جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا: جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کو فالو کریں گے، فیصلے کو نہیں، یہاں سوال اختیارات سے تجاوزکا ہے، کیا کمیٹی نے اپنا اختیارات سے تجاوز کیا؟
سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف شوکاز نوٹس کی کارروائی ختم کر دی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج وکلاء آپ کے سامنے کہہ رہے تھے بینچز اختیارات کو بھی چیلنج کیا ہے؟ آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوتے ہی ملٹری ٹرائل والا کیس آئینی بینچ میں آگیا، کس نے لگایا؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل اس درخواست کے خلاف تھی، وہ ختم ہو گیا۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر فیصلے پر سوموٹو لینا ہے تو اس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہینِ عدالت تو نہیں کر رہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے، ایک بار سارے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں، روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے، یہ تماشا تو ختم ہو، دیکھ لیتے ہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی، دیکھ لیتے ہیں کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بینچ کے سامنے چیلنج ہوئے تھے؟ میں روز سنتا ہوں کہ مفادات سے ٹکراؤ کا معاملہ ہے، اس لیے ہم نہ بیٹھیں، آج یہ مفادات سے ٹکراؤ والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں، آئینی بینچ میں شامل کر کے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ ہم روزانہ دو دو بینچ چلا رہے ہیں، دو چیزوں کو پڑھ کر آتے ہیں، کیا یہ مفادات سے ٹکراؤ ہے؟ اگر آئینی بینچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر شامل نہ ہونے والے متاثرین میں آئیں گے، مفادات سے ٹکراؤ والے اور متاثرین، دونوں پھر کیس نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، کوئی مجھے بتا دے ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا فائدہ مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بینچ میں بیٹھے ہیں؟ جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا، توہینِ عدالت کے نوٹس کا سلسلہ ختم ہو، اس لیے چاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں، مستقبل میں آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے، ملک میں جمہوریت نہیں، بیان ہے کہ ملک آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا، بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، 6 ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ تیسری مرتبہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔
جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ موجودہ بینچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
جسٹس اطہر نے وکیل شاہد جمیل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے دو رکنی بینچ میں فُل کورٹ کی استدعا کی تھی؟
وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ اس بینچ میں بھی استدعا کر رہا ہوں کہ فُل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم آرڈر کریں اور فُل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بینچ کی اکثریت انٹرا کورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے
پڑھیں:
جسٹس علی باقر نجفی کی سپریم کورٹ میں تقرری 4-9 کی اکثریت سے ہوئی، ذرائع
چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دیدی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس علی باقرنجفی کی سپریم کورٹ میں تقرری کی منظوری 4-9 کی اکثریت سے دی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن کے چار ارکان نے تقرری کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحیٰی آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔
مخالفت میں ووٹ دینے والوں میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں،
جسٹس منصور علی شاہ بھی مخالفت میں ووٹ دینے والوں میں شامل ہیں۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اکثریتی رائے سے اختلاف کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق آبزرویشن حذف کرنے کا فیصلہ بھی 4-9 کی اکثریت سے ہوا ہے۔
چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ نےآبزرویشن حذف کرنے کی مخالفت کی ہے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل نے بھی جسٹس شجاعت سے متعلق اکثریتی رائےسے اختلاف کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اکثریت نے اتفاق کیا ہے کہ جسٹس عالیہ نیلم بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ احسن انداز میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔
اجلاس کے بعد جوڈیشل کمیشن کے رکن احسن بھون نے کہا ہے کہ خوشی ہے پہلی مرتبہ حکومت، اپوزیشن نے اتفاق رائے سے فیصلے کیے، 26ویں آئینی ترمیم کےبعد پہلی بار اتفاق رائے سے فیصلے کیے گئے ہیں۔