بل گیٹس نے طلاق کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تسلیم کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
کیلیفورنیا:دنیا کے امیر ترین شخصیات میں شامل مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے اپنی طلاق کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا ہے۔
بل گیٹس نے ایک بیان میں کہا کہ طلاق ان کے لیے اور میلنڈا دونوں کے لیے ایک مشکل اور تکلیف دہ تجربہ تھا۔ "طلاق میری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا ہے,” بل گیٹس نے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں امید تھی کہ ہماری شادی میرے والدین کی طرح کامیاب ہو گی، جو 45 سال تک ساتھ رہے۔”
بل گیٹس نے یہ بھی کہا کہ "جب میلنڈا سے ملاقات ہوئی، تو میں کامیاب تھا، لیکن جب ہم ایک ساتھ تھے تو میری کامیابی میں اور بھی اضافہ ہوا۔” میلنڈا گیٹس نے بھی طلاق کو ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ قرار دیا تھا۔ دونوں کے درمیان 27 سالہ رفاقت کے بعد 2021 میں طلاق ہو گئی تھی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بل گیٹس نے
پڑھیں:
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
حکومت انسانیت کا زریں سبق بھول چکی ہے۔ آنکھوں کے آگے پڑنے والا پردہ ہٹنے کا نام نہیں لیتا ہے۔گویا یہ پردہ آنکھ کے موتیا اور بصارت سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے، ذمے داران حکومت کی غفلت نے لوگوں کو برباد اور ملک کی اساس کو کمزور کر دیا ہے اسی وجہ سے سپر پاور طاقتوں کی نظر ہمارے ملک پر ہے۔
چونکہ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ جہاں آئی ایم ایف اپنے فیصلے سناتا اور اپنی بات منواتا ہے۔ جہاں امرا و وزرا کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور بے چارہ محنت کش صرف اور صرف پچیس تیس ہزار سے زیادہ تنخواہ وصول نہیں کرتا۔
اس قدر مہنگائی میں کس طرح وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکتا ہے؟ حکومت کا تحفظ اور خوشحالی کے لیے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ اس کی دکھ بیماری اور عید بقر عید کے مواقعوں پر مدد بھی نہیں کی جاتی ہے۔
محنت کشوں کی عید اور رمضان مشکلات اور دکھوں کا باعث ہوتے ہیں، ان کے معصوم بچے عید کے کپڑوں کے لیے ترستے ہیں، نئی چپل خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر اکثر اوقات اس قدر بھیانک ہوتی ہے کہ دل صدمے سے تڑپ کر رہ جاتا ہے،کبھی یہ بے چارے بلند و بالا عمارات سے مستری یا مزدوری کا کام کرتے ہوئے تو کبھی بجلی کے پول سے گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور بے شمار مزدور آئے دن کوئلے کی کانوں میں پھنس جاتے ہیں اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے تب وہ اسی راہ پر جانے پر مجبور ہیں، جہاں سب کو ایک دن جانا ہے۔
ان کے یتیم بچے اور بیوائیں عید، بقرعید منانے کی تو دورکی بات ہے دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ غزہ کے مظلوم اور بے سہارا مسلمان اپنے مسلم بھائیوں سے مدد کے طالب ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تنہا رہ گئے ہیں۔
وہ ملبے کے ڈھیر یا پھر ٹوٹے پھوٹے راستوں پر اپنے تباہ و برباد علاقوں میں بیٹھے فریاد کناں ہیں کہ کوئی آئے اور انھیں ان کے نرم وگرم بستروں میں پہنچا دے، جہاں ماں باپ اور بہن بھائی ہوں، رسوئی سے گرم گرم کھانے پکنے کی خوشبوئیں ان کی بھوک کو بڑھا رہی ہوں، اس کے ساتھ ہی ماں پکوان کی تھالی ان کے سامنے لے آئے، اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھلائے اور باپ اپنے کاندھوں پر بٹھا کر دنیا کا نظارہ کرانے باہر لے جائے، وہ کھلونوں سے کھیلیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے فضا میں ہاتھ پھیلائے، پنچھی کی تصویر بنائیں۔ کیا وہ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں؟ ان کے مرحوم والدین اپنے گھروں کو اور اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپانے کے لیے آسکتے ہیں، نہیں ناں!
یہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی رہتا ہے کہ غزہ کے بے کس و مجبور بچے اپنی ماؤں کے پاس زمانے کی ٹھوکروں کے بعد پہنچ سکتے ہیں، ان مسلمان بچوں کو دوسرے ملکوں میں فروخت یا پھر بے اولاد جوڑے گود لے سکتے ہیں، انھیں بے دردی کے ساتھ مارا جا سکتا ہے، جیساکہ ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، بس انھیں تو اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچانا ہے۔
اسی بچانے کی مہم نے امت مسلمہ کو کمزور کر دیا ہے، اتنا کمزور کہ وہ اپنے دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے ہیں، اتنی تاب ہی نہیں ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے، ان کی اس بزدلی نے ان کے لیے جہنم کے راستوں کو کھول دیا ہے، وہ جہاد جیسے عظیم مقصد اور اللہ کے حکم اور غزوات کو بھلا چکے ہیں۔
انھیں حضرت خالد بن ولید اور جرنیل طارق بن زیاد کی فتوحات اور جنگی مہم یاد نہیں، ایرانیوں کے ہاتھوں رومیوں کی شکست کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی طاقت کو زیر کیا گیا، لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب مسلم اتحاد و اخوت کی فضا پروان چڑھے گی اور حق کو فتح حاصل ہوگی۔ حکمرانوں کی حقائق سے چشم پوشی کی بنا پر ملک کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محض آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، اس بات کی وضاحت حکومت نے ببانگ دہل خود کی ہے۔
حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پی آئی اے سمیت پانچ سے سات سرکاری ادارے بیچنے کی یقین دہانی کروا دی ہے، وہ بھی بڑے کروفر کے ساتھ، بلا جھجک قومی اداروں کے نام اور مہینوں کے نام بھی بتا دیے ہیں کہ یہ عمل کن مہینوں میں انجام پائے گا۔
حکومت متعدد ادارے بیچنے کی خواہاںہے۔ ملک میں بجلی و گیس کا بحران قدرتی وسائل ہونے کے باوجود موجود ہے، اب جب کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو فروخت کردیا جائے تاکہ مزید قرضہ ملے اور ملک آگے بڑھے بلکہ حکومت کا خیال ہے کہ بس ملک کسی نہ کسی طرح چلتا رہے، بنا سوچے سمجھے اور بغیر دور اندیشی کے کیے ہوئے فیصلے اکثر اوقات بڑی تباہی و بربادی کا باعث ہوتے ہیں اور آزادی کو قید میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جب پرانے قرضے چکانے کے لیے رقم نہیں ہے تو آیندہ لینے والے قرضوں کے لیے کس طرح ادائیگی ممکن ہے؟
حکومت کی نظر صرف اپنے پیروں تک ہے جس پر وہ کھڑی ہے، وہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اسے نظر نہیں آ رہا ہے کہ تاحد نگاہ ناکامیوں اور مایوسیوں کا جنگل آباد ہے اور قدموں کے نیچے پاتال ہے، کروڑوں پاکستانیوں کی آزادی سلب کرنے اور انھیں برے انجام تک پہنچانے کی اہم ذمے داری حکومت نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئی ہے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، انھیں بھی شکست و ریخت سے گزرنا ہوگا۔
کفار نے کبھی بغیر مطلب کے کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے، چونکہ وہ جانتے ہیں جو اپنے وطن سے مخلص نہیں ہوتے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی وفادار نہیں ہوسکتے ہیں۔
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بے شمار پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے گھر بار چھوڑا، زمینوں و جائیدادوں سے محروم ہوئے ، اپنے والدین، عزیز و اقارب اور بے شمار مہاجرین کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا، ان کے ایثار و قربانی کا یہ صلہ کہ آج اپنے ہی وطن میں امان حاصل نہیں، نفرت و تعصب کو دانستہ ہوا دینے والے اپنے ملک سے مخلص ہرگز نہیں ہو سکتے۔
ملک میں انتشار پھیلانا دانائی کی علامت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اپنے ہی ملک اور صوبوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔
نوجوانوں کے لیے تعلیم و ہنر کے مواقع فراہم کرنا اور انھیں ملازمت ان کی صلاحیت کے مطابق فراہم کرنا کسی دوسرے ملک کے حاکموں کا نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم اور ہنر سے فائدہ اٹھا کر ملک کو مضبوط بنانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ کشکول ٹوٹے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل ہو، اگر ایسا ہو جاتا ہے تب پاکستان میں امن کی فاختہ دوبارہ لوٹ آئے گی اور کوئی بھی پاکستانی محض عید کی خوشیوں سے محرومی کے باعث خودکشی نہیں کرسکے گا (انشا اللہ) اور پھر یہ سوچ جنم لے گی۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا