چین پاکستان کا سدا بہار اسٹریٹجک پارٹنر ہے، وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اعلامیے کے مطابق ترجمان شفقت علی خان نے ون چائنا پالیسی کے بنیادی اصول کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک مستقل بنیاد ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دفتر خارجہ نے چین کی پالیسیوں کے حوالے سے پاکستانی عزم کو نشانہ بنانے والے بے بنیاد الزامات مسترد کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ بیجنگ اسلام آباد کا ہر موسم میں اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ واضح رہے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف پوسٹس کی گئی، اور مقامی اور ایک بھارتی میڈیا رپورٹ میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ محسن نقوی نے چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے خلاف مہم چلانے والے لابنگ گروپ کی میزبانی میں ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے امریکی شہر ہیوسٹن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ان رپورٹس کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دورہ امریکا کے دوران چین کے خلاف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کی جانب سے جاری آج بیان میں ان رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ چین پاکستان کا ہر موسم کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کو پاک چین دوستی کو نشانہ بنانے کے بے بنیاد الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق ترجمان شفقت علی خان نے ون چائنا پالیسی کے بنیادی اصول کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک مستقل بنیاد ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ یہ رشتہ باہمی اعتماد، مشترکہ اقدار، بنیادی تشویش کے مسائل پر حمایت اور علاقائی اور عالمی استحکام کے عزم سے نمایاں ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے تاریخی طور پر مضبوط سفارتی تعلقات برقرار رہے ہیں، 2013 سے پاکستان کے لیے چینی سرمایہ کاری اور مالی معاونت ملک کی مشکلات کا شکار معیشت کے لیے باعثِ فخر رہی، جس میں قرضوں کی توسیع شامل ہے، تاکہ اسلام آباد ایسے وقت میں بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کر سکے جب غیر ملکی ذخائر انتہائی کم تھے۔ بیجنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ اسکیم کے تحت پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت سڑکوں، بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں 65 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، جسے ملک کی معیشت کے لیے لائف لائن کہا جاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
میلہ چراغاں: موسم بہار میں لاہور کی ثقافتی پہچان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2025ء) باغبان پورہ میں شاہ حسین کی درگاہ پر آگ کا الاؤ روشن تھا۔ منڈیر پر چھوٹے چھوٹے چراغ اور موم بتیاں جل رہی تھیں۔ مرد و خواتین باری باری آتے، چراغ میں انگلی ڈبوتے اور تیل اپنے جسم پر مل لیتے۔ یہ منظر لاہور کے سالانہ میلہ چراغاں کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ سینکڑوں برس سے مارچ کے آخری ہفتے لگتا آ رہا یہ میلہ چراغاں یا میلہ شالامار، جسے لاہور کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے، اس مرتبہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہنے کے بعد پیر کے روز اختتام پزیر ہو گیا۔
