مملکت ناپرسان عالی شان کے معروف دانشور حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر بیرسٹر انجینئر اسکالر مک مکا مک مکانوی نے اپنی کتاب ’’مک مکا اینڈ مک مکا‘‘ میں لکھا ہے کہ اس دنیا میں صرف ’’مک مکا‘‘ ہی ایک حقیقت ہے باقی سب مایا ہے، سب کچھ مایا ہی ہے ۔
ویسے تو مملکت ناپرسان میں دانشور ہی دانشور پیدا ہوتے ہیں اورمعاملے میں ناپرسان کو قدیم لنکا کی حیثیت حاصل ہے جہاں باون گزے ہی باون گزے پیدا ہوتے تھے ، ایک سروے کے مطابق ناپرسان میں دانشور ملک کی ساری آبادی سے دگنے یا تگنے ہیں کیوں کہ ان میں اکثر دانشور ٹو ان ون، تھری ان ون بلکہ آل ان ون تک ہوتے ہیں ، خاص طور پر سرکاری افسروں ، لیڈروں، وزیروں اور معاونین خصوصی تو سنگل دانشور ہوتے ہی نہیں ، بظاہر ایک نظر آتے ہیں لیکن ہرایک میں دانشور گھسے ہوئے ہوتے ہیں، یوں کہئے کہ خرکار کی چادر ہوتے ہیں ، خرکار کی چادر سے پہلے توچادر کا کام لیا جاتا ہے پھر جب چادرکام سے رہ جاتی ہے تو اسے پگڑی بنا لیتے ہیں، پگڑی کا کام بھی جب نہیں کرتیں تو انھیں لپیٹ کر تکیہ بنا لیتے ہیں جب تکیے کی ڈیوٹی سے بھی عاری ہوجاتی ہیں تو گدھے کی گدی میں گھسا دیتے ہیں جب گدھے کی گدی میں بھی سڑ جاتی ہیں تو ان سے تندور گرم کردیا کرتے ہیں پھر تندور کی راکھ کو کسی ٹوٹے ہوئے برتن ہی ڈال کرپودا لگا دیتے ہیں اور دیوار کی زینت بنادی جاتی ہیں ۔
ناپرسان کا دانشورکبھی پہلے کسی سرکاری کو ٹھکانے لگانے کے لیے افسر بنا دیاجاتا ہے وہاں سے مختلف محکموں میں ڈال ڈال امرت دھارا بنا دیا جاتا ہے، اس امرت دھارے کو پھر ریٹائرکرکے ری کنڈیشن کرکے استعمال کیا جاتا ہے ، یہاں بھی چند سرکاری اداروں کا تیاپانچہ کردیتے ہیں تو کالم نگار، تجزیہ کار، تجزیہ نگار بن کر اخباروں اورچینلوں میں ملک کے سینے پر مونگ دلتے ہیں ۔
حضرت مک مکا ، مک مکانوی بھی ایسے ہی آل ان ون دانشور ہیں چنانچہ اپنی اس بے بہا تالیف مک مکااینڈ مک مکا میں انھوں نے مک مکے کی تاریخ، جغرافیہ، حدود، اربعہ اور وجہ تسمیہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ثابت کیا ہے کہ اس دنیا بلکہ پوری کائنات میں ہرہرمقام پر ذرے سے لے کر آفتاب تک میں صرف اورصرف مک مکا ہی جاری وساری ہے۔
انھوں نے دلائل وشواہد سے ثابت کیا ہے کہ اگر دنیا میں مک مکا نہ ہوتا تو یہ دنیا کب کی بھک سے اڑ چکی ہوتی ، موصوف چونکہ سائنس اورطبیعات کے بھی دانشور ہیں اس لیے ایٹم کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ جب تک ایٹم کے اندر الیکٹرون اور پروٹون کے درمیان مک مکا رہتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن جب اس مک مکے کو توڑا جاتا ہے تو ہیروشیما اورناگاساکی جیسی تباہیاں جنم لیتی ہیں۔ حضرت مک مکا مکامکانوی نے یہ بات بھی بتائی کہ انھوں نے خود ساری عمر مک مکوں میں گزاری ہے اوردنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں پایا جس میں مک مکا موجود نہ ہو اور یا اسے مک مکا کرکے حل نہ کیا جاسکتا ہو۔
البتہ مک مکے کے سلسلے میں موصوف نے سیاست دانوں کی بڑی تعریف کی ہے کہ سیاست بجائے خود ایک بہت بڑے مک مکے کا نام ہے اور پھر اس میں چھوٹے بڑے بے شمار مک مکے ہیں یعنی ایجک دانہ بیچک دانہ۔ دانے پر دانا ۔ یوں کہئے کہ سیاست سارے مک مکوں کا سرچشمہ ہے ، معدن ہے مخزن ہے بلکہ یہ ایک ایسی زنبیل ہے جس سے ہرقسم ہررنگ وہرنسل کا مک مکا نکال سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دین ودنیا کے درمیان مک مکا ، کمیونزم اور مذہب کے درمیان مک مکا، جمہوریت اوربادشاہت کے درمیان مک مکا ۔ آگ اورپانی کے درمیان مک مکا ، کتے اور بلی کے درمیان مک مکا۔ یہاں تک کہ سادھو اورشیطان یا پنڈت اورابلیس کے درمیان بھی مک مکا ہوسکتا ہے۔
خاص طور پر مملکت ناپرسان کی سیاست اورسیاستدانوں کی تعریف کرکے موصوف نے بتایا کہ مملکت ناپرسان میں اس وقت جو نظام اورسیاست رائج ہے وہ دنیا کے تمام سیاسی نظریات اورنظاموں کا نچوڑ ہے۔ اس میں دیکھیے تو نظام سقہ اوربچہ سقہ کا رائج کردہ اصول بھی کارفرما ہے تو دوسری طرف اس میں نظام سکہ اوربچہ سکہ بھی جلوہ گرہیں ،یہ بیک وقت شاہی بھی ہے آمریت بھی ہے، جموریت بھی ہے، صدارتی بھی ہے، پارلیمانی بھی ہے، دینی بھی ہے، دنیاوی بھی ہے ،غنڈہ گردی بھی ہے ، دہشت گرد بھی ہے اور یہ سب خوبیاں اس میں مک مکے کی برکت سے جمع ہوئی ہیں۔
