Express News:
2025-04-15@09:37:30 GMT

’’انانیت‘‘ کیسے ختم کی جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

عام طور پر دیکھا جائے تو ’’انا‘‘جسے انگریزی میں ’’ایگو‘‘ کہتے ہیں ہر انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ’’ایگو‘‘ والے سے بہت سے لوگ دور ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی ’’ایگو‘‘ والا بہت لوگوں سے دور رہتا ہے، انانیت انسان کو زندگی کے بھیانک موڑ پرلا کر کھڑا کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایک مرتبہ میں تربیتی سیشن لے رہا تھا تو ہمارے ایک استاد ہمیں کام یاب لوگوں کی زندگی کے بارے بتاتے ہوئے کہنے لگے:’’بیٹا! کام یابی کے لیے Flexible (لچک دار) ہونا ضروری ہے، ہمیشہ وہی بندہ ترقی کرتا ہے جو اپنے آپ کو موقع اور حالات کے ساتھ تبدیل کرتا ہے۔‘‘

 اس وقت مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ کوئی انسان کیسے تبدیل ہوسکتا ہے لیکن آج لوگوں کو بدلتا دیکھ کر میں خود حیران ہوجاتا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انا پرستی زیادہ تر ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو خود کو بدلنا پسند نہیں کرتے، اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو اپنی ذاتی زندگی میں، اپنے گھریلو معاملات میں اور یہاں تک کہ اپنے معاشی اور معاشرتی معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تکبر اور انانیت والے کو اللہ رب ذوالجلال پسند نہیں فرماتا:

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ (پارہ: ۱۴، سورۃ النحل، آیت:۲۳)

ترجمہ: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

امام محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تکبر کی تین قسمیں ہیں:

(۱) وہ تکبر جو اللّہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللّہ پاک کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔

(۲) وہ تکبر جو اللّہ پاک کے رسول ﷺ کے مقابلے میں ہو، جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے، ہماری ہدایت کے لیے اللّہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔

(۳) وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے، حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔

(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، ج:۲، ص:۷۰۷)

یاد رہے کہ تکبر کرنے سے انسان کافر تو نہیں ہوتا مگر گناہوں کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا لیتا ہے اور جب تک توبہ نہیں کرے گا اس وقت تک وہ اس گناہ سے خلاصی نہیں پاسکتا ہے۔

’’ایگو‘‘ (انا) پیدا ہونے کی کثیر وجوہات میں سے ایک وجہ  زیادہ تعریف کا ہونا بھی ہے۔ اگر کسی شخص کی بار بار تعریف کی جائے یا اس کی کام یابیوں کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، تو وہ اپنی اہمیت کے متعلق غیرحقیقی خیالات پیدا کرلیتا ہے، جو ’’ایگو‘‘ کا باعث بنتے ہیں۔ یہ معاملہ اکثر ان لوگوں میں ہوتا ہے جو زیادہ مشہورومعروف ہوتے ہیں۔ شہرت کی وجہ سے کسی بھی تنقید کے نتیجے میں ’’ایگو‘‘ کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات والدین کی تربیت کا انداز ایسا آمرانہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کی شخصیت میں ’’ایگو‘‘پیدا کردیتا ہے۔ یعنی وہ والدین جو بچوں پر ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں تو اصولاً بچہ اپنے والدین سے ہی سیکھتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اگر والد ین میں ’’ایگو‘‘ ہوتی ہے تو بہت ممکن ہوتا ہے کہ بچہ بھی اسی طریقے پر چلتے ہوئے انانیت پسند ہوجاتا ہے یا اس کے برعکس اگر بچپن میں والدین اپنے بچے کو حد سے زیادہ ترجیح دیں اور اس کی ہر بات کو صحیح مانیں، تو بچے میں یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ ہمیشہ درست ہے، جواس کے اندر ’’ایگو‘‘ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

