نشست کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں پانی پی کر اپنی بیٹی سے باتوں میں مصروف ہو گئی، جس دوران میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ میں نے دیکھا، تو وہاں خالی پیالی تھی۔ ان دونوں نے اپنی چائے اور ’کافی‘ کی خالی پیالیاں وہیں سیٹ کے کنارے پر رکھ دیے تھے، جس سے میرا پاؤں لگا تھا، یہ عمل دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔

میں نے دل میں سوچا کہ یہ کون سا طریقہ ہے۔۔۔؟ جب کہ برابر ہی میں ’کوڑے دان‘ موجود ہے، یہ اس میں ڈالنے میں انھیں کیا مسئلہ تھا؟ اتنے میں بورڈنگ کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستانی جوڑا اپنا کچرا وہیں چھوڑ کر جہاز کی طرف چل دیا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا، لیکن میں دل ہی دل میں کُڑھ کر رہ گئی اور میں بھی جہاز کی طرف روانہ ہو گئی۔

پھر جب صبح نو بجے تک گھر پہنچی، تو ہماری جٹھانی صاحبہ نے ہمارے لیے ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا اور کچھ گپ شپ ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واقعہ سب کو سنایا کہ کیسے ہم پاکستانیوں نے خود اپنی عادتوں سے اپنا نام بدنام کر رکھا ہے۔ تبھی پاکستانیوں کی کہیں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اپنا کچرا کوڑے دان میں ڈالنے میں بھی پاکستانیوں کو دقت کیوں محسوس ہوتی ہے، اس پر سب نے بہت دکھ کا اظہار کیا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر میں اپنے گھر پہنچی، کچھ دیر آرام کے بعد پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں خلاف معمول یہ سارا واقعہ میرے ذہن سے چمٹا رہا۔  میں نے اس واقعے پر غور کرنا شروع کیا، تو میری سوچ اپنے ہی عمل کی طرف آ پہنچی کہ ایک پاکستانی نے یہ کام غلط کیا تو دوسرے پاکستانی کا کیا عمل ہونا چاہیے تھا، یہ سوچ مجھے پریشان کرنے لگی۔ رات میں سونے سے پہلے میں کتاب اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔  خیالات کے سیلاب میں  ڈوب گئی، پھر قلم اور کاغذ کی مدد سے کچھ الجھے ہوئے خیالات کو سلجھانے کی کوشش کی، میں اس فکر میں تھی کہ آخر یہ مسئلہ کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ یک دم میرے ذہن میں اپنے استاد کا ایک اور قول آیا کہ ’جس کا فہم زیادہ ہے، اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔‘

 میں اپنے علم کے ساتھ جب اس سارے معاملے پر غور و فکر کرنے لگی تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اس معاملے میں انسانوں کے تین درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ وہ ہے، جو اپنے کچرے کو بھی ٹھیک جگہ پر ڈالنے سے قاصر ہیں اور جہاں جی چاہتا ہے پھینک دیتے ہیں، جو کہ ایک حیوانی سطح ہے۔

دوسرا درجہ وہ جن تک علم پہنچ گیا اور وہ اپنے کچرے کو کوڑے دان تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تیسرا درجے کے لوگ وہ جو اپنے پیدا کیے ہوئے کچرے پر بھی غور و فکر کرتے ہیں، اور اپنے گھروں سے ری سائیکل ہونے والا کچرا نکالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے پیدا کیے ہوئے کچرے سے زمین کو نقصان نہ پہنچے۔

اور میری نظر میں تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ اور بہترین ہے، کیوں کہ یہ ہمیں اپنی زندگی کے رہن سہن، وسائل کے استعمال اور ماحول پر اپنے اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔

جیسے جیسے آپ کا درجہ بلند ہوتا ہے، آپ کی ذمہ داری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے بڑی اور ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس علم کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اس حوالے سے مجھے نبی کریم ﷺ کا خطبۃ الوداع یاد آتا ہے، جس میں آپ نے تاکید کی تھی کہ جس تک علم پہنچ گیا ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ یہ علم دوسروں تک پہنچائے۔ یہ تعلیم و تبلیغ کی ذمہ داری انسانیت کی بھلائی اور معاشرے کی بہتری کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے غور کیا کہ دوسرے کے اس فعل پر میرا عمل کیا ہونا چاہیے تھا۔ تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ان صاحب اور صاحبہ کے پاس جا کر یہ بات براہ راست کہنا شاید غیبت کرنے سے بہتر ہوتا۔ اس طرح نہ صرف مسئلہ حل ہونے کا امکان ہوسکتا تھا، بلکہ کسی کے پیٹھ پیچھے بات کرنے کے گناہ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ہم میں سے اکثر خواتین یہ سب باتیں نہیں سوچتیں۔

