UrduPoint:
2025-01-29@03:05:19 GMT

آؤشوٹس کی موت کی چمنی، سفید دھواں اور سرخ آسمان

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

آؤشوٹس کی موت کی چمنی، سفید دھواں اور سرخ آسمان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جنوری 2025ء) آپ پولستانی شہر کراکاؤ سے کوئی پچاس کلومیٹر دور آؤشوٹس پہنچے ہیں تو ایک لمحے کو ایک سیاح یا وزٹر کی بجائے اس یہودی قیدی کا کردار اوڑھ کر دیکھیے، جسے نازی دستے یورپ کے کسی دور افتادہ علاقے سے اس مقام پر ایک طویل مسافت میں ریل گاڑی کی ایک بوگی میں درجنوں افراد کے ہم راہ دبوچے ہوئے لے آئے ہیں۔

بہ ظاہر یہ بتا کر کہ اس سے جبری مشقت لی جائے گی۔

کہتے ہیں کہ آخری امید بھی ختم ہو جائے، تو موت آسان ہو جاتی ہے، اس لیے گو کہ نسل پرستی کے جنون میں مبتلا نازی یہ طے کر چکے ہیں کہ آپ اور دیگر قیدیوں کو بھوک، اذیت، عقوبت، تشدد اور سانسیں نوچ کر ہلاک کیا جائے گا، مگر بتایا یہی گیا ہے کہ اپنا قیمتی سامان اور برتن ساتھ لے لیں کہ آپ کو کہیں اور بسایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

یعنی آپ اور دیگر یرغمالیوں کو خبر بھی نہیں کہ جو قیمتی سامان آپ خود اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں، وہ ان نازیوں نے لوٹنے کی مشقت سے بچنے کے لیے آپ سے اٹھوایا ہے اور یہ برتن اور لباس کے بستے اس موہوم امید کے لیے، جو کسی انسان میں ''مزاحمت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘‘ کا خیال ادھیڑ دیتی ہے۔

آؤشوٹس کے اس حراستی مرکز اور ہمارے آج کے درمیان اسی برس کی گرد موجود ہے، مگر یہ گرد ہٹائیں تو اس کیمپ کی چمنیوں سے اچانک سفید دھواں برآمد ہونے لگے گا، جس میں انسانی جسموں کے جھلس کر راکھ ہو جانے کی بو ہو گی۔

یہاں لکیروں میں کھچی ہوئی عمارتوں کی سلاخوں میں دھنسی کھڑکیوں سے بے جہت چیخیں سنائی دینے لگیں گی، جو اپنے راستے میں کھڑی بندوقوں کی بند گلی اور غیر انسانی حد تک نفرت میں دھنسے سپاہیوں کی گالیاں دیتی آنکھوں سے ٹکرا کر خود میں گھٹ کر مرنے لگیں گی، بے بسی کے ہاتھوں سے اپنے آس پاس کا تمام یقین نوچتے ہوئے۔

مرکزی دروازے پر ''آربائٹ ماخت فرائے‘‘ یعنی ''کام آزادی دیتا ہے‘‘ کا جملہ، دنوں کی تھکن، بھوک اور موت کے خوف پر کسی بے یقین سے سکون کے فریب کا باعث بنے گا۔

جہاں آپ کو لگے گا کہ جبری مشقت تو ہو گی، اذیت بھی ہو گی، تضحیک بھی ہو گی، بے بسی بھی ہو گی، تشدد بھی ہو گا، مگر شاید آپ کو یا آپ کے ہم راہ نڈھال قدم اٹھاتے بچے کی جان بخش دی جائے۔

لیکن پہلی بیرک سے کچھ قدم پہلے ہی، بدن کی ناتوانی اور چستی کا دوراہا نکلتا ہے۔ یہاں آپ کے تھکن سے نڈھال بچے کا ہاتھ ایک گندی گالی اور تحقیر کے تھپڑ کے ساتھ آپ کے ہاتھ سے چھڑایا جا چکا ہے۔

یہاں بزرگ، معذور اور ناتواں خواتین کسی اور جانب دھکیلے جا رہے ہیں۔

کچھ دیر تک ان کی زندگی کی بھیک مانگتی چیخیں سنائی دیں، اب وہ بھی دم توڑ گئی ہیں۔ چمنی سے کچھ اور سفید دھواں اٹھنے لگا ہے، فضا میں کچھ اور سڑاند پھیل گئی ہے۔ آسمان کچھ اور سرخ ہو گیا ہے۔

یہاں چستی کا راستہ بھی آسان نہیں۔ سامنے قطار در قطار عمارتیں ہیں، جہاں آپ ہی کی طرح کے یقین و گمان میں دھنسے قیدی نئی عمارتوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

کانوں میں قتل ہو جانے کی سرگوشیاں کچھ اور دھیمی ہو جائیں گی۔''آربائٹ ماخت فرائے‘‘ کا جملہ نگاہوں میں کچھ اور گھومتا محسوس ہو گا۔ آپ بندوقوں کی پشتوں سے دھکیلے جاتے ہوئے اس نیم تاریک بیرک کے کمرے میں دھکیل دیے گئے ہیں، جہاں چند گز کے خطے پر درجنوں انسان لکیروں میں پڑے ہیں۔ وہ جگہ جہاں دو چار افراد بہ مشکل گزارا کر سکتے ہیں، اسے سینکڑوں سے بھر دیا گیا ہے، جہاں بو، سڑاند اور بے بسی جیسے ہوا کا مسلسل ذائقہ بن چکے ہیں۔