ہم میں سے کئی نسلیں سکول کے نصاب میں وہ نظم پڑھتے ہوئے جوان ہوئیں جس کی لائنیں تھیں: کھیتوں سے منہ موڑ کے، سب کاموں کو چھوڑ کے، دہقانوں کی ٹولیاں، گاتی آئیں بولیاں، میلہ شالامار کا۔
(جاری ہے)
’’سوہنا شہر لاہور‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف طاہر لاہوری اس کی تاریخ سادہ لفظوں میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”یہ میلہ حضرت شاہ حسین کے عرس کا ہوتا تھا۔
اس لیے اسے میلہ مادھو لعل حسین بھی کہتے تھے، میلہ چراغاں اس لیے مشہور تھا کہ حضرت شاہ حسین کے مزار پر لوگ کثرت سے چراغ جلاتے تھے۔ اس سے اگلے دن عرس کی بقیہ تقریبات ہوتی تھیں۔ جب اس میلے کی شہرت دور دور تک پھیلی، تو اس میلے نے عرس کے ساتھ موسمی میلے کی صورت اختیار کر لی۔ موسم بہار کے آغاز پر اس میلے کے انعقاد نے بہاریہ میلے کا رنگ اختیار کر لیا کیونکہ اس میں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ اسے میلہ شالا مار بھی کہا جانے لگا۔"خیال رہے شاہ حسین سولہویں صدی کے پنجابی شاعر تھے جن کی کافیاں خطے کے لوک کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔
وہی شاہ حسین جس نے کہا تھا،
رہا میرے حال دا محرم توں
اندر توں باہر تو روح روح وچ توں
تو ہی تاناں توں ہی باناں سبھی کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں
مشتاق صوفی کے مطابق، ”ہماری ثقافتی روایات کی شاہ حسین سے بہتر مجسم شکل کوئی دوسری نہیں۔
" چراغ، ڈھول، دھمال اور گلاب: میلہ چراغاں کیسے منایا گیا؟رمضان کی وجہ سے رواں برس میلہ چراغاں مارچ کے آخری ہفتے کے بجائے اپریل میں منعقد ہوا۔ ایک دوسرا نمایاں پہلو میلے کا دوبارہ سے شالامار میں منعقد ہونا تھا۔
روایتی طور پر میلہ چراغاں شالامار باغ میں ہی لگتا آیا مگر ایوب خان نے 1958ء میں اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
رواں برس پنجاب حکومت نے شالامار کے دروازے کھول کر 67 برس قدیم روایت سے جوڑنے کی کوشش کی۔بارہ اپریل سنیچر کے روز باغبانپورہ میں مادھو لال حسین کے دربار پر خواتین، مرد اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دربار کے بالکل سامنے مچ یا آگ کا الاؤ روشن تھا جس میں عقیدت مند موم بتیاں ڈال رہے تھے۔ بہت سے لوگ تیل والی اپنی بوتل کسی چراغ میں انڈیل کر وہاں سے چند قطرے واپس اپنی بوتلوں میں رکھ لیتے۔
انہیں میں سے ایک جھنگ کی بھاگ بھری تھیں۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں تقریباً چالیس پینتالیس برس سے آ رہی ہوں۔ یہ تیل برکت والا ہے، میں نے اپنا لایا تیل انڈیل کر یہاں سے چند قطرے واپس ڈال لیے، جو گھر لے جاؤں گی۔ ہم سارا سال اسے استعمال کرتے ہیں۔ زخم یا پھوڑے پھنسیاں نکل آئیں تو یہ تیل لگانے سے فوراً شفا ملتی ہے۔
"چراغ رکھنے والا سٹینڈ ہو یا مادھو لال اور شاہ حسین کے مزاروں کی تختیوں پر لکھے ان کے نام، فقیروں کے لباس سے درختوں پر لگی کاغذ کی جھنڈیوں تک ہر طرف دو رنگ بہت نمایاں تھے، سرخ اور پیلا۔ مچ کے ساتھ ہی ابوذر مادھو دھمال ڈال رہے ہیں جو لاہور میں استاد اور راوی بچاؤ تحریک کی نمایاں آواز ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”سرخ رنگ شاہ حسین کا ہے جب کہ پیلا رنگ مادھو لال کا ہے۔
