Daily Sub News:
2025-04-30@17:57:11 GMT

مشرقی سماج اور مملکت خداداد

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

مشرقی سماج اور مملکت خداداد

مشرقی سماج اور مملکت خداداد WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز

( تحریر:ظفر عالم چیمہ

ابتدائے آفرینش سے ہی جب سے اللہ سبحان و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا، اللہ تعالیسے فرشتوں کا مکالمہ ہوا ، اے اللہ تو اس انسان کو پیدا کرنے والا ہے جو دنیا میں زمین پر خون اور فساد پھیلائے گا، بہرحال اس کی حکمتیں وہی جانے ،لیکن ہابیل اور قابیل کے جھگڑے سے سلسلہ حسد وحوس سے شروع ہوا تھا آج تک جاری و ساری ہے اس حسد کی وسعت کے اندر نسل پرستی زر پرستی اور خود پرستی بھی شامل ہو گئی کہ میں حسب و نسب میں اعلی ہوں اور میرا خاندان بھی ، ساری دنیا کی آسائشیں میرے اور میرے خاندان کے لیے ہونی چاہیے اور دوسرے کمتر بھی ہیں ، ان کے وسائل پر قبضہ کرنا اور ہتھیانا بھی جائز ہے۔ ابتدا ہی سے انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں کے اندر اپنی ضروریات زندگی تلاش کرتا رہا کبھی اس جگہ شکار تو کبھی دوسری، پھر یہ خاندان جلدی ہی قبیلوں کی شکل اختیار کر گئے ضروریات بڑھیں تو ذراعت کی طرف توجہ ہوئی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالے گئے

، اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے نئی نئی زمینوں کو تلاش کیا گیا پھر دریاوں کے کناروں پہ آبادیاں بنی ان آبادیوں نے بڑی بڑی تہذیبوں کو جنم دیا کیونکہ انسان کے اندر جمالیاتی شعور ودیعت کیا گیا جس کی بنیاد پر بڑے بڑے شہر اور ملک وجود میں آنے لگے لیکن پھر وہی انسان کی حرص و ہوس اور غلبے کی جبلت نے اپنے آپ کو سپیریئر اور دوسرے کو کمتر دکھانے کے لیے جنگوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جس میں مرد یا تو کام آگئے یا ان کو غلام بنا لیا گیا اسی طرح ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی غلام بنا لیا گیا تہذیب کا ارتقا بھی جاری رہا اور ساتھ ساتھ ظلم و جور بھی،جب دریا کے کناروں پہ بڑی بڑی تہذیبوں نے جنم لیا انسان اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے تھوڑا سا فارغ ہوا تو پھر اس نے اپنے اور کائنات کے درمیان ربط تلاش کرنے کی کوشش کی کہ میں کیا ہوں کہاں سے آیا ہوں مر کر کہاں جانا ہے مقصد زندگی کیا ہے دنیا سے ظلم و جبر کیسے ختم ہو سکتا ہے

،عدل کیسے کیا جا سکتا ہے انہیں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک طرف تو مشرق میں انبیا کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف مغرب روم اور یونان میں فلاسفہ کے قابل ذکر تعداد ہے جو کہ ایک آئیڈیل ریاست کی تلاش میں ہیں، کہ ایسی ریاست جس کے اندر انسان امن و سکون اور عدل و انصاف کے ساتھ رہ سکے، مشرق کا الہیات اور انبیا کا سلسلہ، کہ انسان کو کیسے ٹھیک کیا جائے تاکہ معاشرہ اور ریاست ٹھیک ہو سکے۔مغرب کی تمام تر توجہ” اجتماعی” اور مشرق کی “انفرادی”، مشرق اور مغرب کا یہ فرق آج بھی ہمیں نظر اتا ہے کہ مغرب میں سارا فوکس معاشرے ،ریاست ،ریاستی انفراسٹرکچر عدل و انصاف انسانی حقوق اور سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کو اوپر اٹھانے ، ان کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر ہے جبکہ مشرق میں ما قبل تاریخ کے دور سے بادشاہ اپنے لیے محلات اور باغات بنا کر،ٹاٹھ باٹھ سے رہنا ،عام لوگوں کو زیر دست کمتر ، نوکر ،غلام اور مزارع بنا کے رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔

بادشاہت کے بعد ایک طبقہ اشرافیہ نے اس کی جگہ لے لی ۔اب وہی سارے وسائل اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے کہ تمام خاندان اور افراد اپنے اپ کو سنوارتے ہیں، وسائل کے لئے مار دھاڑ کرتے ہیں اپنے آپ کو اوپر لے آتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کو اجتماعی طور پر اوپر اٹھانے ان کو برابری کی سطح پر لانے ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بجائے ایک ظلم و استحصال کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، ہزاروں انبیا اور مصلحین کے باوجود بھی آج تک مشرقی فطرت یہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا ، آج بھی انفرادی سطح پر ہی چیزیں چل رہیں ہیں دنیاوی معاملات اور دین میں بھی۔ اگرچہ دین اسلام اجتماعیت پر بہت توجہ دیتا ہے تمام عبادات نماز، روزہ اور حج اجتماعی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں بھی، لیکن افسوس اجتماعی نماز اجتماعی ڈسپلن اجتماعی مسائل اور وسائل کے حوالہ سے کچھ اثر انداز ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں اسی طرح زکو کی وجہ سے اجتماعی طور پر غربت اور محرومی میں کمی نظر نہیں اتی اور حج کا عظیم الشان اجتماع عالمی سطح پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا اس سب کے پیچھے مشرق کی وہی انفرادی سطحی اور خود غرضانہ، خود ستائشی اور خود نمائی کی سوچ ہے کہ بس میں متقی ہوں میں ہی ٹھیک ہوں مجھے ہی امیر ہونا چاہیے اور تمام وسائل دنیا میرے پاس ہی ہوں دوسروں سے مجھے کیا لینا دینا کھی صدقہ اور خیرات کر دیا وہ بھی صرف دکھاوا اور خود ستائسی ، یہی مشرقی شعور ہے انفرادی سطح کا جس کی وجہ سے آج تک مسائل حل نہیں ہو پا رہے بس زندگی سسک سسک کر چل رہی ہے جب تک مشرق کے معاشرے انفرادی سطح سے اٹھ کر اجتماعی طور پر تمام لوگوں کو ساتھ لے کے ان کی بہتری اور ان کی خیر خواہی کے لیے نہیں اٹھیں گے مشرق کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا

ابھی مشرق میں جو ایک دو استثنی ہوئے ہیں جس میں انڈیا چائنہ اور جاپان ہے ان ممالک نے بھی مغرب سے سیکھا ہے ، انہوں نے اپنے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو خط قربت سے نکالا ہے اور جب تک بقیہ ممالک اس طرز کو نہیں اپنائیں گے اسی طرح ہی محرومیوں کا شکار رہیں گے ہمارے ہاں مملکت خداداد میں جو لوگ بھی حلال حرام چوری چالاکی دھوکہ فراڈ اور خوشامد سے دولت مند ہو جاتے ہیں پھر وہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب کاروبار زندگی اور کاروبار حکومت بھی ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے گو اس کی کوئی اہلیت اور مہارت ہو نہ ہو(کوی عقل شکل ہو نہ ہو )بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی بھی انفرادیت خود پسندی خود نمائی خود پرستی کا دور دورہ ہے کہ جو طبقہ باوسائل ہے وہ عجیب طرح کے نفسیاتی خلجان میں مبتلا ہیہر وقت اپنی ذات لباس گاڑی گھر اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی نمائش کرتے رہنا اور داد طلب نظروں سے دوسروں کو دیکھنا اور بیچارے جو بے وسائل ہیں وہ انہیں کی خوشامد اور واہ واہ پہ لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی تمام تر ضروریات زندگی کا انحصار انہیں باوسائل طبقات پر ہے جو اپنی خود پسندی اور خود پرستی سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ان تمام چیزوں کو میڈیا اور سوشل میڈیا نے کمال عروج تک پہنچایا ہے۔

بقول جون ایلیااے رونق بزم زندگی طرفہ ہیں تیرے لوگ بھی ایک تو آئے نہ تھے کبھی گئے تو روٹھ کر گئے۔کبھی کسی کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کر بھی دیں گے تو ایسے جیسے اس کی سات نسلوں پر احسان کر دیا ،تمام سرکاری ملازم صرف دفتر آئے جانے کی تنخواہ لیتے ہیں کام کرنے کے پیسے بھی لے لیتے ہیں اور کام کرنے کے بعد احسان بھی جتاتے رہتے ہیں جس کی تنخواہ ریاست سے اور رشوت بندہ سے وصول کی ہوتی ہے۔جہاں پر لوگ علم اور مذہب دوستی کے لیے (مساجد اور یونیورسٹیاں )ملک ریاض اور( دین اور روحانیت) کے لیے طاہر اشرفی اور “مرشد”کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اس معاشرے کا کیا عالم ہوگا۔ اس انتہائی درجے کی پست ذہنیت کے ساتھ یہ ملک اور معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا یہ نقطہ ہے نقطہ وروں کے لیے۔ اور رہ گئے کاروباری اور تاجر حضرات اگر یہ کمزور سی لولی لنگڑی ریاست اور اس کا آئین اور نظام نہ ہو تو یہ تاجر عام آدمی کی کھال اتار کے اس کے جوتے پہننے فخر محسوس کرتے ہیں اس قدر انتہائی سفاک اور ظالم سماج کے اندر رہنا بذات خود ایک بہت بڑا امتحان اور آزمائش ہے د یکھیںکبتک؟

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

خدمت گاروں کے خدمت گار

ہم تو سدا سدا کے اور جدی پشتی آدھے ادھورے لوگ ہیں، اس لیے قدم قدم پر مجبوریوں، محرومیوں اور تشنہ تمناوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ’’چادر‘‘ چھوٹی ہے،اس منخوس لمبے تڑنگے جسم کو چھپانے، ڈھانپنے اور اوڑھنے کے لیے ناکافی ہے۔ سر چھپاتے ہیں تو پیر باہر ہوجاتے ہیں، پیر چھپاتے ہیں تو سر اور چہرے پر مچھر مکھیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔

چنانچہ ہماری گاڑی کے ٹائر بہت خستہ ہوگئے تھے بلکہ پنکچر لگانے والوں نے صاف صاف بتادیا کہ اب ان میں پنکچر لگانے کے لیے بھی جگہ نہیں رہی ہے، ٹائر بدلوادیں یا پھر دکان بدل لیں، ہم تو معذرت خواہ ہیں۔ اب ٹائر بدلوانا کوئی معمولی کام تو نہیں تھا، معمولی لوگوں کے لیے۔کئی بار پیسے جمع کرنے کی کوشش کی لیکن بیچ میں کوئی اور افتاد آپڑتی تھی کہ بیماریاں اور مصیبتیں بھی تو ایسے گھروں کی تاک میں رہتی ہیں جن کی دیواریں چھوٹی اور دروازے ٹوٹے پھوٹے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر کسی کے سامنے رونا پڑرہا تھا کہ اچانک ایک دانا ئے راز اور رہبرو رہنما سے ملاقات ہوگئی۔

اس نے کہا، یہ کونسی بڑی بات ہے،مجھے ایک ایسے شخص کا پتہ ہے جو یہ کام چٹکیوں میں کردے گا، پھر اس نے اپنی کچھ ضرورتوں کا ذکر کیا جو اس بابرکت شخص نے پوری کی تھیں۔ ایک اچھی خاصی کلاشنکوف آدھی قیمت پر دلوائی تھی، پرانے فریج کی جگہ نیا فریج دلوایا تھا اور بھی بہت ساری چیزیں آدھی قیمت پر دلوائی تھیں۔

