اسلام آباد:

سینیٹ کمیٹی نے سولر پینل کی امپورٹ میں اربوں کی کرپشن اسکینڈل پر سوالات اٹھادیے،  ٹرانزیکشن کی حد دو کروڑ روپے سالانہ تھی تو ایک سال میں ایک ایک کمپنی نے 2 سے 5 ارب کی ٹرانزیکشن کیسے کرلیں؟ ایف بی آر کہاں تھا؟

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سولر پینل کی امپورٹ میں اربوں روپے کا کرپشن اسکینڈل زیر بحث آیا۔

کنوینئر کمیٹی محسن عزیز نے سوال اٹھایا کہ بتائیں کہ ایک دو کمپنیوں نے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کیسے کرلی؟  کیا ٹرانزیکشنز کنٹری آف اوریجن یا کنٹری آف شپمنٹ میں کی گئیں؟ اگر کہیں اور ٹرانزیکشنز کی گئیں تو کیوں کی گئیں؟

سینیٹر محسن عزیز نے پوچھا کہ سولر کے لیے ایک پارٹی کے لیے ٹرانزیکشن کی حد 2 کروڑ روپے سالانہ تھی،پھر ایک سال میں ایک ایک کمپنی نے 2 سے 5 ارب کی ٹرانزیکشن کیسے کرلیں؟ ایف بی آر نے کہاں اور کس مشکوک ٹرانزیکشن کو پکڑا؟ سولر پینل میں کمپنیوں نے 160 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کیں، اس سولر پینل اسکینڈل میں 11 کمپنیاں ملوث تھیں، گیارہ میں سے پشاور کی اسٹار بزنس اور مون لائٹ مرکزی ملوث کمپنیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : سولر نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے بجلی صارفین پر کتنے ارب کا اضافی بوجھ ڈالا گیا؟ حیران کن انکشاف

حکام دبئی اسلامک بینک نے اجلاس کو بتایا کہ ان کمپنیوں کے اکاؤنٹ بادامی باغ لاہور برانچ میں کھولے گئے، برائٹ اسٹار کی جانب سے رب نواز اور اہلیہ زینب نواز نے اکاؤنٹ اوپن کرایا،مون لائٹ کمپنی کا اکاونٹ زاہد اکبر نے اوپن کرایا تھا،برائٹ اسٹار نے 3 اگست 2018ء کو اکاؤنٹ کھلوایا اور تیسرے دن بزنس شروع کردیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بتائیں کہ اس کمپنی نے کس سال میں کتنی ٹرانزیکشنز کیں؟

بینک حکام نے بتایا کہ 2018ء میں برائٹ اسٹار نے 2.

7 ارب، 2019ء میں 5 ارب کی ٹرانزیکشن کیں، 2020ء میں 1.5 ارب، 2021ء میں 3 اور 2022ء میں 2.5 ارب کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک ہی دن میں دو ملین سے زائد کی ٹرانزیکشن نہیں کی جاسکتیں، پھر کمپنی نے ایک ہی روز میں کئی ملین کی ٹرانزیکشن کیسے کیں؟

بینک حکام نے کہا کہ دو ملین سے زائد کی ٹرانزیکشن پر سی ٹی آر ایف ایم یو کو بھیج دیتے ہیں۔

حکام ایف ایم یو نے کہا کہ ہمارے پاس سی ٹی آر آتی ہیں ہم چیک کرتے ہیں کہ وہ مشکوک تو نہیں، سی ٹی آر آنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مشکوک ہوتی ہیں، کوئی مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو ہم اس پر ایس ٹی آر بناکر آگے بھیج دیتے ہیں،ایس ٹی آر پر کمپنیوں کے خلاف انفورسمنٹ ایجنسیز کارروائی کرتی ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی ٹرانزیکشن کیسے ارب کی ٹرانزیکشن سولر پینل نے کہا کہ

پڑھیں:

غیر ظاہر شدہ رقم سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی خریدنے پر پابندی

