تو نہیں تیرا خون بول رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
امام سمرقندی رحمہ اللہ تنبیہ الغافلین میں فرماتے ہیں کہ ’’تم تین چیزوں کے بارے میں مت سوچو، ہمیشہ غریبی کے بارے میں مت سوچو، تاکہ تمہیں زیادہ پریشانیاں اور مایوسیاں نہ ہوں، اور تمہاری حِرص نہ بڑھے، ہمیشہ ان لوگوں کی ناانصافی کے بارے میں مت سوچو، جو تم پر ظلم کرتے ہیں، کیونکہ تمہارا دل سخت ہو جائے گا، اور تمہاری نفرت بڑھتی جائے گی، اور تمہارا غصہ ہمیشہ رہے گا؛ ہمیشہ یہ مت سوچو، کہ تم اِس دنیا میں کب تک زندہ رہو گے، کیونکہ تم ہمیشہ مال جمع کرنے میں مصروف رہو گے، تمہاری عمر برباد ہو جائے گی اور ہمیشہ نیکیوں میں تاخیر کرو گے!خلیفہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی،جس کا چہرہ بہت پر وقار تھامگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا۔خلیفہ عبدالملک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے۔ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا اور اس نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا۔خلیفہ عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میں تمہارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔نوجوان نے جواب دیا، اے امیر المومنین!میں اس وقت اللہ کے گھر بیت اللہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔ خلیفہ عبدالملک نے اس کے پرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔خلیفہ نے اپنے غلام سے کہا کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیت اللہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا۔سالم بن عبداللہ بن عمر جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے ان سے کہا کہ امیر المومنین نے آپ کو یاد کیا ہے۔سالم بن عبداللہ خلیفہ کے پاس پہنچے۔خلیفہ عبدالملک نے کہا، نوجوان!اب تو تم بیت اللہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔سالم بن عبداللہ نے کہا، اے امیرالمومنین!آپ میری کون سی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیاوی یا آخرت کی؟امیرالمومنین نے جواب دیا، کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔ سالم بن عبداللہ نے جواب دیا۔امیر المومنین!دنیا تو میں نے کبھی اللہ سے بھی نہیں مانگی۔ جو اس دنیا کا مالکِ کل ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیا اور کہنے لگا کہ نوجوان یہ تو نہیں، تیرا خون بول رہا ہے۔خلیفہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہ علیہ رحمہ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔یوں ایک نوجوان حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا۔
ہم فلسطین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ یہ فلسطین انبیا علیہم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا،حضرت دائود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان ؑ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے،چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا ’’اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جائو‘‘ یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں ’’وادی النمل چیونٹیوں کی وادی‘‘ رکھ دیا گیا تھا، حضرت ذکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جائو، انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیا علیہم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا، اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم ؑ کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سالم بن عبداللہ علیہ السلام کے بارے میں بیت اللہ سے کہا
