مشرقی سماج اور مملکت خداداد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
مشرقی سماج اور مملکت خداداد WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز
( تحریر:ظفر عالم چیمہ
ابتدائے آفرینش سے ہی جب سے اللہ سبحان و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا، اللہ تعالیسے فرشتوں کا مکالمہ ہوا ، اے اللہ تو اس انسان کو پیدا کرنے والا ہے جو دنیا میں زمین پر خون اور فساد پھیلائے گا، بہرحال اس کی حکمتیں وہی جانے ،لیکن ہابیل اور قابیل کے جھگڑے سے سلسلہ حسد وحوس سے شروع ہوا تھا آج تک جاری و ساری ہے اس حسد کی وسعت کے اندر نسل پرستی زر پرستی اور خود پرستی بھی شامل ہو گئی کہ میں حسب و نسب میں اعلی ہوں اور میرا خاندان بھی ، ساری دنیا کی آسائشیں میرے اور میرے خاندان کے لیے ہونی چاہیے اور دوسرے کمتر بھی ہیں ، ان کے وسائل پر قبضہ کرنا اور ہتھیانا بھی جائز ہے۔ ابتدا ہی سے انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں کے اندر اپنی ضروریات زندگی تلاش کرتا رہا کبھی اس جگہ شکار تو کبھی دوسری، پھر یہ خاندان جلدی ہی قبیلوں کی شکل اختیار کر گئے ضروریات بڑھیں تو ذراعت کی طرف توجہ ہوئی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالے گئے
، اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے نئی نئی زمینوں کو تلاش کیا گیا پھر دریاوں کے کناروں پہ آبادیاں بنی ان آبادیوں نے بڑی بڑی تہذیبوں کو جنم دیا کیونکہ انسان کے اندر جمالیاتی شعور ودیعت کیا گیا جس کی بنیاد پر بڑے بڑے شہر اور ملک وجود میں آنے لگے لیکن پھر وہی انسان کی حرص و ہوس اور غلبے کی جبلت نے اپنے آپ کو سپیریئر اور دوسرے کو کمتر دکھانے کے لیے جنگوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جس میں مرد یا تو کام آگئے یا ان کو غلام بنا لیا گیا اسی طرح ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی غلام بنا لیا گیا تہذیب کا ارتقا بھی جاری رہا اور ساتھ ساتھ ظلم و جور بھی،جب دریا کے کناروں پہ بڑی بڑی تہذیبوں نے جنم لیا انسان اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے تھوڑا سا فارغ ہوا تو پھر اس نے اپنے اور کائنات کے درمیان ربط تلاش کرنے کی کوشش کی کہ میں کیا ہوں کہاں سے آیا ہوں مر کر کہاں جانا ہے مقصد زندگی کیا ہے دنیا سے ظلم و جبر کیسے ختم ہو سکتا ہے
،عدل کیسے کیا جا سکتا ہے انہیں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک طرف تو مشرق میں انبیا کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف مغرب روم اور یونان میں فلاسفہ کے قابل ذکر تعداد ہے جو کہ ایک آئیڈیل ریاست کی تلاش میں ہیں، کہ ایسی ریاست جس کے اندر انسان امن و سکون اور عدل و انصاف کے ساتھ رہ سکے، مشرق کا الہیات اور انبیا کا سلسلہ، کہ انسان کو کیسے ٹھیک کیا جائے تاکہ معاشرہ اور ریاست ٹھیک ہو سکے۔مغرب کی تمام تر توجہ” اجتماعی” اور مشرق کی “انفرادی”، مشرق اور مغرب کا یہ فرق آج بھی ہمیں نظر اتا ہے کہ مغرب میں سارا فوکس معاشرے ،ریاست ،ریاستی انفراسٹرکچر عدل و انصاف انسانی حقوق اور سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کو اوپر اٹھانے ، ان کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر ہے جبکہ مشرق میں ما قبل تاریخ کے دور سے بادشاہ اپنے لیے محلات اور باغات بنا کر،ٹاٹھ باٹھ سے رہنا ،عام لوگوں کو زیر دست کمتر ، نوکر ،غلام اور مزارع بنا کے رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔
بادشاہت کے بعد ایک طبقہ اشرافیہ نے اس کی جگہ لے لی ۔اب وہی سارے وسائل اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے کہ تمام خاندان اور افراد اپنے اپ کو سنوارتے ہیں، وسائل کے لئے مار دھاڑ کرتے ہیں اپنے آپ کو اوپر لے آتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کو اجتماعی طور پر اوپر اٹھانے ان کو برابری کی سطح پر لانے ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بجائے ایک ظلم و استحصال کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، ہزاروں انبیا اور مصلحین کے باوجود بھی آج تک مشرقی فطرت یہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا ، آج بھی انفرادی سطح پر ہی چیزیں چل رہیں ہیں دنیاوی معاملات اور دین میں بھی۔ اگرچہ دین اسلام اجتماعیت پر بہت توجہ دیتا ہے تمام عبادات نماز، روزہ اور حج اجتماعی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں بھی، لیکن افسوس اجتماعی نماز اجتماعی ڈسپلن اجتماعی مسائل اور وسائل کے حوالہ سے کچھ اثر انداز ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں اسی طرح زکو کی وجہ سے اجتماعی طور پر غربت اور محرومی میں کمی نظر نہیں اتی اور حج کا عظیم الشان اجتماع عالمی سطح پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا اس سب کے پیچھے مشرق کی وہی انفرادی سطحی اور خود غرضانہ، خود ستائشی اور خود نمائی کی سوچ ہے کہ بس میں متقی ہوں میں ہی ٹھیک ہوں مجھے ہی امیر ہونا چاہیے اور تمام وسائل دنیا میرے پاس ہی ہوں دوسروں سے مجھے کیا لینا دینا کھی صدقہ اور خیرات کر دیا وہ بھی صرف دکھاوا اور خود ستائسی ، یہی مشرقی شعور ہے انفرادی سطح کا جس کی وجہ سے آج تک مسائل حل نہیں ہو پا رہے بس زندگی سسک سسک کر چل رہی ہے جب تک مشرق کے معاشرے انفرادی سطح سے اٹھ کر اجتماعی طور پر تمام لوگوں کو ساتھ لے کے ان کی بہتری اور ان کی خیر خواہی کے لیے نہیں اٹھیں گے مشرق کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا
ابھی مشرق میں جو ایک دو استثنی ہوئے ہیں جس میں انڈیا چائنہ اور جاپان ہے ان ممالک نے بھی مغرب سے سیکھا ہے ، انہوں نے اپنے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو خط قربت سے نکالا ہے اور جب تک بقیہ ممالک اس طرز کو نہیں اپنائیں گے اسی طرح ہی محرومیوں کا شکار رہیں گے ہمارے ہاں مملکت خداداد میں جو لوگ بھی حلال حرام چوری چالاکی دھوکہ فراڈ اور خوشامد سے دولت مند ہو جاتے ہیں پھر وہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب کاروبار زندگی اور کاروبار حکومت بھی ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے گو اس کی کوئی اہلیت اور مہارت ہو نہ ہو(کوی عقل شکل ہو نہ ہو )بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی بھی انفرادیت خود پسندی خود نمائی خود پرستی کا دور دورہ ہے کہ جو طبقہ باوسائل ہے وہ عجیب طرح کے نفسیاتی خلجان میں مبتلا ہیہر وقت اپنی ذات لباس گاڑی گھر اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی نمائش کرتے رہنا اور داد طلب نظروں سے دوسروں کو دیکھنا اور بیچارے جو بے وسائل ہیں وہ انہیں کی خوشامد اور واہ واہ پہ لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی تمام تر ضروریات زندگی کا انحصار انہیں باوسائل طبقات پر ہے جو اپنی خود پسندی اور خود پرستی سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ان تمام چیزوں کو میڈیا اور سوشل میڈیا نے کمال عروج تک پہنچایا ہے۔
بقول جون ایلیااے رونق بزم زندگی طرفہ ہیں تیرے لوگ بھی ایک تو آئے نہ تھے کبھی گئے تو روٹھ کر گئے۔کبھی کسی کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کر بھی دیں گے تو ایسے جیسے اس کی سات نسلوں پر احسان کر دیا ،تمام سرکاری ملازم صرف دفتر آئے جانے کی تنخواہ لیتے ہیں کام کرنے کے پیسے بھی لے لیتے ہیں اور کام کرنے کے بعد احسان بھی جتاتے رہتے ہیں جس کی تنخواہ ریاست سے اور رشوت بندہ سے وصول کی ہوتی ہے۔