 غلط صحبت بھی انانیت کی ایک بڑی وجہ ہے کہ جب ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جن کے افعال و اقوال میں غرور تکبر ظاہر ہوتا ہے تو ستر فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ ہم بھی ان کا اثر قبول کرلیں گے اور غروروتکبر کا اظہار کرنے لگیں گے۔ جیسے اگر کوئی شریف النفس نوجوان اوباش اور بدتمیز لڑکوں میں بیٹھنے لگتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں بے باکی اور بدتمیزی کا عنصر آجاتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو اس مرض تکبر و انانیت کے بہت سے اسباب ہیں جن کی فہرست بنائی جائے تو تحریر طویل ہوجائے گی، مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم یا ہمارے اردگرد کوئی فرد ’’ایگو‘‘ کی اس سنگین بیماری میں مبتلاء ہے تو اسے کس طرح دور کیا جائے؟ اور کیسے اس کی شخصیت کو تبدیلی پر آمادہ کیا جائے؟

مشائخ کرام اور ماہرین تربیت کہتے ہیں کہ چند کام ایسے ہیں کہ جن کے کرنے سے انسان اس بیماری سے بچ سکتا ہے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱) مثبت اندازِ گفتگو کے ذریعے اسے یہ باور کرایا جائے کہ تم بہت بہادر اور عاجزی کرنے والے شخص ہو۔

۲) روزانہ خود احتسابی کرنا اور اپنے قول و فعل پر غور کرنا کہ میں نے آج کیا کیا کام کیے ہیں۔

۳) سیرت مطہرہ کے وہ واقعات جو عاجزی و انکساری کا درس دیتے ہیں وہ اسے بتائے جائیں۔

۴) ایسے لوگوں کی صحبت کا مشورہ دیا جائے جو عاجزی و انکساری کرتے ہوں۔

۵) خودپسندی کے نقصانات بتائے جائیں اور اس کی مذمت بیان کی جائے مگر اندازِبیاں بہت شائستہ ہو۔

یہ وہ کام ہیں جو انسان کو عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی دانش ور نے کیا خوب کہا تھا: ’’جو شخص تکبر کرتا ہے وہ بے وقوف ہے، کیوںکہ تکبر کرنا تو اللّہ رب ذوالجلال کی صفت ہے، وہی متکبر بھی ہے، جبار بھی ہے اور رحمٰن بھی۔‘‘

حضرت قطب ربانی ابومخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف جیلانی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مریدین کی تربیت کرتے ہوئے فرمایا:’’اپنے آپ کو کم تر سمجھو اور اپنی عبادت پر ناز مت کرو بلکہ دوسروں کے مقابلے میں حقیر سمجھو، کیوںکہ بزرگانِ دین کا یہی معمول ہے۔‘‘ یعنی دنیاوی معاملات تو دنیاوی ہیں دینی معاملات میں بھی اپنے آپ کو کسی سے بڑا نہ سمجھو، اسی میں خیر ہے اسی میں بھلائی ہے۔

یہاں ایک بات خاص طور سے ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ انا پرستی کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں صحیح کرنے لے لیے ہم بھی ’’ایگو‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ اس شخص کی سختی اور غرور ختم ہوجائے، مگر اکثر طور پر ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوںکہ یہ عمل غیرممکن ہے۔ لہٰذا کسی شخص کی ’’ایگو‘‘ کا خاتمہ اگر ممکن ہے تو محبت اور پیار کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، کیوںکہ محبت وہ ہتھیار ہے جو بڑے سے بڑے سنگ دل کو بھی موم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عجزوانکساری عطا فرمائے اور ہمیں ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایسے لوگوں تکبر جو ہوتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

