Islam Times:
2025-01-29@05:47:17 GMT

دہلی اسمبلی انتخابات، انڈیا الائنس اور مسلمان

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

دہلی اسمبلی انتخابات، انڈیا الائنس اور مسلمان

اسلام ٹائمز: شاہین باغ احتجاج معاملہ ہو یا دہلی فرقہ وارانہ فساد، کانگریس کبھی کھل کر یا ڈھکے چھپے طور پر بھی مسلمانوں کیساتھ نہیں آئی۔ بابری مسجد کا زخم ضرور وقت کیساتھ مندمل ہوگیا ہو، مگر اسکی ٹیس اب بھی بھارتی مسلمانوں کے دل میں ہے۔ تازہ حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اب کانگریس کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کانگریس اب پہلے جیسی نہیں ہے، مگر اب بھی مسلمانوں کی آواز اٹھانا تو دور، یہ پارٹی نام بھی کھلے طور پر لینا پسند نہیں کرتی۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارتی دارالحکومت دہلی میں جوں جوں اسمبلی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ دہلی میں تین جماعتیں بی جے پی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی اہم ہیں۔ انہی تینوں سیاسی جماعتوں کی ماضی میں بھی حکومت رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے تو عام آدمی پارٹی کی دہلی پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کو کسی قیمت پر بھی بی جے پی پسند نہیں ہے، اس لئے آئندہ بھی عام آدمی پارٹی دہلی پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ کانگریس تو اسے دہلی کے معاملے میں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دہلی پر از سر نو قبضہ کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ خواہ اسے اپوزیشن اتحاد "انڈیا" سے الگ ہی ہونا پڑے۔ دہلی کا اسمبلی انتخاب اور مسلمانوں کی حکمت عملی، جب اس موضوع پر غور کیا جاتا ہے تو مختلف جوابات آتے ہیں۔

دہلی میں آبادی کا تناسب کیا ہے۔ تو پہلے ہم دہلی کے بارے میں کچھ جان لیتے ہیں۔ زمین (رقبہ) کے اعتبار سے دہلی، ہندوستان میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1483 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں 35.

369 مربع کلو میٹر رورل اور 65.1113 مربع کلو میٹر اربن علاقہ شامل ہے۔ اس کی لمبائی 51.9 کلو میٹر اور چوڑائی 48.48 کلو میٹر ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 38 لاکھ 7 ہزار 400 ہے۔ جس میں 12.78 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے، یعنی مسلمان دہلی میں 22 لاکھ کے آس پاس ہیں۔ دہلی میں اسمبلی کی 70 نشستیں ہیں۔ مسلم آبادی یوں تو دہلی کے ہر ضلع میں موجود ہے، لیکن دہلی کے کئی ایسے علاقے ہیں، جہاں مسلم امیدوار فتح حاصل کرسکتے ہیں، یا مسلمان جسے چاہیں اسے اسمبلی پہنچا سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں ایسے کئی علاقے ہیں، جہاں کی مسلمان آبادی الیکشن کا رخ بدل سکتی ہے۔

اوکھلا (جامعہ نگر، ذاکر نگر، ابوالفضل انکلیو، شاہین باغ، نورنگر، جسولہ وہار)، سیلم پور، للتا پارک، پارک اینڈ، ہمدرد نگر، بلی ماران، جعفرآباد، مٹیا محل، نظام الدین، مصطفی آباد، گھونڈہ، رٹھالہ، چاندنی چوک، شاہدرہ، کھجوری پشتہ، دریا گنج، جہانگیر پوری، اندرلوک، شہزاد باغ، بیری والا باغ، باڑہ ہندو راؤ، وجے پارک، نبی کریم، نور الٰہی، چاند باغ، چوہان بانگڑ، کراول نگر، سنگم وہار وغیرہ دو درجن سے زائد ایسے علاقے ہیں، جہاں سے مسلمانوں کے ووٹ اکثریت میں مل سکتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں، جو الیکشن کا پلڑہ کسی طرف بھی جھکا سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ان علاقوں کے مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی موجود نہیں ہے۔ الیکشن میں کئی کئی مسلم امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں اور دوسرے امیدوار جیت جاتے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں کے پاس دو متبادل ہیں، کانگریس اور عام آدمی پارٹی۔ ان دونوں کا یوں تو اپوزیشن اتحاد "انڈیا" گروپ سے تعلق ہے اور پارلیمانی انتخاب ان دونوں نے مل کر لڑا تھا۔

ہریانہ اسمبلی الیکشن دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے دم پر لڑے۔ کانگریس کو 30 سیٹوں پر کامیابی ملی، جبکہ عام آدمی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی۔ بی جے پی کو 40 سیٹیں ملیں اور اس نے کسی طرح وہاں حکومت بنائی۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس ہریانہ میں مل کر مقابلہ کرتے تو "انڈیا" گروپ کی جیت یقینی تھی اور آسانی سے وہاں انڈیا گروپ کی حکومت بنتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب دہلی کے مسلمانوں کا سخت امتحان ہے، وہ کسے ووٹ دیں۔ کانگریس کو یا عام آدمی پارٹی کو۔؟ تقریباً دونوں کی ایک دہائی سے زائد دہلی پر حکومت رہی ہے۔ دونوں کے مسلمانوں کے لئے کاموں پر بھی نظر ڈال لیں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال تین بار دہلی کے وزیراعلٰی رہے۔ اروند کیجریوال نے زمینی سطح کی سیاست کرکے ایک مثال قائم کی۔ انہوں نے حکومتی سطح پر وہ کچھ ایسا کرکے دکھایا، جو سیاست میں ناممکن تھا یا انتہائی مشکل تھا۔

انہوں سب سے پہلے 200 یونٹ تک بجلی مفت کی۔ سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ان کی کایا پلٹ کر دی۔ محلہ کلینک کھولے، خواتین کا بس میں سفر فری کیا۔ بزرگوں کی پنشن شروع کی۔ راشن تقریباً مفت کیا۔ یہ سب اور دوسرے کام بھی کئے، جو دہلی کے عوام کے لئے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے کیا کیا۔ اروند کیجریوال نے اپنی وزارت میں ایک بھی اہم وزارت مسلمانوں کو نہیں دی۔ دہلی وقف بورڈ، حج کمیٹی، اردو اکادمی میں مسلمان کو رکھنا مجبوری تھی۔ ان شعبوں میں کوئی حیرت انگیز کارنامہ ان کے دور میں نہیں ہوا۔ سی اے اے کے خلاف جب خواتین کا احتجاج کئی ماہ چلا تو اروند کیجریوال وزیراعلیٰ تھے۔ احتجاج کی حمایت میں نہ کوئی بیان دیا اور نہ ہی جلسہ گاہ میں جانے کی زحمت کی، جبکہ زیادہ تر سیکولر لوگ وہاں گئے تھے۔ 2020ء میں دہلی میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔ مسلمانوں کا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا، ایسے حالات میں عام آدمی پارٹی کا کیا رول تھا۔؟

اب کانگریس اور دہلی کے مسلمانوں کے رشتے کا پتہ لگاتے ہیں۔ کانگریس ایک صدی سے زائد برسوں سے ملک کی خدمت کر رہی ہے۔ شیلا دیکشت نے تین بار دہلی کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ کانگریس کے دور میں چودھری متین، ہاشمی، ہارون یوسف اور شعیب اقبال کی شکل میں مسلم چہرے ہمیشہ ہمارے سامنے رہے۔ شیلا دیکشت نے دہلی کو دنیا کے خوبصورت شہروں میں شمار کرا دیا۔ خوش نما پارک، کشادہ سڑکیں، لمبے اور خوبصورت پل، اوور برج، شاندار عمارتیں، بازار، ناموں کی تختیاں اور گیٹ، بس اڈوں کا بہتر انتظام، میٹرو کی شروعات، پوری دہلی میں سی این جی بسوں کا جال وغیرہ سے پورے شہر کو مزین کیا۔ شاہین باغ احتجاج معاملہ ہو یا دہلی فرقہ وارانہ فساد، کانگریس کبھی کھل کر یا ڈھکے چھپے طور پر بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئی۔

بابری مسجد کا زخم ضرور وقت کے ساتھ مندمل ہوگیا ہو، مگر اس کی ٹیس اب بھی بھارتی مسلمانوں کے دل میں ہے۔ تازہ حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اب کانگریس کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کانگریس اب پہلے جیسی نہیں ہے، مگر اب بھی مسلمانوں کی آواز اٹھانا تو دور، یہ پارٹی نام بھی کھلے طور پر لینا پسند نہیں کرتی۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں کے پاس ایک اور متبادل ہے، جو بہت کمزور ہے۔ یعنی مسلمان خود اپنے دم پر اپنی قسمت آزمائیں۔ مگر اس میں بہت بڑا رسک ہے۔ دہلی کے مسلمانوں کا کوئی قائد نہیں ہے۔ خود ان کی آبادی اتنی نہیں ہے کہ مسلم ووٹ متحد ہو بھی جائیں تو وہ جیت پائیں۔ دوسرے مسلمانوں کا ایک ہونا بہت ہی مشکل ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ مختلف پارٹیوں میں بٹے ہیں۔ ایسے لیڈروں کی بے حد کمی ہے، جن پر ہندو اور سکھ بھی اعتماد کریں یا ان کو ووٹ دیں۔

تو خالص مسلمانوں کی پارٹی بنانا عبث ہے۔ یہ عمل مناسب ہوسکتا ہے، جب مسلمانوں کا اپنا بیس ووٹ بینک ہو اور امیدواروں کا اخلاق و کردار اچھا ہو۔ پھر اس عمل میں مستقل مزاجی، لمبا وقت اور عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوں، یہ اب شاید ممکن نہیں ہے، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں، اس کی شروعات ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی، کانگریس، بی جے پی، ان تینوں متبادل میں مسلمان مجبوراً کسی ایک کو چنے گا۔ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دے گا۔ اب کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی بچتی ہیں۔ دونوں کے ووٹ بینک ایک جیسے ہی ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی حلقے میں ایسا امیدوار جو دوسروں سے بہتر ہو، اس میں بی جے پی کو ہرانے کی طاقت ہو اور جو مسلمانوں کا خیال رکھ سکے اور سیکولر ذہن بھی رکھتا ہو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس کو متحد ہوکر مسلمانوں کو سپورٹ کرنا چاہیئے، ساتھ ہی الیکشن کے بعد بھی مسلم ایم ایل اے حضرات میں اتحاد ہونا چاہیئے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دہلی کے مسلمانوں عام ا دمی پارٹی اروند کیجریوال بھی مسلمانوں مسلمانوں کے مسلمانوں کی مسلمانوں کا کانگریس اور اب کانگریس علاقے ہیں دہلی میں سکتے ہیں بھی مسلم کلو میٹر بی جے پی نہیں ہے دہلی پر پر بھی رہی ہے اب بھی کے لئے

پڑھیں:

عید بعثت منانے کا مقصد کیا ہے؟

اسلام ٹائمز: رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد معاشرے کی اصلاح پر زور دیا اور ہر انسان کو اسکی ذمہ داریوں کا شعور دیا۔ آج کے مسلمانوں کیلئے عید بعثت کو منانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ وہ اپنے سماجی فرائض کو سمجھیں اور معاشرے کی بہتری کیلئے کام کریں۔ عید بعثت کا دن مسلمانوں کو اللہ کے قریب ہونے اور اپنی معنوی حالت کا جائزہ لینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن عبادت، ذکر اور دعا کے ذریعے مسلمان اپنی معنوی زندگی کو مضبوط کرسکتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرسکتے ہیں۔ عید بعثت کا حقیقی فائدہ تب ہے، جب مسلمان آنحضرت (ص) کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کریں۔ تحریر: محمد حسن جمالی