اڈولف ہٹلر کے نسل پرستانہ اور جنونیت پر مبنی نظریے کو دل سے قبول کرنے والے 'شٹس شٹافل‘ یا ایس ایس کے دستے باہر سینہ پھلائے کھڑے ہیں۔ آنکھوں کی پٹی نفرت کی گرہ سے باندھی جائے تو تعلیم اور شعور کی انگلیاں اسے باآسانی کھول نہیں سکتیں۔ ان قاتلوں میں ڈاکٹر ہیں، انجینیئر ہیں، فلسفی ہیں، ماہرین بشریات ہیں، مگر ان سب کو مکمل یقین ہے کہ آپ ان کی طرح دکھنے والے ضرور ہیں، مگر انسان نہیں ہیں۔

ان کا علم و شعور انہیں آپ کی بے بسی کو شدتِ رنج سے گزارنے کی تراکیب سکھا رہا ہے، تھکن، بھوک اور چوٹ پر مرہم پٹی کا کوئی راستہ نہیں۔ یہاں کچھ لوگ جو چند روز قبل چست قرار دے کر لائے گئے تھے، مسلسل بھوک اور مشقت کے ہاتھوں اسی دوراہے پر واپس کھینچے جا رہے ہیں، جہاں ناتواں لوگ چمنی کے دھوئیں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بس کچھ ہی دیر میں چمنی سے کچھ اور سفید دھواں اٹھے گا، فضا میں کچھ اور سڑاند پھیلے گی اور آسمان کچھ اور سرخ ہو جائے گا۔

چستی نے آواز اٹھائی، بے بسی نے کسی بغاوت پر آمادہ کیا یا دکھ نے الجھن پر اکسایا تو آپ کو انچوں میں کھچی ایک عمودی قبر نما کوٹھری میں ٹھونس دیا جائے گا، جہاں پہلے سے تین 'باغی‘ موجود ہیں اور جگہ بس اتنی ہے کہ چاروں بہ مشکل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور یہاں کئی روز یوں ہی کھڑے کھڑے سونا بھی ہے، جاگنا بھی ہے اور جینا بھی۔

آج ستائیس جنوری انیس سو پینتالیس ہے۔

بوٹوں کا شور سنیے۔ نازیوں میں بھگدڑ مچنے کی آوازیں محسوس کیجیے۔ سوویت یونین کے فوجی دستے آ چکے ہیں اور انسانیت کے ضمیر پر یہ بدنما دھبا تاریخ کا بدترین سبق سنانے کے لیے دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔

یہ آواز ایسی شدید ہے کہ انسان اقوام متحدہ، جنیوا کنوینشن، ویانا کنوینشن، انسانی حقوق، معذوروں کے حقوق، خواتین کے حقوق، رومن اسٹیچوٹ اور درجنوں دیگر معاہدوں اور کنویشینوں کی صورت میں اس دکھ کے مداوے پر مجبور ہو گیا ہے۔

آؤشوٹس کی آزادی کو اسی برس گزر گئے ہیں۔ دھند، مٹی اور گرد جیسے پھر سے آؤشوٹس جیسی انسانیت سوزی کا سبق بھلا رہی ہیں۔ جیسے پھر سے دنیا نسل پرستی، قوم پرستی اور انسانیت دشمنی کے راستے پر نکل رہی ہے۔ جیسے پھر سے عوامیت پسندی کا عفریت سر اٹھا رہا ہے۔ جیسے پھر سے آؤشوٹس سے سیکھا گیا سبق دھندلا رہا ہے اور جیسے پھر سے چستی اور ناتوانی کا دوراہا کھل رہا ہے۔

مکالمے، اختلاف رائے پر گفتگو اور انسانیت کی سربلندی کے بجائے اب پھر اگر کوئی دوسرا راستہ چنا جاتا ہے، تو خوف یہ ہے کہ پھر سے چمنی سفید دھواں نہ اگلنے لگے، کہیں پھر سے فضا میں انسانی جسموں کی سڑاند نہ پھیل جائے اور کہیں پھر سے آسمان سرخ نہ ہونے لگے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جیسے پھر سے کچھ اور رہا ہے کے لیے گیا ہے بھی ہو

پڑھیں:

صحافی برادری کی رائے لے کر بل لایا جانا چاہئے تھا، عرفان صدیقی

ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ میڈیا کا حق ہے رائے لینی چاہئے تھی، یہ نہیں ہوسکتا کہ اس قانون کو مس یوز کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم لیگ نون کے راہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں صحافی برادری کی رائے لے کر بل لایا جانا چاہئے تھا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ میڈیا کا حق ہے رائے لینی چاہئے تھی، یہ نہیں ہوسکتا کہ اس قانون کو مس یوز کیا جائے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نےکہا کہ صحافی تنظیموں کی طرف سے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں دی گئیں، صحافی ہمیں قانون کے سقم بارے لکھ کر بتائیں، صحافیوں کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ راہنما نون لیگ نے کہا کہ پی ٹی آئی کسی اور دروازے پر نہ جائے، ہمارا دروازہ کھلا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صحافی برادری کی رائے لے کر بل لایا جانا چاہئے تھا، عرفان صدیقی
  • اعلان برائے تبدیلی نام
  • مذاکرات کے بعد پی ٹی آئی کی ہر حرکت  پر خبر لی جائے گی،  رہنما ن لیگ
  • مصنوعی ذہانت نے سرخ لکیر عبور کر لی ، اپنے جیسے دوسرے بنانے شروع کردئے
  • شبِ معراج آج عقیدت کے ساتھ منائی جائے گی
  • بھارتی قومی ترانے سے سندھ کا نام نکالا جائے
  • صائم ایوب کا پلاسٹر ایک، دو روز میں اتر جائے گا، محسن نقوی
  • خود غرضی اور ابن آدم
  • مجھے تو اب معلوم ہوا