بیت المقدس سے اُٹھتی چیخ

اسلام ٹائمز: اٹھیے اور نکل آئیے اپنے کمفرٹ زون سے کہ یہ وقت صرف پوسٹس لکھنے کا نہیں بلکہ نیت کو عمل میں بدلنے کا ہے۔ ایک نوالہ اپنی پسند کے مطابق نہ کھا کر کسی بچے کو ماں سے بچھڑنے سے بچا لینے کا ہے۔ من پسند برینڈ کا لباس یا جوتا نہ پہن کر بے شمار بے گناہ جسموں کو بے وقت کفن پہننے سے بچانے کا ہے اور دراصل یہ بائیکاٹ تو ہے بھی نہیں، یہ تو ہمارے عشق کا اظہار، غیرت کا تقاضا اور بطور مسلمان ہمارا فرض ہے اور یہ فرض میں نے نبھانا ہے، آپ نے نبھانا ہے بلکہ ہم سب نے مل کر نبھانا ہے۔ تحریر: فاخرہ گل

کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کی آنکھوں میں وہ سوال پڑھا ہے جو اُن کی زبان پر تو نہ آئے لیکن آپ کی روح کو جھنجھوڑ دے؟
ہمارا گھر کہاں گم ہو گیا؟
میری ماں کہاں گئی؟
میرے ابو کو کیوں مارا؟
یہ دھماکے کیوں ہو رہے ہیں؟
میرے بہن بھائی کہاں ہیں؟
کھانے اور بھوک سے متعلق نہیں بلکہ زندگی اور موت سے متعلق اس طرح کے سوال ہیں جو آج اُن گلیوں میں گونجتے ہیں جہاں کھلونوں کی جگہ خون، جھولوں کی جگہ ملبہ اور نیند کی لوریوں کی جگہ بموں کی آوازیں ہیں، تو کیوں ناں ذرا اپنی ذات کے اندر بھی جھانکا جائے کہ ہم اپنے دائرے میں رہ کر اب تک کیا کر سکے اور کیا اب بھی ہم کچھ خریدتے ہوئے اپنے ضمیر کے بجائے اُن برینڈز کو ترجیح دیتے ہیں جنھیں دیکھنا بھی نہیں چاہیئے؟ ہم یورپ میں رہتے ہیں اور اکثر اوقات وہی چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں ہم برسوں سے پسند کرتے آئے، مگر یقین کیجیے کہ 2023ء سے شروع کیے گئے اپنے بائیکاٹ پر الحمدللہ آج کے دن تک قائم ہیں۔

زیادہ شکر اس بات کا کہ میں جو یہ سوچ رہی تھی کہ میکڈونلڈ وغیرہ سے متعلق بائیکاٹ شاید بچوں کے لیے مشکل ہو تو میرے کہنے سے پہلے ہی خود انھوں نے کہا کہ اگر آج کے بعد ہم ایک مرتبہ بھی اس طرح کی کوئی پروڈکٹ خریدیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم اُنہیں سپورٹ کر رہے ہیں جنہوں نے بے گناہ مسلمانوں سے کھانا پینا تو ایک طرف، ان کی زندگی تک چھین لی ہے۔ وہ دن میرے لیے یادگار تھا کیونکہ تب میں نے بے تحاشا شکر ادا کیا کہ الّلہ کریم نے بچوں کو اتنی سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ ہمارے کہنے کے بغیر ہی وہ سب چھوڑ دیا جو انہیں بہت پیارا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ انہیں غزہ کے بچوں کی زندگی اپنی پسندیدہ چیزوں سے بڑھ کر پیاری اور اہم لگنے لگی تھی۔

میں خود 2023ء میں اسکن الرجی کے لیے اسی ناپسندیدہ لسٹ سے کچھ پروڈکٹس استعمال کر رہی تھی لیکن جیسے ہی بائیکاٹ شروع کیا تو ان کا استعمال ختم کر دیا۔ دیر سے ہی سہی لیکن آرام تو پھر بھی آگیا تھا ،البتہ دل پر یہ بوجھ نہیں رہا کہ تب بے گناہ مسلمانوں کے بجائے میں نے خود کو ترجیح دی۔ اطمینان اس بات کا ہے کہ الحمدللہ ہم نے ذائقہ، پسند، یا خوشی نہیں بلکہ بے حسی چھوڑ دی۔ اللہ کریم سورہ انفال میں فرماتا ہے ’’اور اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا فرض ہے‘‘۔ تو یہی بائیکاٹ ہی تو وہ مدد ہے جو ہم اور آپ اپنے گھروں میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں ، ہم نے کیا ہے اور آئندہ بھی انشاءالّلہ کرتے رہیں گے۔ کیا آپ بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کیلیئے کردار ادا کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کب چھوڑیں گے؟

