آنکھوں سے اوجھل ہونے کی حیران کن ایجاد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
انسان باعث امارت مخلوق ہے۔ ایک بار ایک جرمن فلاسفر نے کہا تھا جس کا مفہوم ہے کہ علم و دانش اور ثروت کے اتنے خزانے سمندروں کی تہوں میں نہیں ہیں کہ جتنے انسان کے دماغ میں مدفن ہیں۔ انسان کی یہ پوشیدہ اور مخفی دولت اس کی ظاہری صلاحیتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بنا پر انسان کو جہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی خاموش مگر پراسرار تحریک ملتی ہے تو وہ اس میں گہری دلچسپی محسوس کرتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے بچپن میں زیادہ سوالات کرتے ہیں اور چیزوں میں گہرا تجسس محسوس کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر بہت ذہین نکلتے ہیں۔ علم کی ابتدا بھی تجسس اور حیرانی سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب انسان کی فکر بڑھتی ہے تو اس کے ذہن رسا سے حد درجہ کمالات رونما ہوتے ہیں جو اس کے بہتر اور روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ انسان کی گہری سوچ کے بارے ایک حدیث شریف بھی ہے کہ،’’ایک لمحہ کی فکر دو جہانوں سے افضل ہے۔‘‘ کہ انسانی غوروفکر کی تعبیر ہی انسان کو ناقابل یقین حد تک ذہنی، روحانی اور مادی ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرواتی ہے۔
علامہ اقبال نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ، ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں، محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔‘‘ میں نے پہلی بار یہ شعر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایک اخباری مضمون میں پڑھا تھا۔ وہ علامہ اقبال کے دیوانے تھے اور اپنی تقریروں اور تحریروں میں اکثر ان کے حوالے دیتے تھے۔ خود ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی پراسرار علوم کے منبہ تھے اور انسان کی زہنی استعداد اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کے قائل تھے۔ میں نے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ابتدا ڈاکٹر اسرار احمد ہی کے موٹیویشنل مضامین پڑھنے سے کی تھی۔ اب انسان کے سوچنے اور غوروخوض کی صلاحیت اور سائنسی یجادات کا یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔
دنیا میں جتنی بھی سائنسی ترقی اور ایجادات ہو رہی ہیں وہ پہلے حیرانی اور تجسس کی صورت میں سائنس دانوں کے تخیل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آئنسٹائن بچوں کو تخیلاتی اور دیومالائی کہانیاں پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ برطانیہ کی مشہور مصنفہ اور ہیری پورٹر کی خالق جے کے رولنگ نے بھی انسانی دماغ کی اسی جناتی کارکردگی کو اپنا موضوع سخن بنایا تھا۔ ایسی ناقابل یقین کہانیاں بہت پرکشش ہوتی ہیں مگر ابتدا میں عموماً رد کر دی جاتی ہیں جیسا کہ شروع میں جے کے رولنگ کے سلسلہ وار ناول “ہیری پورٹر” کو درجن بھر پبلشرز نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن آخری پبلشر نے بلآخر اسے چھاپا تو پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی تھی۔
