قم، اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی کاظم میثم کا اعلیٰ سیاسی وفد کے ہمراہ جامعہ روحانیت کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اپوزیشن لیڈر کاظم میثم نے گفتگو کرتے ہوئے جی بی میں شعوری تنزل کی جانب اشارہ کیا اور عوام میں شعوری تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے ایک اعلیٰ سیاسی وفد کے ہمراہ قم میں جامعہ روحانیت بلتستان کے دفتر کا دورہ کیا۔ وفد میں ٹیکنوکریٹ ممبر جی بی کونسل شیخ احمد نوری، ممبر اسمبلی حلقہ 3 گلگت سید سہیل شاہ، ممبر اسمبلی حلقہ 3 سکردو وزیر سلیم، صوبائی سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ڈاکٹر مشتاق حکیمی اور سید محمد صادق رضوی جنرل سیکرٹری وحدت یوتھ پاکستان شامل تھے۔ جامعہ روحانیت کے جنرل سیکرٹری شیخ سجاد شاکری نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے جامعہ کی خدمات اور کارکردگیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کی قومی مسائل پر اعلیٰ ایوانوں میں آواز بلند کرنے کی کاوشوں کو سراہا اور علماء و سیاسی رہنماؤں کے درمیان قومی مسائل کے حل کے لئے باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ رکن جی بی کونسل شیخ احمد نوری نے جامعہ روحانیت کے عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وفد کے اراکین کا تعارف پیش کیا۔ اپوزیشن لیڈر کاظم میثم نے گفتگو کرتے ہوئے جی بی میں شعوری تنزل کی جانب اشارہ کیا اور عوام میں شعوری تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے علماء اور سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کی فکری، معنوی اور تعلیمی رہنمائی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی مسائل کے حل کے لئے علماء اور سیاستدانوں کے مابین تعاون ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی حمایت کے بغیر سیاسی رہنما کسی بھی قومی اور علاقائی حقوق کے لئے مؤثر جدوجہد نہیں کر سکتے۔ آخر میں جامعہ روحانیت بلتستان کے صدر حجت الاسلام شیخ علی نقی جنتی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور قومی مسائل کے حل کے لئے ان کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے مہمانوں کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا کی۔ اس ملاقات میں جامعہ روحانیت بلتستان کے مجلس نظارت کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر لطیف مطہری، ڈاکٹر محمد علی شریفی، مجلس کے نمائندگان حجت الاسلام والمسلمین احمد سعیدی، حجت الاسلام والمسلمین شیر محمد مقدسی، اراکین کابینہ حجت الاسلام والمسلمین مصطفی حلیمی، حجت الاسلام والمسلمین غلام محمد اشرفی، حجت الاسلام والمسلمین جعفر جعفری، محترم جناب شیخ خادم جاوید، محترم جناب اکبر وجری، اور اساتذۂ حوزہ حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی اور حجت الاسلام والمسلمین محمد علی انصاری نے بھی شرکت کی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جامعہ روحانیت اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کرتے ہوئے انہوں نے کے لئے
پڑھیں:
چینی لیڈر شپ کی ڈپلومیسی کا 2025میں نیا آغاز اور اس میں چھپے گہرے معنی
چینی لیڈر شپ کی ڈپلومیسی کا 2025میں نیا آغاز اور اس میں چھپے گہرے معنی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کے صدر شی جن پھنگ ویت نام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کے سرکاری دورے کر رہے ہیں ۔ یہ سال 2025 میں چینی رہنما کا پہلا بیرونی دورہ ہے اور ساتھ ہی چینی قیادت کی مرکزی ہمسائیگی کے امور پر ہونے والی کانفرنس کے فوراً بعد چینی رہنما کا ہمسایہ ممالک کا پہلا دورہ بھی ہے۔ بین الاقوامی صورتحال غیر مستحکم ہے، اور امریکی ٹیرف جنگ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ ایسے وقت میں، کیا چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی کا یہ آغاز محض رسمی ملاقاتوں اور تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ہے، یا اس کے پیچھے کوئی گہرا مقصد ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کی وجہ سے اس دورے پر کئی حلقوں کی توجہ مرکوز ہے۔ درحقیقت، میرے خیال میں مبصرین ضرورت سے زیادہ سوچ رہے ہیں۔
