ٹرمپ کی نئی پالیسی، امریکہ جانے والے افغان شہری پاکستان میں پھنس گئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
پاکستان سمیت مختلف ممالک میں موجود خصوصی ویزے پر امریکہ جانے والے 40 ہزار سے زائد افغان شہریوں کی پروازیں روک دی گئیں۔
یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس ایگزیکٹیو آرڈر کے بعد سامنے آیا جس میں غیرممالک کی امداد روکنے کا کہا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانوں کی دوبارہ آبادکاری میں مدد کرنے والے امریکی رضاکار گروپوں کے اتحاد ’افغان اویک‘ کے سربراہ شان وان ڈیور نے کہا ہے کہ 40 ہزار سے زائد افغان باشندے جن کے لیے خصوصی امریکی ویزوں کی منظوری دی گئی تھی، کی امریکہ کے لیے پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پھنسے ہوئے افراد میں سے زیادہ تر شہری افغانستان میں جبکہ دیگر پاکستان، قطر اور البانیہ میں موجود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غیرملکی امداد روکنے کے فیصلے نے امریکی اور بین الاقوامی امدادی کارروائیوں کو بدنظمی کا شکار کر دیا ہے جبکہ غذائیت، صحت، ویکسینیشن اور دیگر پروگراموں کو روک دیا ہے۔
محکمہ خارجہ کی جانب سے اُن گروپوں کے لیے فنڈز بھی معطل ہو گئے ہیں جو امیگریشن کے خصوصی ویزے (ایس آئی وی) رکھنے والے افغان باشندوں کو امریکہ میں رہائش، سکول اور ملازمتوں کے حصول میں معاونت ملتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو حلف اُٹھانے کے چند گھنٹوں بعد امریکہ میں تارکین کے دوبارہ آبادکاری کے پروگرام کو معطل کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔
انہوں نے 2024 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ’امیگریشن کریک ڈاؤن‘ کا وعدہ کیا تھا۔
شان وان ڈیور نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ انتظامیہ سپیشل امیگریشن ویزے کے لیے منظور شدہ افغان شہریوں کو اس حکم سے چھُوٹ دے گی کیونکہ انہوں نے جنگ کے دوران امریکی حکومت کے لیے کام کیا تھا۔
شان وان ڈیور نے کہا کہ ’وہ ہمارے شانہ بشانہ لڑے، ان بھی ہمارے ساتھ خون بہا۔‘
وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ نے فوری طور پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
امریکہ نے 2021 میں امریکی افواج اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ منسلک افغان شہریوں کو خصوصی امیگریشن ویزے جاری کرنے کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔
یہ سہولت صرف ان افغان شہریوں کو حاصل ہے جو افغانستان میں تعینات امریکی فوج یا پھر وہاں پر قائم امریکی سرکاری اداروں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
امریکی حکومت یا فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو اکثر طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔
افغانوں کے لیے خصوصی ویزہ کی سہولت عالمی وبا کے بعد معطل کر دی گئی تھی۔
افغانستان میں 2021 کے امریکی انخلاء کے بعد سے تقریباً دو لاکھ افغان شہریوں کو امریکہ میں سپیشل امیگریشن ویزوں پر یا پناہ گزینوں کے طور پر دوبارہ آباد کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکی نو سامراجیت
اسلام ٹائمز: 1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی الیکشن میں فتح حاصل کر کے ایک بار پھر امریکہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جبکہ اس بار اس نے 2016ء میں گذشتہ مدت صدارت کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مدنظر امریکہ، ایسا ملک ہے جو دوسری عالمی جنگ (1939ء تا 1945ء) کے اختتام کے بعد برسراقتدار آنے والے امریکی صدور مملکت کے برعکس، جو عالمی نظام میں لبرل طرز فکر کی ترویج کے لیے ایک طرح کی بین الاقومی پولیس کا کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، سازباز کرنے والی سپر پاور (مرچنٹلسٹ) کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی قسم کے آئیڈیلز اور اعلی اہداف سے عاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نیا امریکی صدر، امریکی معاشرے کے ایک ایسے حصے کا نمائندہ ہے جو خارجہ امور میں توسیع پسندی کے خواہاں ہیں۔
گذشتہ اوہام کی قید میں