ان سے یہ بات کچھ اس انداز میںبھی کی جا سکتی تھی کہ ’’میں نے وہاں ایک کوڑے دان دیکھا ہے، سوچا آپ کو بتا دوں، تاکہ آپ کچرا وہاں ڈال دیں۔‘‘ شاید یہ بات مسئلے کا حل بن جاتی، لیکن اگر پھر بھی ان کے اندر اس کا احساس پیدا نہ ہوتا اور وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے، تو دوسرا میرا عمل یہ ہو سکتا تھا کہ میں خود وہ کچرا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیتی!

آخر ہم اس کام کو کرنے سے کیوں شرماتے ہیں۔۔۔؟ اگر ایک پاکستانی پاکستان کو بدنام کر رہا ہے، تو کیا دوسرے پاکستانی کا عمل صرف غیبت کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔۔۔؟ یا اسے اپنے عمل سے اس بدنامی کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے؟

دینِ اسلام ہمیں اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونا سیکھتا ہے، لیکن ہم نے ان تعلیمات پرعمل تو دور کی بات غور وفکرتک نہیں کیا۔ غیر مسلمانوں نے اخلاقیات کو اپنا لیا اس کی مثال جاپانیوں کا اپنا اسٹیڈیم صاف کرنا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ کچرا میرا نہیں، وہ پوری توجہ سے اسٹیڈیم صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کارکردگی کے دباؤ سے نمٹنے کیلیے پیشہ وارانہ اور نجی زندگی میں توازن ضروری ہے، مقررین

کراچی:

ایکسپریس میڈیا گروپ کے اشتراک سے کراچی میں یونی لیور فیوچر لیڈرز پروگرام کے تحت نوجوانوں کو پرفارمینس پریشر سے نمٹنے کے عملی طریقے، خود اعتمادی اور بہتر مستقبل کی تشکیل کیلیے رہنمائی فراہم کی گئی۔  

کراچی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے یونی لیور فیوچر لیڈرز پروگرام کے تحت پانچویں سیریز کے پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع "پرفارمینس پریشر سے کیسے نمٹا جائے" تھا۔

مقررین نے نوجوانوں کو اپنے وسیع تجربے سے مشورے دیے، پینل ڈسکشن کا مقصد نوجوانوں کو کام کے دوران درپیش مسائل سے نمٹنے کیلیے رہنمائی فراہم کرنا تھا، نوجوانوں کو معاشی اور سماجی شعبوں میں خود مختاری اور مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مثبت تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ترغیب بھی دینا تھا۔  

پروگرام کی میزبانی یونی لیور میں بیوٹی اینڈ ویل بینگ کے جنرل مینیجر عادل حسین نے کی، جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج کل کی دنیا میں بے شمار چیلنجز اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ہم اس پروگرام میں ایسے مفید ٹپس اور ٹرکس سیکھنے جا رہے ہیں جو ہمیں اس دباؤ سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہمیں اسی کام کا انتخاب کرنا چاہیے جس کا ہم شوق رکھتے ہیں تا کہ کام کے دباؤ کا بہتر طریقے سے سامنا کر سکیں۔ خود کو جاننا اور اپنے کام میں ایماندار رہنا بہت ضروری ہے تاکہ اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کر سکیں۔ اپنے کام کی تشخیص اور خود ججمنٹ کریں اس سے ذہنی سکون رہتا ہے۔ 

پینل میں شریک پاکستانی جوڑے پتنگیر (امت البویجا اور فہد طارق خان) نے کہا کہ خود کو کبھی بھی دباؤ میں نہیں رکھنا چاہیے، ہم سوشل میڈیا پر کام کرتے ہیں خود سے کام کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی باس نہیں ہے، پریشر محسوس نہیں ہوتا، ہمیں اپنے شعبے میں مسلسل تبدیلیاں نظر آتی ہیں اور ہم ہر بار نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں مگر ثابت قدم رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے کام کو منفرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے راستے کو تلاش کرتے ہیں، ہر کام کرنے سے پہلے مقصد ہونا چاہیے، پتنگیر نے خود کی دیکھ بھال کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ مواد بنانے کا دباؤ نہیں لیتے، کام میں وقفہ ضروری ہے، آرام کرنا انتہائی اہم ہے، جب دل نہیں چاہتا کام نہیں کرتے کیوں کہ ہم لوگوں کو صرف مواد نہیں بلکہ اچھا مواد دکھانا چاہتے ہیں۔