جدید کوانٹم سائنس کی محیر العقول ایجادات تیزی سے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں۔ ابتدا میں ایسے عجیب و غریب تصورات کی کسی کو سمجھ نہیں آتی یے۔ لہٰذا اس بات سے اصولا اختلاف ممکن نہیں ہے کہ حقیقی علم ہی وہ ہے جو ابتدا میں کسی کی سمجھ میں نہ آئے کیونکہ جو علم سمجھ میں آتا ہے وہ صرف معلومات ہوتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال معجزات اور کرامات ہیں جو علم ہی کے ذریعے واقع ہوتی ہیں مگر ایسے علم کے ذریعے جو ماسوائے علم والے کے کسی کو سمجھ نہیں آتا ہے۔ ایسے موضوعات پر لکھا بھی جائے تو عام طور پر اسے ’’سوڈو سائنس‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ سائنس فورمز میں ایسے موضوعات کو غیر سائنسی کہہ کر چھاپنے سے انکار کیا جاتا ہے مگر جب اس علم کے زور پر سائنس ایجادات ہوتی ہیں تو ان کو ساری دنیا ماننے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
حالیہ تحقیقات کی روشنی میں چائنا ایک ایسا محلول تیار کر رہا ہے کہ جس سے انسان دوسروں کی ’’نظروں سے اوجھل‘‘ ہو سکتا ہے۔ چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا مائع تیار کیا ہے، جو خود کو تبدیل کرنے کی اپنی اہلیت کے ذریعے اپنے اردگرد ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے گرگٹ یا آکٹوپس اپنا رنگ اور شکل بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک محاورہ مشہور ہے کہ فلاں آدمی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے مگر مستقبل قریب میں اب حقیقتاً ایسا کرنا ممکن ہو جائے گا۔
اس کا پہلا نامیاتی تجربہ 9 دسمبر 2021 کو بیجنگ میں سنگھوا یونیورسٹی کی لیب میں ایک خاتون سائنس دان نے کیا تھا (نول سیلس، اے ایف پی)۔ دراصل چین کے سائنس دانوں نے اشیا کو نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے یہ نیا مواد تیار کیا ہے جو اپنے ماحول کے مطابق رنگ تبدیل کر لیتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ایجاد ایسا لباس بنانے میں مدد دے سکتی ہے جسے پہن کر انسان ’’دکھائی نہ دے۔‘‘
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
رونا اور آنسوطبی لحاظ سے آپ کے لیے کس قدر مفید ؟جان کرآپ بھی حیران رہ جائیں گے
آنسو نہ صرف ایک جذباتی ردعمل ہیں بلکہ آنکھوں کی صحت اور مجموعی صحت کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔آنسوؤں سے حاصل ہونے والے صحت کے فوائد درج ذیل ہیں:
1) آنسو آنکھوں کو نم رکھتے ہیں، خشکی اور جلن کو روکتے ہیں۔ یہ دھول، گرد اور دیگر ذرات کو آنکھوں سے خارج کردیتے ہیں جو داخل ہوچکے ہوتے ہیں.
2) آنسوؤں میں ایک کیمیکل لائزوزائیم ہوتا ہے۔ یہ اینٹی مائکروبیل خصوصیات والا انزائم انفیکشن سے بچاتا ہے۔ آنسو آنکھوں کے سطحی حصے کورنیا کو آکسیجن اور غذائی اجزاء بھی فراہم کرتے ہیں۔
3) رونا تناؤ کے ہارمونز جیسے کورٹیسول کے اخراج میں مدد کرتا ہے، راحت اور سکون کا احساس فراہم کرتا ہے۔
4) آنسو بہانا آکسیٹوسن اور اینڈورفنز جیسے کیمیکلز کے اخراج کو متحرک کرتا ہے جو موڈ کو بہتر کرسکتا ہے اور درد کو کم کرنے کا باعث ہوتا ہے۔
5) جذباتی طور پر متحرک کردہ آنسو اضطراری یا بیزل آنسوؤں کی اقسام سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تناؤ سے متعلق ہارمونز اور زہریلے مواد کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ رونے سے جسم کو ان مادوں کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
6) آنسو بہانے سے پیراسیمپیتھیٹک اعصابی نظام فعال ہوتا ہے جس سے جسم کو آرام اور جسمانی درد کے احساس کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
7) آنسو آنکھوں کی صاف اور ہموار سطح کو برقرار رکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں جو تیز بصارت کے لیے ضروری ہے۔
8) آنسوؤں میں موجود لائزوزائیم اور دیگر پروٹین قدرتی دفاعی طریقہ کار فراہم کرتے ہیں جس سے آنکھوں میں انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