’’یہ فتح نہیں،ہتھیار ڈالنا ہے‘‘اسرائیلی مستعفی وزیر نے نیتن یاہو کو سبق سکھادیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
مقبوضہ بیت المقدس:حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کی غزہ واپسی شروع ہونے پر اسرائیل کے مستعفی وزیر بین گویر نے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے معاہدے کو اسرائیل کی شکست اور ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مزاحمتی تنظیم حماس کے مقابلے میں اسرائیلی ذلت کا اعتراف کیا ہے۔
بین گویر نے غزہ کے شمالی علاقے میں فلسطینیوں کی واپسی کو تنقید کا نشانہ بناتے اور زہر اگلتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اسرائیلی فوجیوں کی قربانیوں کی توہین ہے۔ قابض فوج کی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی اہل کاروں نے میدان جنگ میں کامیابی کے لیے اپنی جانیں دی تھیں نہ کہ فلسطینیوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں واپس جانے کے لیے۔
بین گویر نے ہرزہ گوئی کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ جنگ بندی اسرائیل کی فتح نہیں بلکہ میدان جنگ میں شکست کا اعتراف ہے۔ انہوں نے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے عوام اور فوجیوں کی قربانیوں کی توہین ہے۔
انہوں نے نصیرات کوریڈور کے ذریعے فلسطینیوں کی واپسی کو اسرائیل کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دیا اور کہا کہ یہ قدم مستقبل میں اسرائیلی عوام کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
بین گویر کے ان بیانات سے اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں جب کہ اندرونی طور پر جنگ بندی کو حماس کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ یہ بین گویر انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
قاہرہ: غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تھا، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق، حماس نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی انخلا ہونا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دی جائے، فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
مصری حکومت نے نئی جنگ بندی تجویز پیش کی جس میں حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ایک حماس رہنما کے مطابق، "ہم صرف اس صورت میں جنگ بندی پر تیار ہیں جب اسرائیل مکمل طور پر جنگ بند کرے اور فوجی انخلا کرے۔ ہتھیار ڈالنے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔"
ذرائع نے مزید بتایا کہ مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کے بدلے غزہ میں خوراک اور پناہ گاہوں کا سامان پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔
حماس کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو۔