روز بعثت، رسول اللہ (ص) کی نبوت کے اعلان کا دن ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے، جس میں بشریت کو ہدایت، حکمت اور انسانی اعلیٰ قدروں پر مبنی نظام ملا۔ عید مبعث منانا نہ صرف معنوی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ عید بعثت مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ نبی اکرم کی بعثت کے مقصد کو یاد کریں۔ قرآن میں بعثت کا بنیادی مقصد انسان کا تزکیہ نفس سمیت حکمت اور عدل کی تعلیم دینا قرار دیا گیا ہے۔ اس دن کو منانے سے مسلمان اپنے مقصدِ حیات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔

آج کے مسلمانوں کو دنیاوی مسائل، اخلاقی گراوٹ اور خود غرضی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عید بعثت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا مقصد اخلاقی بلندی کو فروغ دینا اور انسانوں کو معنوی بلندی کی طرف گامزن کرنا تھا۔ اس دن مسلمانوں کو اپنے اخلاق کو نبی اکرم (ص) کے اخلاق کے مطابق ڈھالنے کی تحریک ملتی ہے۔ عید بعثت کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ نبی کی تعلیمات میں امت مسلمہ کے اتحاد کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب امت مسلمہ فرقہ واریت اور تنازعات میں تقسیم ہو رہی ہے، عید بعثت اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔

عید بعثت مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی اہمیت کا درس دیتی ہے۔ قرآن کی پہلی وحی "اقرأ" (پڑھو) کے ذریعے علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے اس دن کو منانا اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ترقی اور کامیابی کے لیے علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی خواب بن کر رہ جائے گی۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا ایک اہم مقصد معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ آپ (ص) نے ظلم کے خاتمے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ آج کے دور میں عید بعثت کو منانے سے مسلمانوں کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

عید بعثت ہمیں دین اسلام کی جامعیت اور اس کی تعلیمات کی آفاقیت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اسلام کی معنوی، معاشرتی اور اقتصادی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت، دعوت و تبلیغ کا پیغام تھی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کا دن اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور لوگوں کو حکمت، دلیل اور محبت کے ساتھ دین کی طرف راغب کریں۔ عید بعثت ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خواہ وہ اخلاقی مسائل ہوں، سماجی ناہمواری، یا سیاسی و اقتصادی چیلنجز، نبی اکرم ﷺ کی سیرت تمام مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد معاشرے کی اصلاح پر زور دیا اور ہر انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کو منانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ وہ اپنے سماجی فرائض کو سمجھیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں۔ عید بعثت کا دن مسلمانوں کو اللہ کے قریب ہونے اور اپنی معنوی حالت کا جائزہ لینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن عبادت، ذکر اور دعا کے ذریعے مسلمان اپنی معنوی زندگی کو مضبوط کرسکتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرسکتے ہیں۔ عید بعثت کا حقیقی فائدہ تب ہے، جب مسلمان آنحضرت (ص) کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کریں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اس دن کو مناتے ہوئے اپنے اندر اخلاقی، روحانی اور سماجی تبدیلی پیدا کریں۔ بعثت کا پیغام صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو قیامت تک انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • انڈیا میں منعقدہ کمبھ میلے میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم 38 افراد ہلاک، مزید اموات کا خدشہ
  • گؤ رکھشا کی آڑ میں مسلمان نوجوانوں پر انتہا پسند ہندوؤں کا تشدد، ایک جاں بحق، دوسرا زخمی
  • ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد دہلی کو بنگالیوں سے پاک کر دیا جائے گا.امیت شاہ
  • دہلی الیکشن سے قبل بی جے پی ووٹوں کی ہیرا پھیری میں مصروف
  • عید بعثت منانے کا مقصد کیا ہے؟
  • ویرات کوہلی کے مداحوں کے لیے بری خبر
  • ’ہمیں اب آپ پر اعتماد نہیں‘، ایئر انڈیا کی فلائٹ 5 گھنٹے تاخیر کا شکار، مسافر مشتعل
  • مودی کس منہ سے بھارت کا یوم جمہوریہ منارہے ہیں‘سردار عتیق احمد خان
  • بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور مسلمان فلمساز انتقال کرگئے