جہاں پر لوگ علم اور مذہب دوستی کے لیے (مساجد اور یونیورسٹیاں )ملک ریاض اور( دین اور روحانیت) کے لیے طاہر اشرفی اور “مرشد”کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اس معاشرے کا کیا عالم ہوگا۔ اس انتہائی درجے کی پست ذہنیت کے ساتھ یہ ملک اور معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا یہ نقطہ ہے نقطہ وروں کے لیے۔ اور رہ گئے کاروباری اور تاجر حضرات اگر یہ کمزور سی لولی لنگڑی ریاست اور اس کا آئین اور نظام نہ ہو تو یہ تاجر عام آدمی کی کھال اتار کے اس کے جوتے پہننے فخر محسوس کرتے ہیں اس قدر انتہائی سفاک اور ظالم سماج کے اندر رہنا بذات خود ایک بہت بڑا امتحان اور آزمائش ہے د یکھیںکبتک؟
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
غور کیا ہے ؟
تعمیری تنقید سے غلطیوں پر قابو پانے میں مددملتی ہے مگر بے جاتنقید کومعمول بنانے سے مایوسی جنم لیتی ہے ہر وقت کی دشنام طرازی کارکردگی پر اثراندازہوسکتی ہے اسی لیے ایسے طرزِ عمل کی ہر گز ستائش نہیں کی جا سکتی کچھ عناصر اِس وقت عسکری اِدارے کے خلاف فضا بنانے میں سرگرم ہیں طرفہ تماشا یہ کہ اپنے مذموم طرزِ عمل کے باوجود خودکو محب الوطن بھی ظاہرکرتے ہیں خیر یہ جس حد تک بھی چلے جائیں ملک کی اکثریت قومی سلامتی کے ضامن عسکری اِدارے سے محبت کرتی ہے کیونکہ پوراملک جانتاہے کہ دشمن ممالک کی مذموم سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پاک فوج کی قیادت سے لیکر اہلکار تک شب وروز فرائض کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں اِس کے باوجود اُنھیں نہ کسی ستائش کی تمنا ہے اور نہ ہی صلے کی خواہش، وطن کے دفاع کی خاطر جان جیسی قیمتی نعمت بھی بخوشی قربان کرنے کا عزم کوئی معمولی بات نہیں ۔
پاکستان ایسا ملک ہے جو چارجوہری طاقتوں بھارت،چین ،روس اور ایران میں گھراہے دنیا کا اور کوئی ایسا ملک نہیں جو چارجوہری طاقتوں کے درمیان ہو یہ صورتحال ملک کے ہر شہری سے ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی متقاضی ہے جب ملک کے دفاع کی بات ہو تولازم ہے کہ ملک کا ہر شہری مقامی ،علاقائی اور سیاسی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر پاک فوج کی اخلاقی حمایت کرے پاکستان ہماری شناخت ہے یہ معاشی اوردفاعی حوالے سے مضبوط و مستحکم ہو گاتوہی ہم بھی ایک آزاد وخود مختار قوم کی حیثیت سے عالمی سطح پر باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں خدانخواستہ اگر ہماراملک معاشی اور دفاعی میدان میں کمزورہوتا ہے تو چارجوہری طاقتوں میں گھرے ملک کے شہریوں کا وقار تو ایک طرف زندگی کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی دنیا میں باوقار زندگی گزارنے کے لیے اپنی دفاعی قوت میں اضافہ ترجیح رکھناہوگا یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر جارحانہ عزائم رکھنے والی قوتوں کوناکام بنانے کے ساتھ دندان شکن جواب دیا جا سکتاہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ملک معاشی استحکام کی طرف بڑھنے لگا ہے کسی حدتک معاشی سرگرمیوں میں بہتری نظر آنے لگی ہے اِس خیال کی وجہ یہ ہے کہ وہی ممالک یا اِدارے جو پاکستان کو قرض تک دینے سے انکاری تھے اب نہ صرف تعاون پر آمادہ ہیں بلکہ معاشی بہتری کااعتراف کرتے ہوئے بخوشی قرض دینے پر بھی تیار ہیں چاربرس کے وقفے کے بعد پی آئی اے کی پروازوں میں وسعت آرہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو عسکری قیادت کابھی تعاون حاصل ہے اور دونوں ملکر ملک کو معاشی طورپر خوشحال بنانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ایسے حالات میں جب معاشی استحکام کی طرف چاہے سُست ہی سہی ملک سفر شروع کر چکا ہے سیاسی عدمِ استحکام کا ملک متحمل نہیں ہو سکتالیکن حیران کُن طورپر کچھ عناصر نے اِداروںکے خلاف بے جا تنقیداور دشنام طرازی شروع کر رکھی ہے جوقابلِ مذمت ہے ارے بھئی اگر ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتے توجو کررہے ہیں انُ کی توحوصلہ شکنی نہ کریں معاشی اور دفاعی مضبوطی سے کوئی ایک اِدارہ نہیں ہر پاکستانی خوشحال اور مضبوط ہو گا۔