پڑھیں:
چراغِ نسبت!
دل کی گہرائیوں میں، روح کی پہنائیوں میں …. روشنی بکھیرنے کے اسباب، نسبت کے چراغ ہوا کرتے ہیں۔ کس کو کس سے کیا نسبت ہو جاتی ہے …. کہ وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ …. بندے کو اللہ سے نسبتِ ولایت ہو جاتی ہے، تو وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے، ایک عام آدمی کو رسول اللہﷺ سے نسبتِ ایمان ہو جاتی ہے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے، مسلمان کو علی ولی اللہ سے نسبتِ اُلفت ہو جاتی ہے تو وہ مومن ہو جاتا ہے، جس بندہ¿ مومن کی آنکھ کو مشاہدہِ حق سے کوئی نسبت میسر آ جائے، وہ محسن ہو جاتا ہے۔ جب سَر کی آنکھ کو سِرّ کی کسی جہت سے کوئی نسبت مل جاتی ہے درجہِ احسان میسر آ جاتا ہے۔ گویا مسلمان، مومن اور محسن ہونا …. سب کمالاتِ نسبت ہیں۔
یہ نسبت ہے جو بے زر کو بُو زرؓ کر دیتی ہے۔ یہ نسبت ہے جو حبشی کو بلالؓ بنا دیتی ہے …. ایک لاکھ بیس ہزار اصحابِ رسول درجہ بدرجہ نسبتوں کی داستان ہیں۔ سابقون الاوّلون کی داستان اور ہے، بدری صحابہؓ کی اور …. اصحابِ صفّہ کی اور …. اور بعد از فتح ِ مکہ اسلام قبول کرنے والوں کی اور ….! نسبت کی داستانیں مقدر ہیں، ازل سے مقرر ہیں، اس میں کسی بحث کا کوئی دخل نہیں۔
شرف الدین کو جب نسبتِ علیؓ میسر آتی ہے تو اسے بُو علی قلندر بنا دیتی ہے۔ جلال الدین کو شمس الدین کی نسبتِ جمال ملتی ہے تو اسے مولائے رومؒ کر دیتی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کو نسبت کی عنایت ہی بلھے شاہؒ کر دیتی ہے۔ اسی طرح ملک محمد واصف کو نسبتِ علیؓ کیا ملی کہ وہ قلندر واصف علی واصفؒ ہو گئے۔
نسبتوں کے چراغ سینہ بہ سینہ ہیں …. اور سرِ طورِ سینہ ہیں …. جس دل میں چراغِ نسبت جل اٹھتا ہے، اسے طورِ سینا بنا دیتا ہے۔ عقل، دل کے ہاتھ پر بیعت کر لیتی ہے …. اور منطق کی پُر پیچ وادیوں میں آوارہ گردی سے توبہ کر لیتی ہے۔ جسے زلفِ یار کی خوشبو نصیب ہو جائے، اسے خرد کی گتھیاں سلجھانے کی فرصت نہیں۔ اہلِ خرد جس جنوں دعا کرتے ہیں، وہ تو مجنوں کا جہان ہے جو کسی لیلائے حقیقت کے رخِ روشن سے منور ہے۔
چراغِ نسبت بھی عجب ہے، بے مول کو انمول کر دیتا ہے۔ بے نام کو نام ور کرتا ہے اور بشر کو ماورائے شر کر دیتا ہے۔ ماسوا کو ماورا سے نسبت، ورائے حدث کرتی ہے۔ یہی نکتہ ہے جو قدیم اور حادث کا معمہ حل
کرتا ہے۔ یہ وہ راز ہے جو نگاہوں میں عیاں ہو جائے تو کہیں بھی شرک کا شائبہ نہیں رہتا۔ توحید اپنی جگہ قائم بالذات ہے، توحید سے نسبت کثرت کو وحدت کا رخ عطا کرتی ہے۔ باقی سے نسبت فانی کو بقا عطا کرتی ہے، وگرنہ بقا فی الذات …. فانی کے ہاں کہاں! گو سورج، کرن کرن سورج ہے، لیکن کرن سورج کے دم سے ہے۔ بیج درخت کا نہیں، درخت بیج کا مرہون منت ہے …. خواہ کتنا ہی تن آور اور ثمر آور ہو جائے۔ قطرے کو قلزم سے نسبت ہے، اور بہت خوب نسبت ہے …. لیکن قطرہ، قطرہ در قطرہ …. بہرحال قلزم کا رہین منت ہے۔
نسبت کی باتیں بھی عجب ہیں …. انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں …. پاتال سے اٹھا کر آسمان کمال تک پہنچاتی ہیں۔ باتیں ہی تو ہیں …. لیکن ان باتوں کو نسبت ہے …. وہاں سے، جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا۔ ہر بامعنی بات کو حرف کن کے زیر و بم سے ایک خاص نسبت ہے، خاص تعلق ہے۔ نسبت تعلق ہی کا نام ہے …. نسبت ایک قلبی و روحانی تعلق کو کہتے ہیں۔ ظاہری تعلق …. نسبت کے زاویوں میں قبول نہیں۔