چینی لیڈرشپ کےموجودہ دورے میں کسی خفیہ منصوبے یا کسی بڑے کھیل کی تلاش کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایسی قیاس آرائیاں چین کے مستحکم اسٹریٹجک وژن کو نہ سمجھنے کے مترادف ہیں۔ چین ہمیشہ سے اپنی ہمسائیگی کی ڈپلومیسی کو اہمیت دیتا رہا ہے جو انسانی ہم نصیب معاشرے کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے ہے۔ یہ ڈپلومیسی کبھی بھی دنیا میں سر اٹھانے والے کسی بھی شیطانی منصوبوں ،ان سے اٹھتے طوفانوں یا منفی رجحان سے متاثر نہیں ہوگی، نہ ہی چین کبھی چالاکی سے کام لے گا، یا علیحدگی کی دیوار کھڑی کرےگا ،یا کسی کے خلاف گروہ بندی کرے گا، یا کسی کو دباو میں لیتے ہوئے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرےگا۔
ہمسائیگی کے امور کی حالیہ مرکزی کانفرنس میں چینی قیادت نے واضح کیا کہ موجودہ دور میں چین اور اس کے پڑوسی ممالک کے تعلقات جدید تاریخ کے بہترین دور سے گزر رہے ہیں، اور ساتھ ہی یہ خطہ عالمی تبدیلیوں کے ساتھ ایک گہرے تعلق میں داخل ہو چکا ہے۔ ہمیں شی جن پھنگ کے نئے دور میں چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کے نظریات کی رہنمائی میں، پارٹی اور ملک کے مرکزی مقاصد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، داخلی اور بین الاقوامی دونوں پہلوؤں کو یکجا کرنا ہوگا، ترقی اور سلامتی دونوں کو فروغ دے کر انسانی ہم نصیب معاشرے کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے،ہمسایہ ممالک کےساتھ امن، سکون، خوشحالی، خوبصورتی اور دوستانہ تعلقات پر مشتمل “پانچ گھرانوں” کی تعمیر کے مشترکہ خواب کو حقیقت بنانا ہوگا۔پرامن ، اچھی ا ور مشترکہ خوشحالی کی سوچ کی حامل ہمسائیگی، قربت، خلوص ،رواداری اور ہم نصیب معاشرے کے تصور اور پالیسی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تعاون، کھلے پن اور رواداری کی ایشیائی اقدار کو اپنانا ہوگا۔
اعلیٰ معیار کے “بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون کو اہم پلیٹ فارم بنانا ہوگا، اور اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے مشترکہ نکات تلاش کرنے اور مکالمے پر مبنی ایشیائی سلامتی کے ماڈل کو اسٹریٹجک سہارا بنانا ہوگا، تاکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایک روشن مستقبل تعمیر کیا جا سکے۔ لہٰذا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چینی لیڈرشپ کا یہ دورہ نہ صرف دونوں اطراف کے رہنماؤں کی قیادت میں دوستانہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور انہیں بلند کرنے کا موقع ہے، بلکہ یہ ہمسایہ ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو بھی تقویت دے گا۔ “گلوبل ساؤتھ” کے عروج کے اس دور میں، چین اور یہ تینوں ممالک ترقی پذیر ہیں، جن کے ترقیاتی اہداف اور خواب ایک جیسے ہیں۔ تعاون کو گہرا کر کے تینوں ممالک ایک دوسرے کے فوائد کو یکجا کر سکتے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ایشیا کی آواز کو مزید بلند کر سکتے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی نمائندگی کو بڑھا سکتے ہیں۔
مخلصانہ اور دوستانہ ہمسایہ ڈپلومیسی کے تصور کی رہنمائی میں، چین نے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام پر یقین رکھا ہے۔ مستقبل میں بھی چین اسی تصور پر کاربند رہے گا، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایشیا کو ایک پرامن، خوشحال اور ہم آہنگ خطہ بنانے کی کوشش کرے گا، تاکہ انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے سفر میں ایشیا کا روشن باب رقم کیا جا سکے۔ اگر ہم یہ کہنا چاہیں کہ سال 2025 میں چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی کا یہ آغاز دنیا کو کیا پیغام دے رہا ہے تو یہی چند الفاظ ہوں گے کہ خود پر بھروسہ کریں، تعاون کو فروغ دیں، اورراہ راست پر کاربند رہیں۔ دیکھیں، زمین کے دوسرے سرے پر، ایک وائٹ ہاوس نامی اندھیرے کمرے میں، کوئی شخص دن رات یہ سوچ رہا ہے کہ کل دنیا کو خوفزدہ کرنے والا ایک اور بیان کیسے دیا جائے یا ایک اور اقدام کیسے اٹھایا جائے ؟
کیسے غیر یقینی چالوں سے دنیا کو گٹھنوں پر لایا جائے، تاکہ وہ اطاعت کرے۔ سچ کہوں تو، ایسے لوگ چینی دانش مندی کے سامنے قابلِ تحقیر ہیں جو منہ پر میٹھی بات، دل میں کینہ اور ظاہر ی اطاعت اور باطنی مخالفت کا رویہ رکھتے ہیں ۔ خود پر بھروسہ کر کے ایک قوم تعمیر کریں ، تعاون سے دنیا کو سنواریں اور راہ راست پر چل کر دنیا کو پرامن ،خوشحال اور ہم آہنگ بنائیں – یہی وہ قدیم ،با وقار اور سدا بہار مشرقی دانش مندی ہے جو چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی میں پوشیدہ ہے، اور یہی چینی تہذیب کی روح کی عکاسی کرتی ہے۔