برطانیہ: ہفتے میں 3 دن چھٹی، 200 کمپنیوں نے ہامی بھر لی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
برطانیہ میں 200 کمپنیوں نے مستقل طور پر ہفتے میں 4 روز کام کرنے کی ہامی بھر لی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق5,000 سے زائد ملازمین والی ان کمپنیوں نے مستقل بنیادوں پر 4 دن کے کام کے ہفتے کے اصول کو اپنایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک ملازمت کا موقع، جاپان کو 8 لاکھ سے زائد غیر ملکی کارکن درکار
برطانیہ میں قائم کردہ 4 ڈے ویک فاؤنڈیشن کی طرف سے شروع کردہ 4 روز کام والی مہم میں ملک بھر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 200 کمپنیوں نے شمولیت اختیار کی۔
مذکورہ فرموں میں سے 30 مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور پریس ریلیشنز، 29 خیراتی اور غیر سرکاری تنظیمیں، 24 ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز اور سافٹ ویئر کمپنیاں، 22 کنسلٹنسی اور مینجمنٹ کمپنیاں شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: 2024 میں کتنے پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے؟
فی الحال کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس نے ملک بھر میں 4 روزہ ورک ورکنگ وک لازمی قرار دیا ہو لیکن کئی ممالک میں انفرادی کمپنیوں یا پائلٹ پروگراموں کے ذریعے اس عمل کو نمایاں طور پر اپناتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ بیلجیئم سنہ 2022 میں 4 دن کے ورک ویک کی قانون سازی کرنے والا پہلا یورپی ملک بنا تھا۔
مزید پڑھیں: کون سا یورپی ملک تارکین وطن کو ملک چھوڑنے پر ہزاروں ڈالر دے رہا ہے؟
جن ممالک میں کسی نہ کسی حد تک ہفتے میں 4 دن کام ہوتا ہے یعنی 3 دن چھٹی ہوتی ہے ان میں آسٹریلیا، آسٹریا، امریکا، بیلجیئم، برطانیہ، برازیل، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، آئس لینڈ، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، اسکاٹ لینڈ، جنوبی افریقہ، اسپین، سوئیڈن، سوئٹزر لینڈ، نیوزی لینڈ، آئس لینڈ، لتھوانیا، جاپان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ رجحان عالمی سطح پر زور پکڑ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
3 دن چھٹی 4 دن کا ورکنگ ویک 4 دن کام.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 3 دن چھٹی 4 دن کا ورکنگ ویک 4 دن کام کمپنیوں نے
پڑھیں:
پاکستانی ساحل پر نایاب کچھوے زہریلے صنعتی فضلے کا شکار، ذمہ دار کمپنیوں پر جرمانہ
گوادرمیں ماڑہ کے ساحلی علاقے میں 4 نایاب کچھوؤں کی ہلاکت کے بعد محکمہ تحفظ ماحولیات بلوچستان نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 2 فش کمپنیوں، بی کے ٹریڈنگ (سابقہ زالان کمپنی) اور اوشین تھری اسٹار پر بلوچستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2012 کی خلاف ورزی پر ایک، ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:جرابوں میں نایاب کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث چینی باشندے پر فرد جرم عائد
محکمہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق یہ اقدام 9 اپریل 2025 کو دیمی زر کے ساحل پر 4 مردہ کچھوؤں کی دریافت کے بعد کیا گیا۔
ابتدائی تحقیق اور ماہرینِ حیاتیات کی رائے کے مطابق کچھوؤں کی ہلاکت کی ممکنہ وجہ صنعتی آلودگی اور زہریلے مادوں کا اخراج قرار دیا گیا ہے۔
مردہ کچھوے مذکورہ کمپنیوں کے صنعتی یونٹس سے منسلک نکاسی آب کی لائنوں کے قریب پائے گئے، جس سے سمندری ماحول کو لاحق سنگین خطرات کا اشارہ ملتا ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات نے بی کے ٹریڈنگ اور اوشین تھری اسٹار کو باضابطہ نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے اقدامات کو نہ صرف ماحولیاتی ضوابط کی خلاف ورزی بلکہ قومی ماحولیاتی معیار (NEQS) کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھگوڑا کچھوا ساڑھے 3 سال بعد ملا تو کتنا فاصلہ طے کر چکا تھا؟
نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کو ماضی میں بھی ماحولیاتی اخراج کو کم کرنے اور ضوابط پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کی گئی تھیں، جن پر عمل نہیں کیا گیا۔
محکمہ نے دونوں کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ 7 روز کے اندر ایک، ایک لاکھ روپے کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائیں۔بصورتِ دیگر، عدم تعمیل کی صورت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ 10 ہزار روپے روزانہ اضافی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
یہ اقدام نہ صرف سمندری حیات کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے بلکہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ایک واضح مثال بھی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جرمانہ صنعتی فضلہ گوادر ماڑہ نایاب کچھوے