اداکارہ نیلم منیر کی شادی کے بعد پہلی پوسٹ وائرل ہو گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والی خوبرو اداکارہ نیلم منیر نے شوہر کے ہمراہ شادی کے بعد پہلی تصویرشیئر کردی۔
نیلم منیر کی حالیہ پوسٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دبئی میں اپنے شوہر محمد راشد کے ساتھ سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں۔ اداکارہ نے نئی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا ہے کہ یا اللّٰہ کریم ہمیں محبت، ایمان، اعتماد اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرما اور ہماری زندگی خوشیوں سے بھر دے، جو طاقت اور اطمینان فراہم کر سکے۔
اداکارہ نیلم منیر نے رواں ماہ شادی کا انکشاف کیا تھا،شادی کی تصاویر اپ لوڈ کرنے سے کچھ روز قبل ایک پوڈ کاسٹ میں خوبرو اداکارہ کا کہنا تھا کہ میں ابھی مستقبل قریب میں شادی کے بارے میں سوچ تک نہیں رہی، میرا ابھی شادی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے،تاہم کچھ روز بعد ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شادی کی تصویریں شیئر کر کے اس خوشخبری کا اعلان کردیا۔
دوسری جانب اداکارہ کی شادی سے متعلق یہ دعویٰ بھی سامنے آیاتھاکہ وہ گزشتہ سال دسمبر میں شادی کر چکی تھیں،انہوں نے چہ مگوئیوں کے بعد اپنی شادی کا اعلان اس سال کیا ہے۔اداکارہ کی شادی کے بعد کی پہلی ویڈیو، نیلم منیر کی جانب سے مداحوں اور سوشل میڈیا صارفین کا شکریہ ادا کیا گیا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نیلم منیر شادی کے کے بعد
پڑھیں:
ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں
غالباً 2004 کی بات ہے ریڈیو پاکستان لاہور کے زیرِ اہتمام 23 مارچ کے حوالے سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے ہال نمبر تین میں کل پاکستان مشاعرہ تھا جس کا میں پروڈیوسر تھا۔ مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان کے علاوہ اس مشاعرے میں ملک بھر سے منیر نیازی، احمد فراز، افتخار عارف، ظفر اقبال، شہزاد احمد، ناز خیالوی، قاسم پیر زادہ، اسلم انصاری، ریاض مجید، منیر سیفی، اسلم کولسری اور عطاء الحق قاسمی جیسے سینئر اور نامور شعراء شریک تھے۔ دور نزدیک کے سبھی مہمان شاعر ہال میں سٹیج کے سامنے پہلی رو میں کرسیوں پر تشریف فرما تھے، ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ مشاعرے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے امجد اسلام امجد جن کے ذمے مشاعرے کی نظامت تھی سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھے شعراء کی فہرست ترتیب دے رہے تھے کہ اسی دوران ہال کے واش روم کی طرف سے منیر نیازی آتے دکھائی دیئے۔ جیسے ہی امجد صاحب کی نظر نیازی صاحب پر پڑی تو وہ فہرست بنانا چھوڑ کر نیازی صاحب کو دیکھنے لگے جو کسی مدہوشی کے عالم میں چلتے ہوئے اب عین مشاعرے کی صدارتی کرسی کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے وہ اس پر بیٹھنے ہی والے ہوں۔ اس سے پہلے کہ منیر نیازی صدارتی کرسی پر براجمان ہو جاتے۔ امجد صاحب نے بروقت اس خطرے کو بھانپ کر بلند آواز میں نیازی صاحب کو مخاطب کر کے کہا ’’نیازی صاحب یہ صدر کی کرسی ہے‘‘۔ منیر نیازی نے امجد صاحب کی آواز سنی اور اسی عالم مدہوشی میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا ’’وہ کون ہے‘‘۔ اس پر امجد صاحب نے دوبارہ بلند آواز میں کہا ’’احمد ندیم قاسمی صاحب‘‘۔ اب کی بار منیر نیازی نے باقاعدہ گردن موڑ کر امجد اسلام امجد کی طرف دیکھا اور پھر بڑے ڈرامائی انداز میں کہا ’’وہ کون ہے‘‘۔ جو لوگ منیر نیازی کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منیر نیازی ایسے ہی تھے اور ایسا سوال اور ایسا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں۔ دلچسپ اور مزے کی بات ہے کہ یہ انوکھا انداز اُن پر جچتا بھی تھا اور سوائے ایک آدھ زود رنج کے بڑے بڑے شاعر اپنے حوالے سے اُن کے ایسے جملوں کا مزا لیتے تھے۔ منیر نیازی منفرد لب و لہجے کے ایک ایسے خوبصورت شاعر تھے جن کی شاعری، برجستہ جملوں اور شخصیت کا جادو آج بھی اردو ادب کے قارئین کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں میں یوں تو اچھا شعر کہنے والے بڑے بڑے باکمال شاعر پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ جو رومانوی فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں ایک خوبصورت، خوش لباس، خوش گلو اور کرشماتی شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بنتا ہے۔ ہمارے ادبی منظر نامے میں اب تک اس معیار پر صرف منیر نیازی ہی پورا اُترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منیر نیازی کے اس فانی دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کی مقبولیت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ اُن سے پیار کرنے والے انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے آج بھی یاد کرتے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح میرا شمار بھی اُن کے پرستاروں میں ہوتا ہے مگر میں اس حوالے سے خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اُن کے ساتھ دو تین مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1998ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے پنجابی شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ کے لیے فلیپ بھی لکھا تھا۔ میرے لیے اُن کی وہ چند لائنیں آج بھی کسی قیمتی اعزاز سے کم نہیں ہیں۔ باکمال شاعری، برجستہ جملوں اور اپنی دلکش شخصیت کے مختلف حوالوں سے یوں تو منیر نیازی مجھے بھی اُن کے دیگر بے شمار چاہنے والوںکی طرح اکثر کسی نہ کسی بہانے سے یاد آتے رہتے ہیں مگر آج اتنے عرصے بعد خاص طور پر اپنے سامنے گزرا اُن کا یہ مزیدار واقعہ مجھے فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر فرحت جبیں ورک کی منیر نیازی کے شعری تصورات کے حوالے سے لکھی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ دیکھ کر بس یونہی یاد آ گیا ہے۔ منیر نیازی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے تنقید اور تحقیق کی یہ خوبصورت کتاب ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے اپنے ہاں یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کے اختتام پر عنایت کی تھی جس میں شرکت کے لیے میں اُن کی دعوت پر خاص طور پر لاہور سے گیا تھا۔ کچھ نئے دوستوں سے پہلی بار بالمشافہ ملنے کے حوالے سے میرے لیے یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کی صدارت شکیل جاذب نے کی جبکہ مہمان خصوصی صائمہ آفتاب تھیں دیگر شاعروں میں میرے علاوہ سبھی مقامی شاعر تھے جن میں میرے ’’دُورکے جاننے والوں‘‘ میں بس خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر فاخرہ نورین اور ڈاکٹر عزیز فیصل ہی تھے۔ باقی سارا مال نیا تھا نئے شاعروں میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے شیدا جنٹری میں پھس گیا ہو۔ یہ ایک شاندار مشاعرہ تھا جس میں ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کے حسن انتظام اور اُن کی خوبصورت نظامت کے علاوہ مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں میری درخواست پر بطور خاص ہمارے دوست اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ذوالفقار احسن بھی ایک سامع کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ مجھے نہیں پتا اُن کی مشاعرہ سننے میں کتنی دلچسپی تھی البتہ سٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ اپنے دائیں بائیں مشاعرہ دیکھنے میں وہ اختتام تک بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ حتیٰ کہ مشاعرے کے بعد جب سموسوں اور چائے کا دور چل رہا تھا وہاں بھی ڈاکٹر ذوالفقار احسن کی یہ وارفتگی پوری طرح برقرار رہی۔ ڈاکٹر صاحب مرد و زن کی تفریق کے بغیر لگا تار کسی ماہر تلوار باز کی طرح اپنے برجستہ جملوں سے کشتوں کے پشتے یا پشتوں کے کشتے لگاتے جا رہے تھے۔ اُن کے شوخ اور مزیدار جملوں سے کچھ لوگ محظوظ تو کچھ اِدھر اُدھر کھسک کر محفوظ ہوتے رہے۔ مجھے چونکہ واپسی کی جلدی تھی اور بھوک بھی شدید لگی تھی اس لیے میں نے ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک سے یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی کہ ’’ڈاکٹر صاحبہ مجھے اجازت دیں میں نے لاہور پہنچ کر روٹی شوٹی بھی کھانی ہے‘‘۔ اس پر پتا نہیں کیوں ڈاکٹر ذوالفقار احسن ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جہاں تک ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کی منیر نیازی کے فن اور شخصیت پر مبنی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ کی بات ہے تو اس حوالے عرض کروں کہ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے ناں ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘‘۔ ایک تو ہم سب کے پسندیدہ شاعر منیر نیازی کا ذکر اور اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے جس محبت، عقیدت اور لگن سے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اس نے ہمارے جیسے بندے کو بھی یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب بازار علم و ادب میں پی ایچ ڈی کے ’’ریڈی میڈ‘‘ مقالوں کا سستا لنڈا بازار لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کسی ’’ریڈی میڈ‘‘ فارمولے کی بجائے ڈھیروںکتابیں کھنگال کر جس عرق ریزی سے منیر نیازی کی شخصیت، حالات زندگی اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کا تفصیل اور استدلال سے تجزیہ کیا ہے۔ منیر نیازی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے اور اُن سے حقیقی معنوں میں حظ اُٹھانے کے لیے اردو ادب کے قارئین اور تنقید و تحقیق کے طالب علموں کے لیے یقینا یہ ایک بہترین اور مستند کتاب ہے جس پر بلاشبہ ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک تحسین کی مستحق ہیں۔