پیپلز پارٹی کی مذاکراتی کمیٹیاں تحلیل
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی ایک مبہم روداد سامنے آئی ہے۔ اس اجلاس کی اہمیت حکومتی اتحاد کی وجہ سے تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب جب پاکستان ن لیگ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں تو اس اجلاس میں بڑے فیصلے کیے جائیں گے۔
اجلاس سے قبل پیپلزپارٹی نے مومینٹم بنانے کے لیے قومی اسمبلی کی کارروائی کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا تھا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آئیں گے کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم شہباز شریف اگلے دن ہی اجلا س میں آگئے کیونکہ وزیر اعظم اختلاف نہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کا اختلاف برقرار ہے۔مذاکراتی کمیٹیاں کوئی بڑے نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ پنجاب میں جس سیاسی سپیس کی بات کی جا رہی تھی وہ نہیں مل سکی تھی۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے پاس ناراض ہونے کے لیے کافی کچھ تھا۔
اس تناظر میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ شاید پیپلزپارٹی ن لیگ کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ بھی کرے گی۔ لیکن یہ بھی رائے تھی کہ پیپلزپارٹی اس قدر مجبور ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ کر ہی نہیں سکتی۔ وہ اس نظام کا حصہ ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اقتدارکا سب سے بڑا حصہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ وہ اس نظام کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں، وہ کیسے نظام کو خطرہ پہنچا سکتے ہیں۔ وہ ن لیگ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
وہ سب کچھ لے کر بھی قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں۔یہ ایک اچھی سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ چار صوبائی حکومتوں میں سے دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے گورنر پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ اس طرح چاروں صوبوں میں حکومتی شیئر پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ لیکن پھر بھی گلہ ہے کہ کم ہے۔ ایم کیو ایم اور ن لیگ کے پاس ایک گورنر ہے۔ پیپلزپارٹی اکیلی جماعت ہے جس کے پاس دو گورنر ہیں۔ ن لیگ کے پاس ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دو صوبوں کی وزارت اعلیٰ ہے۔
اب مرکز کو دیکھ لیں۔ وزارتیں نہ لینا ان کا اپنا فیصلہ تھا، اس پر وہ ن لیگ کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ لیکن اس کے بعد دیکھیں، صدر مملکت کا عہدہ ان کے پاس ہے۔ آصف زرداری ملک کے صدر ہیں۔ اگر انھوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے ن لیگ کو ووٹ دیے ہیں تو صدارت کے لیے ن لیگ سے ووٹ لیے بھی تو ہیں۔ پھر احسان کس بات کا۔ آج پیپلزپارٹی کو صدارت ن لیگ کے ووٹوں سے ملی ہے۔اگر قومی اسمبلی میں سردار ایاز صادق پیپلزپارٹی کے ووٹوں کی مدد سے اسپیکر بنے ہیں تو سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی بھی ن لیگ کے ووٹوں کی مدد سے چیئرمین سینیٹ بنے ہیں۔ ایک ہاؤس ن لیگ کے پاس ہے تو دوسرا ہاؤس پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ اقتدار میں حصہ کم کہاں ہے۔یہ ضرور ہے کہ ایک بڑے اتحادی پارٹنر کے طور پر ن لیگ نے پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ پیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر جواب نہیں دینا ہے۔
اگر بلاول کی باتوں کا جواب دینا شروع کر دیا جائے گا تو گاڑی چل نہیں سکے گی۔ اس لیے جب ایک طرف سے جواب نہیں دیا جاتا تو دوسری طرف کی خاموشی کو ان کی سیاسی کمزوری بھی سمجھا جاتا ہے۔ شاید ن لیگ کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔جواب نہ دینے کی پالیسی کو ان کی سیاسی کمزوری سمجھا جا رہا ہے۔ بطور بڑے سیاسی پارٹنر وہ حالات خراب نہیں کرنا چاہ رہے۔ایم کیو ایم کی گورنری کا معاملہ دیکھ لیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دو گورنر لے لیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ۔ اتحاد چلانے کے لیے ن لیگ نے اپنے حصے سے ایم کیو ایم کو دیا ہے۔ ن لیگ کے پاس صرف ایک گورنر ہے۔ یہ ایک سیاسی قربانی تھی۔ جس سے ن لیگ سندھ بہت ناراض ہے۔