پیٹو گے کب تلک سر رہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کر نکل گیا

بعد میں لکیر پیٹنے کے بجائے یہی تو وقت ہے یہ سوچنے کا کہ کیا آپ کے ہاتھ اب بھی وہی سامان خریدیں گے جو شہید لاشے ہوا میں اُڑا کر شراب کے جام ٹکرانے والوں کو سپورٹ کریں؟ اور یقیناً ایسا تو صرف وہی لوگ کریں گے جن کا ضمیر ابھی تک مسلمان حکمرانوں کی طرح سو رہا ہے. جن کے دل میں اب تک وہ چیخ نہیں اتری جو مسجد اقصیٰ سے بلند ہوئی.

اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا

اٹھیے اور نکل آئیے اپنے کمفرٹ زون سے کہ یہ وقت صرف پوسٹس لکھنے کا نہیں بلکہ نیت کو عمل میں بدلنے کا ہے۔ ایک نوالہ اپنی پسند کے مطابق نہ کھا کر کسی بچے کو ماں سے بچھڑنے سے بچا لینے کا ہے۔ من پسند برینڈ کا لباس یا جوتا نہ پہن کر بے شمار بے گناہ جسموں کو بے وقت کفن پہننے سے بچانے کا ہے اور دراصل یہ بائیکاٹ تو ہے بھی نہیں، یہ تو ہمارے عشق کا اظہار، غیرت کا تقاضا اور بطور مسلمان ہمارا فرض ہے اور یہ فرض میں نے نبھانا ہے، آپ نے نبھانا ہے بلکہ ہم سب نے مل کر نبھانا ہے کیونکہ خود سورہ رعد میں الّلہ کریم کے فرمان کے مطابق ”یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے“۔

جان رکھیے کہ اگر اب بھی آپ نے اپنی استطاعت کے مطابق حق کا ساتھ نہ دیتے ہوئے خاموشی اختیار کی تو کل تاریخ سوال ضرور کرے گی کہ جب ظلم اپنے عروج پر تھا تو تم کہاں تھے؟ ایسا نہ ہو کہ تب آپ کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہ ہو۔ بائیکاٹ کریں کیونکہ آپ اُس امت کا حصہ ہیں جس کے متعلق حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مسلمان اُمت ایک جسم کی مانند ہے کہ جسم کے کسی ایک حصّے میں تکلیف ہو تو اسے نہ صرف پورا جسم محسوس کرتا ہے، بلکہ بے قرار ہوکر اس تکلیف سے نجات کی عملی کوشش بھی کرتا ہے۔ بائیکاٹ کریں کیونکہ آپ صرف خاموش رہ کے ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے مجرم نہیں بن سکتے اور سب سے سادہ اور آسان بات کہ بائیکاٹ کریں کیونکہ آپ ایک انسان ہیں اور ناحق کسی پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب ’’آسان کاروبار کارڈ‘‘کون اہل ہے،اپلائی کس طرح کیا جائے،جا نیں
  • اسٹیج ڈراموں میں خواتین اداکار کیسے ملبوسات زیب تن کریں؟ منظوری حکومت دے گی 
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی سے درجنوں لوگوں کو بچانے والے 5 پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین
  • فتنے کےساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوسکتی، حکومت کسی اصول پر کمپرومائز نہیں کرے گی، اسحاق ڈار
  • چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
  • حکومت کسی اصول پر کمپرؤمائز نہیں کرے گی،نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی: 5 پاکستانی کیسے پوری ملائشین قوم کے ہیرو بنے
  • بورڈنگ پاس اور چیک ان کا خاتمہ؟ عالمی فضائی سفر کی انڈسٹری میں بڑی تبدیلیوں کا امکان
  • بیت المقدس سے اُٹھتی چیخ