اِس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ اب کسی ہمسایہ ملک میں اِتنی ہمت نہیں کہ وہ براہ راست پاکستان پر حملے کی جرا¿ت کر سکے ماضی میں کچھ طاقتوں نے عالمی پابندیوں کی آڑمیں دباﺅ ڈال کرشکست وریخت سے دوچار کرنے کی کوشش کی مگر دفاع وطن کے ذمہ داران نے ایسی سازشوں کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ملک کو دفاعی حوالے سے خود کفیل بنانے پر کام شروع کردیا کم وسائل کے باوجود آج اللہ کے فضل سے عالم اِسلام میں پاکستان واحدایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف جوہری طاقت ہے بلکہ اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ لڑاکا طیاروں سے لیکر، میزائل، ٹینک، توپیںاور دیگر گولہ بارودفروخت بھی کرنے لگا ہے دشمن ممالک کوبخوبی معلوم ہے کہ پاکستان کسی کے لیے ترنوالہ نہیںاسی لیے براہ راست جارحیت کی بجائے وہ اب اندرونی عدمِ استحکام کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں وہ مستقبل کے حوالے سے مایوسیاں پھیلانے کے ساتھ پاک فوج اور شہریوں میں خلیج پیداکرنا چاہتے ہیں وہ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ناراض اور دولت کے حریص عناصر کا تعاون لیکر اِداروں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے آرزومندہیں جسے سمجھنا چاہیے ہمیں تہیہ کرنا ہوگاکہ اگر ہمارے اِداروں کی عزت ووقارسے کوئی کھیلنے کی کوشش کرے گا تو ہر شہری مذہبی، لسانی، علاقائی اختلافات بھلا کر اپنے اِداروں کے شانہ بشانہ ہو گا اِس سے پہلے کہ دشمن عناصر کی چالیں سمجھنے میں ہم دیرکریں اور دشمن اپنے مقاصدمیں کامیاب ہو جائے آئیے عہدکریں ملک کے دفاع کا فریضہ اداکرنے والی پاک وفوج کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں کو ناکام بنانے کے لیے ہم سب ایک تھے ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔
کبھی غور کیا ہے یہ جو اچانک ملک میں فتنہ خوارج کی سرگرمیاںبڑھنے لگی ہیں اوروطن دشمن عناصر ہر طرف سے حملہ آور ہیں سرحدیں پامال کرنے کے ساتھ سوشل میڈیا پرملکی دفاع کے ضامن اِداروں کے خلاف طوفان بدتمیزی لانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی صورتحال کے پسِ پردہ عزائم کیاہیں ؟ یہ درست ہے کہ پاک فوج کی جوابی کارروائیوں سے وطن دشمن عناصرسرحدوں کی پامالی جیسے اپنے عزائم میں ناکام ہےں اِس لیے اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کے لیے اُن کامحوراب سوشل میڈیا ہے اسی کے توسط سے وہ نفاق کے بیج بونے میں سرگرم ہیں اور علاقائی، قومیت پرستی ،لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم بڑھا کر ہمیں لڑانااور انتشارکوہوادیناچاہتے ہیں جنھیں سمجھ کرناکام بنانے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے وطن دشمن عناصر کواپنے عزائم کی تکمیل کے لیے مقامی سطح پرہی کچھ سہولت کاردستیاب ہیں یاد رکھیں یہ سیاسی لبادے میں ہوں یا مذہبی،سے محتاط رہنا اور ناکام بنانا ہمارا فریضہ ہے ایک نُکتہ ذہن نشیں کرلیں جو پاک فوج کو بُرابھلا کہتاہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے البتہ محب الوطن نہیں ہو سکتا۔
فتنہ خوارج کو ناکام بنانے میں مصروف پاک فوج پر اُنگلی اُٹھانانہ توحب الوطنی ہے اور نہ ہی عوام سے ہمدردی، جو بھی دشمن طاقتوں کے حق میں جلوس یاریلیاں نکاتا اور ملک دشمن عناصر کے حق میں نعرے لگاتاہے اُس کی حوصلہ شکنی کرناہی حب الوطنی ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ فتنہ خوارج کو ناکام بنانے میں پاک فوج کے حق میں رائے عامہ ہموارکرنے میں کرداراداکیا جائے ۔