یقین ہے کہ دنیا بھر سے مزید کاروباری ادارے ہانگ کانگ میں سرمایہ کاری کریں گے، چین کی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ہانگ کانگ میں امریکن چیمبر آف کامرس نے حال ہی میں ” ہانگ کانگ بزنس کنفیڈنس سروے” 2025 جاری کیا ہے ، جس کے مطابق ہانگ کانگ میں امریکی کمپنیوں کو ہانگ کانگ کے کاروباری ماحول پر زیادہ اعتماد ہے اور وہ ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قوانین کے بارے میں زیادہ معروضی نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے پیر کے روز چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے یومیہ پریس کانفرنس میں کہا کہ رپورٹ کے مطابق 75 فیصد کاروباری اداروں کا ماننا ہے کہ ہانگ کانگ ایشیا کا بین الاقوامی کاروباری مرکز ہے اور نوے فیصد کمپنیوں کا ماننا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہنے کے حوالے سے ہانگ کانگ کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ 83 فیصد جواب دہندگان کو ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی پر اعتماد ہے۔یہ اعداد و شمار ہانگ کانگ میں امریکی کمپنیوں کے ہانگ کانگ کی ترقی کے امکانات اور کاروباری ماحول پر اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔
چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون اور قومی سلامتی آرڈیننس نے ہانگ کانگ کو مزید مستحکم اور وہاں سرمایہ کاری کے ماحول کو زیادہ سازگار بنا دیا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ دنیا بھر سے مزید کاروباری ادارے ہانگ کانگ میں سرمایہ کاری کرنے آئیں گے اور چینی طرز کی جدیدکاری اور “ایک ملک، دو نظام” کی پالیسی سے حاصل ہونے والے منافع کا اشتراک کریں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
نجکاری کے عمل کے لیے جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت
اسلام آباد:وزیر اعظم کی جانب سے معاشی تبدیلی کے ایجنڈے کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے حکومتی ادارے جن میں کچھ انتہائی نقصان میں چل رہے ہیں وہ آج بھی سرکاری سرپرستی میں ہیں اور ان اداروں نے مالی سال 2021 میں سالانہ مجموعی طور پر 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کے مساوی نقصان اٹھایا جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد بنتا ہے۔
جبکہ مالی سال 2022 میں ان کا خسارہ 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تھا جو مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ 9 فیصد تھا۔
یہ ادارے نہ صرف مالی بوجھ بنے ہوئے ہیں بلکہ معیشت کی مجموعی کارکردگی کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں، کہتے ہیں کہ مسئلے کی درست نشاندہی سے نصف مسئلہ حل ہوجاتا ہے لہذا وزیر اعظم کے معاشی ایجنڈے کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے تاہم دیگر نصف مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔
وزیر اعظم کے معاشی ایجنڈے میں وہی پرانی بات دہرائی گئی ہے کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو پہلی ترجیح میں نجکاری کردی جائے تاہم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نج کاری میں تاحال ناکامی سے اس پورے عمل کو دھچکا لگا ہے۔
نج کاری ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس بات کو سراہا جانا چاہیے کہ حکومت نے تمام مسائل کے باوجود نجکاری کا عمل جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے تاہم اس کے لیے ایک جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔
ایک تجویز یہ ہے کہ نج کاری کے عمل کا آغاز ایسے اداروں کی فروخت سے کیا جائے جو منافع بخش ہیں اور اس سلسلے میں جار مختلف کیٹیگریز ہیں جن کی کمپنیوں کی نج کاری کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کی نج کاری کے نتیجے دیگر مختلف کمپنیاں اور ادارے نج کاری کے عمل میں دلچسپی دکھائیں گے اور مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور یہ عمل تیز تر ہوگا۔
کچھ سرکاری ادارے ایسے ہیں جو اپنی عملی افادیت کھوچکے ہیں کاروباری لحاظ سے تاہم ان کی اہمیت ان کے اثاثہ جات کی وجہ سے ہے ایسے اداروں کی نج کاری کے وقت اس بات کو اجاگر کیا جانا چاہے کہ ان کے اثاثوں کو دیگر تجارتی مقاصد کے لیے بھی فروخت کیا جائے تاکہ حاصل ہونے والی رقم سے حکومت اپنے قرضہ جات کی ادائیگی میں صرف کرسکے۔
ایسے ادارے جو مکمل طور پر خسارے میں چل رہے ہوں انھیں آکشن کے ذریعے یا پھر بات چیت کے عمل کے ذریعے فوری فروخت کیا جانا چاہیے۔