ٹرمپ کی سربراہی میں وائٹ ہاوس کی نئی ڈاکٹرائن درحقیقت شان و شوکت کے افسانوں اور جدید ناراضگیوں کی ملی جلی حالت ہے۔ 1945ء کے بعد بائی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہونے کے بعد کسی بھی امریکی صدر نے دیگر سرزمینوں کا امریکہ سے الحاق کی بات نہیں کی۔ آخری امریکی صدر جس نے واضح طور پر امریکی سرزمین میں توسیع کی بات کی تھی ریپبلکن پارٹی کا صدر ویلیم میک کیلنی (1897ء تا 1901ء) تھا۔ میک کیلنی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عالمی نظام میں امریکی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کا خواہاں تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے ہوائی جزیروں، گوام اور فلپائن کو امریکہ سے ملحق کرنے کے مقدمات بھی فراہم کیے تھے۔ اس نے کیریبین خطے میں واشنگٹن کا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسپین سے جنگ بھی کی اور آخرکار خلیج میکسیکو کو امریکی اثرورسوخ والے علاقے میں تبدیل کر دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کا 25 واں صدر، درآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا زبردست حامی تھا اور اس نے اندرونی صنعت کی حمایت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ 1896ء میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے امریکہ کا صدارتی امیدوار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنے زمانے کے امریکی ارب پتیوں (مورگن اور راک فیلر) کی حمایت سے برخوردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں بھی سیلیکان ویلی کے ارب پتی موجود تھے۔ امریکہ کا 47 واں صدر، اپنے اسلاف کی مانند لاطینی خطے میں واشنگٹن کے اثرورسوخ کے احیاء کا خواہاں ہے۔ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھنا چاہتا ہے اور پاناما کینال (جو میک کیلنی کے جانشینوں نے تعمیر کی تھی) بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا شکار ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ 19 ویں صدی کے سامراجی ہتھکنڈوں کو دوبارہ بروئے کار لانا چاہتا ہے۔
ٹرمپ کا وحشی امریکہ
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے ویران کھنڈروں میں عالمی ڈھانچے کی تنظیم نو کا نعرہ لگا کر بین الاقوامی سیاسی، فوجی اور اقتصادی نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا کر اقتصاد میں اداروں کی اجارہ داری کی حکمت عملی اختیار کی۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ جیسے سیاسی ادارے تشکیل دے کر دنیا بھر میں اپنا من مانا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کا زمینہ فراہم کیا۔ وہ ٹیم جس کی نمائندگی آج ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے، 1990ء کے عشرے میں ان بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی سے سخت ناراض تھی۔ اس ٹیم نے امریکی کمپنیوں کو جنوب مشرقی ایشیا منتقل کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے حریف ممالک کی اقتصادی ترقی کے پیش نظر لبرل طرز فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کو سامنے لانے کے مقدمات فراہم کیے۔ ٹرمپ کا امریکہ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے روایتی ہتھکنڈوں (19 ویں صدی میں میک کیلنی جیسے ہتھکنڈوں) کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔
نو لبرل ازم کو درپیش مسائل
21 ویں صدی کے آغاز میں جیوپولیٹیکل شعبے کے ماہر رابرٹ کپلان نے اپنے کتاب "انارکی" میں اپنے ہم عصر بعض مغربی تجزیہ کاروں کی خوش بینانہ نگاہ کے برعکس اس بات کا اظہار کیا کہ اقتصادی ناانصافیاں، موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتوں کی کمزوری کا نتیجہ علاقائی سطح پر جنگوں اور سماجی انتشار کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ساحلی اور مرکزی شہروں پر مبنی تقسیم (ساحلی شہروں میں دولت کی فراوانی اور مرکزی شہروں میں غربت)، 90 کے عشرے سے مزدور طبقے کا بے روزگار ہونا (امریکی کارخانے چین منتقل ہو جانے کے باعث) اور ایسی عالمی لبرل ثقافت تشکیل پا جانا جس کے بارے میں امریکہ کا نچلا طبقہ زیادہ آگاہی نہیں رکھتا، نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجود ورلڈ آرڈر کے خلاف بغاوت کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران گلوبلائزیشن کے مخالفین کی جانب سے تشکیل پانے والے ہتھکنڈوں کی مدد سے امریکی معاشرے کے ایک حصے کو منظم کر لیا ہے۔
امریکی خارجہ سیاست کی انیسویں صدی کی جانب واپسی
1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