سرخ رنگ محبت کی آگ ہے، پیلا رنگ محبوب کی سپردگی ہے۔ شاہ حسین کی تائید میں فقیر سرخ رنگ پہن کر دھمال ڈالتے ہیں۔"دربار کے اندرونی احاطے میں، جہاں شاہ حسین اور مادھو لال دفن ہیں وہاں گلاب کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ عقیدت مند دعائیں مانگتے اور پھول رکھتے جا رہے تھے۔ دربار کے ساتھ ہی قبرستان ہے، جس میں جگہ جگہ فقیر منڈلیاں لگائے بیٹھے تھے۔
کہیں دھمال اور ڈھول کی تھاپ تو کہیں بھنگ کے پیالے بھر بھر پیے جا رہے ہیں۔ سامنے لنگر خانے میں ایک کے بعد ایک دیگ کھلتی چلی جا رہی تھی۔ادھر شالامار باغ میں بھی بھر پور رش تھا، جہاں فوڈ سٹال، آرٹ ولیج، رقص و موسیقی اور کیا کچھ نہ تھا مگر سب سے زیادہ رش پانی کے فواروں اور ان میں جلتے ہوئے فانوسوں کے اردگرد تھا۔
’گلابی موسم اور لاہوریوں کی دیوانگی‘سوشل میڈیا پر بھرپور طریقے سے میلہ چراغاں منانے کے حکومتی فیصلے کو سراہا گیا۔
ایسے میں بہت سے لوگ یادوں کے دریچے کھول کر بیٹھ گئے کہ ماضی میں میلہ شالامار کیسا ہوا کرتا تھا۔باغبان پورہ کے رہائشی وقار حسین گانے بجانے سے منسلک ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ہم نے پچیس تیس سال پہلے تک جو میلہ چراغاں دیکھا وہ کہیں بجھ کر ہی رہ گیا۔ تب دہلی دروازے سے مادھو کے دربار تک پورا شہر روشنیوں میں نہا جاتا تھا، آرے بازار سے باغبان پورہ تک فقیروں کی دھمال ہوتی تھی۔
عید پر کوئی نئے کپڑے اور جوتے خریدے یا نہ خریدے میلہ چراغاں پر ضرور خریدتا تھا۔ ہفتہ دس دن پہلے قدم قدم پر مٹھائی اور بیسن کے قتلمے تیار کرنے والے اپنے شامیانے لگا لیتے، ہارن سے کان پھاڑتی گاڑیوں کی جگہ تانگوں اور بیل ریڑھیوں کی مدھر گھنٹیوں کی آواز ہوتی۔"معروف ادیب یونس ادیب اپنی کتاب ’’میرا شہر لاہور‘‘ میں لکھتے ہیں، ”شاہ حسین کے میلہ چراغاں کی خوشبوئیں روایتی بھی ہیں اور موسمی بھی۔
اس وقت پنجاب میں بہار کا موسم ہوتا ہے اور فصلیں پک کر تیار ہو چکی ہوتی ہیں۔ لاہور میں بہار کی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، اسے لاہور میں گلابی موسم کہا جاتا ہے۔"مستنصر حسین تارڑ اپنی کتاب ’’لاہور دیوانگی‘‘ میں میلہ چراغاں کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں، ”لاہور ہے یا آتش کدوں کا شہر بلخ ہے کہ جس طرف کوئی دیکھے آگ بھڑک اٹھتی ہے چراغوں کی، شعلے اٹھتے ہیں الاؤ سے، کیا اہل شہر آتش پرست ہو گئے ہیں؟"
اب فانوسوں اور فواروں سے شالامار باغ بہشت کا نقشہ پیش کرتا ہے تو تقسیم برصغیر سے پہلے یہاں کیا صورتحال ہوتی ہو گی؟
مسعود نظامی مشہور رسالے نقوش کے لاہور نمبر میں لکھتے ہیں، ”میلے کے دنوں میں باغات کا منظر بہت دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔
تالاب اور حوض پانی سے بھرے ہوتے ہیں، فورارے چھوٹتے ہیں، سنگ مر مر کی آبشار سے جب پانی گرتا ہے تو سماں بندھ جاتا ہے۔ درختوں اور گل بوٹوں اور لوگوں کے رنگارنگ لباسوں کی بوقلمونی سے مغل شہنشاہ شاہجہاں کا یہ باغ پرستان کا منظر پیش کرتا ہے۔"وقار حسین کہتے ہیں، ”جنہوں نے میلہ چراغاں کی پہلے والی آن بان دیکھی انہیں آج کی رونق خوش نہیں کر سکتی۔ پھر بھی اچھا تو لگتا ہے، اتنے زیادہ لوگ آ رہے ہیں، ہمارا تو عقیدہ ہے مادھو لال حسین کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا، لوگ آتے رہیں گے۔"