پنجاب میں ن لیگ کی اپنی مکمل اکثریت ہے۔ مریم نواز پیپلزپارٹی کے ووٹوں پر وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہوئی ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی ویسے ہی اکثریت جیسے سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔اب پنجاب میں سیاسی سپیس کا بہت شور ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں کیا سیاسی سپیس چاہیے۔ گورنر ان کا ہے، گورنر ہاؤس پر ان کا قبضہ ہے۔ کیا وہ وزارتیں چاہتے ہیں۔ جب یہ بات پوچھی جائے تو وہ کہتے ہیں نہیں نہیں ہمیں وزارتیں نہیں چاہیے۔
پھر وزارتیں نہیں چاہیے تو کیا چاہیے۔ کیا مختلف اضلاع میں اپنی مرضی کے افسروں کی تعیناتیاں چاہیے۔ اصل لڑائی یہی ہے۔ ایک بڑے لیڈر ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایم ڈی لگوانا چاہتے تھے۔ چند من پسند افسران کو پیپلزپارٹی اپنے مرضی کے اضلاع میں ڈی سی اور ڈی پی او لگوانا چاہتی ہے۔ پوسٹنگ ٹرانسفر کی لڑائی ہے۔ اس لیے کھل کر کہتے بھی نہیں ہیں۔ لیکن بند کمروں میں لڑتے ہیں۔ جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں سیاسی سپیس چاہیے۔ بھائی کیا سیاسی سپیس چاہیے تو خاموشی ہو جاتی ہے۔
بہر حال پیپلزپارٹی نے اپنی تمام مذاکراتی کمیٹیاں ختم کر دی ہیں۔ ان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ دباؤ نے کام نہیں کیا، کمیٹی کمیٹی کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے تمام اختیارات صدر آصف زرداری کو دے دیے ہیں۔ وہ براہ راست میاں نواز شریف سے بات کریں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بات ہو بھی سکے گی۔ پنجاب پر ن لیگ کو ئی خاص کمپرومائز نہیں کرے گی۔ پنجاب ن لیگ کے لیے ویسے ہی سیاسی طور پر حساس ہے جیسے پیپلزپارٹی کے لیے سندھ ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ابھی سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی کے پاس کہ پیپلزپارٹی پیپلزپارٹی نے پیپلزپارٹی ن ن لیگ کے پاس ایم کیو ایم سیاسی سپیس چاہتے ہیں کے پاس ہے ن لیگ کو رہا ہے ایم کی کے لیے اس لیے
پڑھیں:
’’اچھا فیصلہ ہے، سیاسی اور انتظامی عہدے علیحدہ ہونے چاہئیں‘‘
لاہور:گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے سیاسی اور انتظامی عہدے علیحدہ ہی ہونے چاہئیں، سیاسی پارٹیاں بدقسمتی سے یہ کرتی نہیں ہیں، ظاہر ہے پارٹی پر قبضہ برقرار بھی رکھنا ہوتا ہے۔
اصولاً تو یہ علیحدہ ہونے چاہئیں، بڑی اچھی بات ہے، مجھے سمجھ نہیں آئی، ظاہر ہے گورنمنٹ کو پی اے سی میں کوئی پرابلم تو نہیں ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت جو چیزیں چاہ رہی ہوتی اس میں تو وہ روایتی یا غیر روایتی کی پروا نہیں کرت۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مداخلت کریں گے یا نہیں کریں گے یا امریکا کا کوئی دباؤ آیا تو وہ کتنی شدت کا ہوگا؟ ہم اپنے آپ کو امتحان میں کیوں ڈالنا چاہتے ہیں، اس امتحان میں اگر امریکی دباؤ آ جاتا ہے اور اس دباؤ پر عمران خان کو رہا کر دیا جاتا ہے تو یہ پورے پاکستان کی سبکی ہو گی۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ 190ملین پاؤنڈ کیس تو میرے خیال میں ایک چیز ہے اگر ہم وسیع تر منظر نامہ دیکھیں تو میں پہلے دن سے یہ کہتا چلا آ رہا تھاکہ جو مذاکرات شروع ہوئے ہیں سے پر امید نہیں ہوں، حکومت نے وقت حاصل کرنے کیلیے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے، اس کی سنجیدگی پہلے دن سے نظر نہیں آ رہی تھی۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہاکہ علی امین گنڈاپور سے صدارت لینا ، آج ان سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کرنا ، اس سے خان صاحب نے دو پیغام دیے ہیں، ایک اپنی پارٹی کے اندر کہ اگرآپ میری بات نہیں مانیں گے تو آپ کے ساتھ سب کچھ ہوگا، دوسرا وہ اسٹیبلشمنٹ کو غصے میں دوبارہ پیغام دے رہے ہیں کہ ٹھیک ہے جی آپ نے انگیج کیا، میں انگیج ہوا۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ اب تو مذاکرات ختم ہو چکے ہیں اس میں نئی چیز یہ ہے کہ پی ٹی آئی پارٹی میں ری اسڑکچرنگ کے ذریعے 26 نومبر کے بعد اپنی کھوئی ہوئی طاقت کودوبارہ حاصل کر رہی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں پارٹی اور گورنمنٹ کو علحیدہ کر کے ری اسٹرکچرنگ کی گئی ہے، یہ ایک اچھی بات ہے۔