اسلام آباد: چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیاہے کہ پاکستانی شہریوں کےلائف اسٹائل سےعالمی مالیاتی ادارے بھی حیران ہے، وہ شہریوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی موحودہ شرح کونہیں مانتے، غیر ظاہر شدہ رقم سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی خریدنے پر پابندی ہو گی۔

میڈیا ذرائع کے مطابق قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بلال اظہر کیانی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ صرف 12افراد نے 10 ارب روپے یا زیادہ مالیت کے اثاثے ظاہر کئے ہیں، ہم ماضی میں سخت فیصلے ملتوی کرتے آئے ہیں، 70سال سے یہ ملک اسی طرح چل رہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر ظاہر شدہ آمدن اور اثاثوں کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے، غیر ظاہر شدہ رقم سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی خریدنے پر پابندی ہو گی، ایک کروڑ سے مہنگی پراپرٹی خریدنے کیلئے انکم ٹیکس ریٹرن میں آمدن ظاہر کرنا ہو گی، ملک میں 97 فیصد سے زیادہ پراپرٹی ٹرانزیکشنز ایک کروڑ روپے سے کم ہیں، ہمارا ہدف زیادہ مالیت کی پراپرٹی ٹرانزیکشنز کرنے والا 2.5 فیصد طبقہ ہے، اس مقصد کیلئےایف بی آر ایک ایپ بھی تیار کر رہا ہے۔

راشد محمود لنگڑیال کا کہناتھا کہ پراپرٹی خریدنے کیلئے انکم ٹیکس گوشوارے والا ڈیٹا ایپ میں ظاہر ہو جائے گا، ایک کروڑ 30لاکھ ظاہر کردہ آمدن سے ایک پلاٹ خریدا جا سکے گا، مزید پراپرٹی خریدنے کیلئے انکم ٹیکس ریٹرن میں مزید رقم یا آمدن ظاہر کرنا لازمی قرار دیا جارہاہے ، 25 سال عمر تک کے بچے والد کے انکم ٹیکس ریٹرن کی بنیاد پر پلاٹ یا پراپرٹی خرید سکیں گے، غیر ظاہر شدہ آمدن رکھنے یا انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے زد میں آئیں گے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سال 2023-24 میں پراپرٹی کی 16 لاکھ 95 ہزار سےزیادہ ٹرانزیکشنز ہوئیں، اس میں سے 93.7 فیصد پراپرٹی ٹرانزیکشنز 50 لاکھ روپے سےکم مالیت کی تھیں۔

چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے ذیلی کمیٹی میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی شہریوں کےلائف اسٹائل سےعالمی مالیاتی ادارے بھی حیران ہے ، وہ شہریوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی موحودہ شرح کونہیں مانتے، مختلف کلبوں کی ممبرشپ،4،5کروڑکی پراپرٹی خریدنے والے ٹیکس نہیں دیتے، 50،50لاکھ روپے کی گاڑی بھی خریدلیتے ہیں لیکن ریٹرن فائل نہیں کرتے۔

متعلقہ مضامین

  • زکوٰۃ آفس میں کروڑوں کی خوردبردکا انکشاف، جعل سازی کے ذریعے بوگس کمیٹیوں کو 29 کروڑ کی رقم جاری
  • بھارتی پنجاب، 3 کروڑ کی 90 فیصد آبادی کو مفت بجلی میسر
  • سولر نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے بجلی صارفین پر کتنے ارب کا اضافی بوجھ ڈالا گیا؟ حیران کن انکشاف
  • سولر پینلز کی درآمد میں مبینہ کرپشن کا انکشاف
  • غیر ظاہر شدہ رقم سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی خریدنے پر پابندی
  • غیر ظاہر شدہ آمدن سے آپ کتنی پراپرٹی خرید سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا
  • نیٹ میٹرنگ؛ 103 ارب روپے کا بوجھ گرڈ سے بجلی لینے والے صارفین پر ڈالنے کا انکشاف
  • سوئی سدرن کے منصوبوں میں تاخیر، اربوں کا نقصان
  • ’آپریشنز کی ضرورت‘، چیئرمین ایف بی آر کا افسران کے لیے اربوں روپے کی گاڑیاں خریدنے پر اصرار