یہ اتنا فراخ دل نظام ہے کہ آج کا غنڈہ بدمعاش کل کو صدر مملکت بھی بن سکتا ہے اوروزیراعظم مجرم اعظم بھی بن سکتا ہے اوروہی مجرم کل کو عادل اعظم ، ہیرواعظم اورمرشد اعظم بھی بن سکتا ہے۔ اس عظیم الشان مک مکے کی برکات بلکہ ثمرات زندگی کی ہرہر سطح پرعام ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کا تیاپانچہ بھی کرتے ہیں جب کہ عدل وانصاف قائم کرنے والے عدل اور انصاف کی ایسی کی تیسی بھی کرتے ہیں ، بلیک وائٹ کرتے ہیں اور و ائٹ ہی بلیک بھی کرتے ہیں ، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہرمحکمہ اورادارہ خود کفیل ہے کسی اور کا محتاج نہیں ، اب اگر جرائم پکڑنے والوں کو مجرموں کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی اورکے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی، جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ ہم کوزہ وہم گوزہ گرو ہم گل کوزہ
ایسا بنالیا کبھی بیگانہ بن گئے
یہ دھوپ چھاؤں حسب ضرورت بھی ہے
حضرت مک مکا مک مکانوی نے ناپرسان کی چندایسی شخصیات کی بہت تعریف کی ہے مثلاً ان میں ایک ایسی شخصیت کاذکر بہت دل چسپ ہے جسے سارے ملک میں مک مکاؤں کا ماہراعظم کہاجاتا ہے۔
اس مک مکائے اعظم کدو سرہ کے بارے میں کہاگیا ہے کہ فن مک مکا میں ان کو اتنا یدطولیٰ حاصل ہے کہ چاہیں تو ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں دین ودنیا کے درمیان مک مکاکرسکتے ہیں اورچاہے تو سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں ’’یہود وہنود‘‘ اورمسلمانوں میں مک مکا کردیتے ہیں ۔چنانچہ ناپرسان کے عوام کا عندیہ ہے کہ مک مکوں کے سلسلے میں ان کی خدمات کومدنظر رکھ کر ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ انھیں ملک کا سربراہ بنایا جائے اور یہی ان کی آرزو بھی ہے جب کہ اسی کے لیے سارے مک مکے کرتے ہیں۔
ان دنوں مملکت ناپرسان میں ایک بڑے مک مکے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اوربہت جلد یہ مک مکا ہوجائے گا پھرلوگ کھوجتے رہ جائیں گے کہ جب سارے دامن صاف ہیں تو ملک کو لوٹا کس نے ، یہ بھی ایک مک مکا ہی ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان مک مکا ناپرسان میں میں مک مکا مک مکے کی ہوتے ہیں کرتے ہیں ہوتے ہی جاتا ہے ہیں اور ہے کہ ا ہیں تو بھی ہے ہے اور
پڑھیں:
کراچی چیمبر کے ساتھ امن وامان کیلیے مشترکہ کوشش کریں گے، اے آئی جی پی
اے آئی جی پی جاوید عالم اوڈھو کر اچی چیمبر کے صدر جاوید بلوانی سے شیلڈ وصول کر رہے ہیںکراچی(کامرس رپورٹر)ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کراچی (اے آئی جی پی) جاوید عالم اوڈھو نے پولیس اور تاجر برادری کے درمیان رابطے کے فقدان کو بالخصوص ڈسٹرکٹ ایسٹ میں امن و امان کے چیلنجز میں اہم کردار کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔انہوں نے پولیس چیمبر لائژن کمیٹی (پی سی ایل سی) اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کی لاء اینڈ آرڈر سب کمیٹی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ کراچی ایک وسیع و عریض شہر ہے جس کی آبادی25 ملین سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن امن و امان کی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ یہایک ایسے شہر ہے جہاں ہر ماہ تقریباً 10,000 موٹر سائیکل اور 4,000 گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق جرائم میں 24 فیصد کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 8,400 کم موبائل فون چھینے گئے اور 13,800 کم موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔اجلاس میں بی ایم جی کے چیئرمین زبیر موتی والا (بذریعہ زوم)، صدرکے سی سی آئی محمد جاوید بلوانی، سینئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، پی سی ایل سی چیف حفیظ عزیز، لاء اینڈ آرڈر سب کمیٹی کے چیئرمین اکرم رانا، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے ممبران اور مختلف تجارتی مارکیٹوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔اے آئی جی پی نے کے سی سی آئی کے ممبران کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کا جواب دیتے ہوئے یقین دلایا کہ ڈی آئی جی ٹریفک اور ایس ایس پی ایسٹ کو ٹریفک اور امن و امان کے مسائل کے حل کے لیے کے سی سی آئی کا دورہ کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