کہا، اس شخص سے رجوع کرو نئے ٹائر آدھی قیمت میں مل جائیں گے، صرف مشورہ ہی نہیں دیا، اس ’’باکرامت‘‘ شخص سے تعارف بھی کرایا اور اس نیک بندے نے وعدہ بھی کرلیا، کچھ دنوں بعد اچانک دروازے پر دستک ہوئی، نکل کردیکھا تو وہی مہربان شخص تھا اور پک اپ میں چار ٹائر تھے، آدمی بھی ساتھ تھے، پلک جھپکنے میں ہماری گاڑی کے ٹائر نئے ہوگئے اور پرانے ٹائر وہ ساتھ لے گئے۔ہمیں صرف آدھی قیمت دینا پڑی، وہ ’’کارساز‘‘ شخص پہلے چھوٹا موٹا بدمعاش ہوا کرتا تھا لیکن پھر تھانے کا’’خدمت گار‘‘ بن گیا۔یہ عہدہ کاغذوں میں کہیں نہیں لکھا ہے لیکن ہر تھانے میں موجود ہوتا ہے اور ایس ایچ او جب بدلتا ہے تو چارج میں اس خدمت گار کو نئے ایس ایچ او کے حوالے کرتا ہے۔

کمال کا جادوگر آدمی ہوتا ہے، تھانے والے جب کسی کیس میں کوئی چیز پکڑ کر اپنی تحویل میں لیتے ہیں ، اگر وہ چیز قیمتی ہو جیسے اصلی اسلحہ جات کارتوس، ڈرگز وغیرہ تو خدمت گار راتوں رات اس کا نقلی متبادل مہیا کردیتا ہے اور اصلی کو لے جاکر پہلے سے موجود آرڈرز کے مطابق بیچ دیتا ہے اور اپنا کمیشن کاٹ کر باقی رقم تھانے پہنچا دیتا ہے۔لیکن اگر تحویل میں لی گئی چیز بڑی ہوں جسے ٹرک، بسیںیا موٹر گاڑی،پک اپ وغیرہ۔تو اس کے اچھے اچھے ’’اعضا‘‘ بدل کر ٹھکانے لگادیے جاتے ہیں، ٹائر بیٹری بلکہ انجن اور گئیربکس تک ایسی تمام متوقع چیزوں کی نقلیں خدمت گار پہلے سے اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتا ہے اور موجود نہ ہوں تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ’’کلائنٹ‘‘ سے لین دین بھی خدمت گار کرتا ہے۔

مجرموں اور پولیس والوں کے درمیان ’’طے پایا‘‘ کا کام بھی اکثر یہی خدمت گار کرتا ہے لیکن اس معاملے میں کچھ اور لوگ بھی کبھی حصہ دار بن جاتے ہیں جسے ممبر کونسلر، اخباری نمائندے یا نمبردار، مشر اور لنگی دار یا سابقہ بدمعاش اور موجودہ جرگہ نشین۔اس تھانے کے خدمت گار کی بدولت بعض اوقات ایسے معجزات بھی ظہور پذیر ہوجاتے ہیں جو محیرالعقول اور بڑے حیران کُن ہوتے ہیں۔مثلا۔لیکن یہ تو ہم نے بتایا نہیں ہے کہ دوسرے ممالک میں واردات ہونے کے بعد تفتیش ہوتی ہے اور دنوں یا مہینوں یا سالوں بعد کہیں مجرم پکڑے جاتے لیکن ہمارے ہاں کی پولیس اتنی روشن ضمیر ہے کہ انھیں واردات سے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے پہلے علم ہوتا ہے،اور’’ڈیلی کیٹ‘‘ ملزم بھی تحویل میں لے گئے ہوتے ہیں اور ان سے اقبال جرم بھی کروایا جاچکا ہوتا ہے اور یہ ڈیلی کیٹ مجرم بھی یہی تھانے کا خدمت گار فراہم کرتا ہے جو زیادہ تر ہیرویئنچی ہوتے ہیں۔