معبود سے عبادت کا تعلق …. عابد بناتا ہے۔ اپنے معبود سے رغبت کا تعلق اسے زاہد بناتا ہے …. زہد دنیا سے بے رغبتی کا نام ہے۔ کسی اور جہان سے رغبت ہی اس جہان سے بے رغبتی کا سبب ہوتا ہے۔ معبود محبوب ہو جائے تو اس تعلق کا نام محبت ہے۔ حضرتِ عشق سے نسبتِ عشق، انسان کو عاشق بناتی ہے …. یہاں دوئی کا پردہ نہیں …. اس لیے عاشق و معشوق کی رمز ایک ہے۔
آج چراغِ نسبت کے بھڑک اٹھنے کی نوبت یوں آئی ہے جناب قاسم کیلانی نے اپنا مجموعہِ مناقب ”چراغِ نسبت“ اس فقیر کو ارسال کیا اور اس پر چند کلمات کے طالب ہوئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک طبیعت آمادہ نہ ہو، ایک لفظ تک لکھنا محال ہے۔ اس بات کو ایک برس بیت چکا تھا۔ میں اس مجموعہ کلام کو تقریباً طاقِ نسیاں میں رکھ چکا تھا کہ اچانک پچھلے دنوں نعتیہ مشاعرے میں قاسم کیلانی کی آمد ہوئی۔ مجلسِ فکرِ واصفؒ کے ہاں، درِ احساس لائبریری میں ماہانہ بنیادوں پر ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوتا ہے۔ قاسم کیلانی، ہمارے واصفی دوست احسان مرزا کی دریافت ہیں۔ مرزا صاحب کے ہمراہ قاسم اپنے چند دیگر شاعر دوستوں کے ساتھ تشریف لائے، اور انہوں نے نعتیہ کلام پڑھا۔ نعت سے قبل انہوں نے ایک پنج تنی درود پڑھا …. اور کیا خوب پڑھا۔ صاحبِ لولاک ختم الرسل وجہِ کائنات رسولِ اکرم واکملﷺ کی شان ہدیہ نعت کیا ہی شان دار …. زبانِ شوق پہ تطہیر کی ڈلی کر حضرت علیؓ کی شانِ اقدس میں درود کی بارات ایسی کہ بس سوئے نجف چلی …. سیدہ کائنات حضرت بی بی فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کی خدمتِ اقدس میں درود سلام کے پھول ایسے خوب پیش کیے کہ بارگاہِ بتولؓ میں ضرور ہی قبول ہوئے ہوں گے۔ سلام بحضور، سید الشہداءامام حسینؓ لکھ کر جنابِ قاسم نے کیا چانن کیا ہے، اپنے ہی نہیں سب کے نین روشن کیے ہیں …. اسی طرح ہدیہِ عقیدت بحضور امام حسنؓ …. باعث توقیرِ ہر سخن ہے۔ کلام شاعر بزبانِ شاعر سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ وہ سب کچھ نہیں کہہ ہی سکتے جو ان لفظوں کے پیچھے محرک جذبہ کہہ چکا ہوتا ہے۔ القصہ، ان کی زبانی مناقبِ اہلِ بیت سننے کا شرف حاصل ہوا تو معلوم ہوا کہ ان اشعار کے پیچھے ایک نسبت کا چراغ جل رہا ہے۔ چنانچہ تقریب کے اختتام سے پہلے ہی ان سے دوبارہ وعدہ کر لیا، اور دل ہی دل میں ایک عزمِ مصمم کر لیا کہ ان کی کتاب پر ضرور کچھ لکھوں گا، تا کہ ان نسبتوں کی روشنی سے ہمارا بھی نام روشن ہو جائے۔ چراغ نسبتوں سے روشن ہوتے ہیں، اور روشنی سے نسبت انسان کو روشن کر دیتی ہے …. روشن ضمیر اور روشن کردار انہی روشن نسبتوں کا فیض ہوا کرتا ہے۔ حسبِ دستور، تمہید طولانی ہو گئی اور حرفِ مدعا مختصر …. اس میں میرا کچھ دوش نہیں، عنوان ہی ایسا کیف آور تھا، کہ اس میں قلم، خیال اور لفظ بہتے چلے گئے۔ بہر طور میرا مقصد اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا تھا، تا کہ چراغ سے چراغ جل اٹھیں اور چراغاں ہو جائے۔ کچھ لوگ ساغر کی اقتدا بھی کرتے ہیں….
چراغِ طور جلاو¿، بڑا اندھیرا ہے
اندھیروں میں چراغ جلانے والے لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی قدر دانی چاہیے۔ یہ محسنین میں شامل ہوتے ہیں …. اپنے محسنوں کا حق پہچاننا چاہیے، دامے درمے نہ سہی، سخنے کی حد تک تو بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنے محسنین کی خدمت میں حرفِ سپاس پیش کرنا، معاشرے پر فرضِ کفایہ نہیں، فرضِ عین ہے۔ احسان مرزا صاحب! ہم نے آپ کے دوست پر احسان نہیں کیا، اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ …. اللہ کرے نورِ محبت اور زیادہ!! اللھم زد فزد!!