پتنگیر نے کہا اپنی ذاتی زندگی کو عوامی نہیں بناتے، ہم اپنی ذاتی زندگی کو پروفیشنل زندگی سے الگ رکھتے ہیں، جب آپ اپنے راستے پر چلتے ہیں اور اپنے مقصد پر فوکس کرتے ہیں، تو کوئی بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ 

یونی لیور میں ڈائریکٹر ٹرانسفارمیشن، کسٹمر ڈیولپمنٹ کی ازکہ وقار نے نوجوانوں سے کہا کہ ہمیں اپنے کیریئر کی ترقی کے دوران ایک مضبوط سپورٹ سسٹم تلاش کرنا ضروری ہے، بات چیت سے مسائل حل ہوتے ہیں، اگر کوئی بات پریشان کرتی ہے تو ڈسکس کریں دوسروں سے توقعات نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ آپ کو اپنے گھر یا کام کے ماحول میں جس بات سے پریشانی ہے دباؤ لینے کے بجائے ان پر کھل کر بات کریں۔ ورزش کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے ازکہ نے کہا کہ یہ ذہنی سکون اور توانائی کے لیے ضروری ہے۔

روش کی مینیجنگ ڈائریکٹر حفصہ شمسی نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو سچائی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اس سے ہماری جسمانی، نفسیاتی اور روحانی نشوونما بہتر ہوتی ہے، زندگی بہت مصروف ہوتی ہے مگر اپنے لیے وقت نکالنا سیکھیں اور خود کو ترجیح دیں۔ 

اس موقع پر طلبہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونی لیور نے اس پینل ڈسکشن کے ذریعے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، ہم نے سیکھا کہ اگر ہمارا عزم پختہ ہو اور مقاصد واضح ہوں تو ہم کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ سیشن میں طلبہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح اپنی پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔ 

یونی لیور کے نمائندوں نے اس موقع پر اپنے پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو مزید معاونت فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا، تاکہ وہ معاشی اور سماجی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس پروگرام نے نوجوانوں کو موجودہ چیلنجز سے آگاہ کیا اور مستقبل کے لیے عملی حل فراہم کیے تاکہ وہ ایک مثبت اور پائیدار دنیا کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مقررین نے تجاویز دیں کہ ہمیں اپنی زندگی کو حقیقت پسندانہ انداز میں گزارنا چاہیے اور دوسروں کی توقعات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کی بجائے اپنی شخصیت کو قبول کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ذہنی سکون ملتا ہے بلکہ انسان اپنے فیصلوں میں بھی زیادہ پراعتماد رہتا ہے۔

انہوں نے کام کے دوران وقفے لینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسی سرگرمیاں اختیار کی جائیں جو آپ کو دوبارہ تازہ دم کر سکیں، مقررین نے کام کو محنت، شوق اور لگن سے کرنے کی نصیحت بھی کی اور کہا کہ اپنی صحت کو ترجیح دیتے ہوئے روزانہ ورزش کریں یا وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اپنے کام اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن قائم رکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • بات چیت اور مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے: جسٹس منصور علی شاہ
  • بات چیت و مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے: جسٹس منصور علی شاہ
  • بات چیت اور مصالحت کے بعد ہی کورٹ کا رخ کرنا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ
  • کارکردگی کے دباؤ سے نمٹنے کیلیے پیشہ وارانہ اور نجی زندگی میں توازن ضروری ہے، مقررین
  • مجھے سو فیصد یقین نہیں کہ تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • چینی شہریوں کو فارن ایکٹ کو فالو کرنا چاہیے تھا، ضیا لنجار
  • ’بابر اعظم کو کھیلنا نہیں آرام کرنا چاہیے‘ شائقین بھڑک اٹھے
  • مجھے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا، احمد شہزاد
  • اے آئی نے  انسانوں کیلیے اشیا بھی تیار کرنا شروع کردیں