واردات ہونے اور مال کو حصہ بقدر جثہ تقسیم کرنے کے بعد ان ’’خطرناک‘‘ مجرموں کو اخبار والوں اور ٹی وی چینلز کے کرائم رپورٹرز پلس اینکرز کے سامنے لایا جاتا ہے۔ سامنے ایک لمبی میز پر وہ خطرناک اسلحہ سجا ہوتا ہے جو مجرموں سے برآمد کیا ہوا ہوتا ہے اور اصل میں خود تھانے کے مال خانے کا ہوتا ہے۔عموماً مجرم بھی میز کے قریب کھڑے کیے جاتے ہیں لیکن اکثر ان کے چہروں کو کالے کپڑے میں چھپایا گیا ہوتا ہے، تاکہ لوگ پہچان نہ لیں اور آیندہ بھی کام کرتے رہیں۔

اب ایک بہت پرانی کہانی کا ایک نیا پہلو، یہ وہی پرانی کہانی ہے جس میں ایک چور نقب لگاتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ابتدا میں اس کے لواحقین نے بہت شور مچایا۔اس کی لاش کو سڑک پر رکھ کر روڈ بلاک بھی کیا تھا۔اور تھانے کے سامنے دھرنا دے کر بہت بڑا مظاہرہ بھی کیا تھا۔لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر اچانک اس مقدمے کو شاہی دربار میں زیرسماعت لایا گیا اور مالک مکان کو غیرمعیاری دیوار بنانے کے جرم میں ملوث کیا گیا۔اس مقدمے کا حال تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس معمولی اور نظر انداز کیے ہوئے ’’مقدمے‘‘پر اچانک اتنی بڑی کارروائی کیوں شروع ہوگئی؟ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ بادشاہ کو خود نوٹس لینا پڑا اور اتنے زور و شور کے ساتھ؟تو سنیے اصل میں مقتول چور کے لواحیقن جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو وہ اعلیٰ صاحب کے پاس فریاد لے کر گئے، وہ چوروں، ڈاکووں اور اسمگلروں اور لیٹروں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی نفسیات ہی نہیں انھیں بھی جانتا تھا۔

موصوف نے ان کی فریاد سنی تو ٹیلیفون اٹھایا اور اپنے سے ’’اوپر‘‘ رابطہ کیا،اور اسے صرف ایک جملہ کہا کہ اگرچوبیس گھنٹے میں ایکشن نہیں لیا گیا تو میں۔۔۔۔۔۔۔ آگے آپ سمجھ دار ہیں۔ س نے فوراً آرڈر جاری کیا کہ مقدمے پر فوراً تیز کارروائی شروع کی جائے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر ان لوگوں نے’’کام چھوڑ‘‘ ہڑتال کردی تو میرے سارے افسر و اہلکار و ممبران وغیرہ ’’یتیم‘‘ ہوجائیں گے کیونکہ ان کو جو تنخواہیں ملتی ہیں وہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں، بچوں کے ایک دن کا جیب خرچ بھی نہیں اور بیگمات کے ایک دن کی شاپنگ کی متحمل بھی نہیں ہیں اور ان کی ساری ضرورتیں یہی لوگ پوری کرتے ہیں اور ان کو ’’کیفرکردار‘‘ تک پہنچانے کا مطلب ہوگا،انجن میں موبل آئل کا ختم ہونا۔ترگلوں کا خشک ہونااور چہروں سے رنگ اڑنا،اس لیے

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آو کہ ’’گلشن‘‘ کا کاروبار چلے

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • سروس کا اگلا نشیمن… پی آئی اے (دوسری قسط)
  • پہلگام کے زخم، جنگ کی سیاست اور امن کی تلاش
  • خدمت گاروں کے خدمت گار
  • آصف علی زرداری کی مارک کارنی کو کامیابی پر مبارکباد
  • دشمن میڈیا اور جنگ
  • سینیٹر علامہ ناصر عباس جعفری کا ملکی سیاست اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • پاک بھارت کشیدگی
  • چینی وزارت خارجہ نے چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کا دعویٰ مسترد کر دیا
  • بُک شیلف