شان مسعود کے ساتھ اب یہ کمپنی نہیں چلے گی!
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
تو ویسٹ انڈیز بالآخر 35 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ میچ جیت گیا، آخری مرتبہ جب ویسٹ انڈیز نے کامیابی حاصل کی تھی تو شان مسعود اور نعمان علی کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
تو پھر اس شاندار میزبانی پر ’کریڈٹ گوز تو آل دی بوائز‘ ہی ہونا چاہیے کہ ایک ایسی ٹیم سے ہم ہار گئے جس کا کوئی کھلاڑی ماضی میں پاکستان میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا اور یہاں کی کنڈیشن سے ناواقف تھا۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ فل اسٹرینٹھ ٹیم میدان میں اتار دی، یعنی ہزیمت سے بچنے کے لیے اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تو ہمارے اہم کھلاڑی ٹیم میں نہیں تھے۔
سیریز جیتنے کے لیے ہم اتنے بے تاب تھے کہ پہلے ہی دن وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار بنادی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 1910 کے بعد 3 ایسے ٹیسٹ میچ کھیلے گئے جن میں بولنگ کا آغاز اسپنرز نے کیا اور یہ تینوں پاکستان میں کھیلے گئے۔ ایک انگلینڈ کے خلاف اور 2 ویسٹ انڈیز کے خلاف۔
یعنی ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرلیے کہ کسی طرح کامیابیاں سمیٹ لیں مگر ایک سیریز جیتنے کے بعد اگلی برابر ہوگئی۔ اب آگے ہمارے کرتا دھرتا کیا حکمت عملی بناتے ہیں اس کا انتظار دلچسپ ہوگیا ہے۔
عاقب جاوید نے شاید ٹھیک ہی سوچا ہوگا کہ یار اپنے کھلاڑیوں کو فائدہ دینے کے لیے وکٹیں بناتے ہیں مگر شاید وہ اپنے بلے بازوں کو بھول گئے۔ شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ اگر ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین ناکام رہیں گے تو اپنوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں؟
بلے بازوں کی ناکامی پر تو بات ہوتی ہی رہتی ہے مگر شاید اب کپتان کے کردار پر بھی بات کرلینی چاہیے۔ بطور کپتان شان مسعود کی یہ 5ویں سیریز تھی۔ ابتدائی 2 بہت مشکل یعنی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں تھیں جہاں ہارنا ہماری روایت ہے اور ناجانے یہ روایت کون توڑے گا، توڑے گا بھی یا نہیں، اس بارے میں بھی کچھ یقینی نہیں۔
لیکن اگلی 3 سیریز پاکستان میں کھیلی گئیں۔ سب سے پہلا جھٹکا ہمیں اس وقت لگا جب بنگلہ دیش نے ہمیں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کیا، حالانکہ اس سے قبل بنگلہ دیشی ٹیم ہمارے خلاف کوئی ایک میچ بھی نہیں جیت سکی تھی۔
پھر ٹیم انتظامیہ میں تبدیلی ہوئی اور عاقب جاوید نے آتے ہی وکٹوں میں تبدیلی کا فیصلہ کیا جس کے بعد ہم نے انگلیںڈ کو سیریز میں شکست دی۔ اس کامیابی کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ویسٹ انڈیز کو ہرانا تو کوئی مشکل نہیں ہوگا اور پہلا میچ جیتنے کے بعد یہ بات یقینی بھی ہوگئی تھی مگر دوسرے میچ میں سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
دوسرے میچ میں کپتانی کا کردار کس قدر بھیانک تھا اسے سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ پہلی اننگز میں ہمارے بولرز نے محض 54 رنز پرمہمان ٹیم کے 8 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج دیا تھا، مگر آخری 2 بلے بازوں نے اسکور کو 163 رنز تک پہنچا دیا۔
اب آپ یوٹیوب پر جائیے اور اس موقعے پر شان مسعود کی کپتانی دیکھیے کہ کس طرح رنز کے انبار لگوادیے۔ شان مسعود نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس کپتان والا دماغ نہیں، وہ اچھا بول سکتے ہیں، presentable ہوسکتے ہیں مگر قومی ٹیم کی قیادت کے اہل نہیں۔ جس طرح بابر اعظم کے بارے میں یہ رائے ٹھیک ثابت ہوئی کہ وہ بلے باز تو اچھے ہوسکتے ہیں مگر کپتان نہیں بالکل یہی بات اب شان مسعود کے اوپر بھی لاگو ہوتی ہے۔
اس پورے سلسلے میں ایک اور بُری خبر یہ بھی سن لیجیے کہ اب تک 3 ٹیسٹ چیمیئن شپ منعقد ہوچکی ہیں، 2019 سے 2021 تک، 2021 سے 2023 تک اور پھر 2023 سے 2025 تک۔ فائنل تو دُور کی بات ہم ہر گزرتے سال کے ساتھ نیچے گر رہے ہیں۔ پہلی چیمپیئن شپ میں ہمارا نمبر 5واں تھا، پھر ہم 7ویں تک آئے اور اس بار ہمارا نمبر 9واں ہوچکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ ہم نیچے گر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ پلیئنگ نیشن سے ہی ہم باہر ہوجائیں، اس لیے خبردار ہونا بنتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیسے اور ٹیم کے نتائج کو بہتر کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ سوال اچھا ہے مگر ایک اور اچھا پہلو یہ ہے کہ اگلے کچھ عرصے تک پاکستان کو ٹیسٹ میچ نہیں کھیلنا، اس لیے اگلا کپتان کس کو ہونا چاہیے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ سودمند نہیں ہوگا۔ ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ چونکہ محمد رضوان ایک روزہ اور ٹی20 ٹیم میں قیادت کررہے ہیں اس لیے ان پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے سعود شکیل پر غور کیا جاسکتا ہے، مگر بات وہی ہے کہ ابھی کوئی بھی فیصلہ جلد بازی تصور ہوگا لیکن یہ بات بہرحال اب ناگزیر ہوچکی ہے کہ شان مسعود کے ساتھ یہ کمپنی نہیں چل سکے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فہیم پٹیلگزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں ویسٹ انڈیز ٹیسٹ میچ کے ساتھ کے بعد ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘
ہم عرصہ دراز سے انقلاب، انقلاب اور انقلاب یا یوں کہہ لیں کہ بچپن سے لے کر آج بڑھاپے کی عمر کو آنے تک کی باتیں سن رہے ہیں۔ آخر یہ انقلاب ہے کس چیز کا نام۔ نہ ہم نے کبھی پاکستان میں انقلاب کا درشن کیا اور نہ انقلاب نے پاکستان کی کبھی راہ دیکھی۔ اکثر سنتے ہیں کہ انقلاب آ گیا، کہاں آ گیا یہ انقلاب ہمیں بھی تو دکھائو، اس انقلاب کی شکل دکھائو۔ کیسی ہوتی ہے۔ اب یہاں دوسرے ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کی بات نہ کر دیں ہم تو کئی عشروں سے یہی سن رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا اب یہ دونوں استحکام لانے میں انہی کی ذمہ داری ہے جو بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور وہی دونوں کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں سسٹم میں اس وقت استحکام کی امید پیدا کی جا سکتی ہے جب تک آپ اس ملک کی 65فیصد یوتھ کو ایجوکیشن یا روزگار کی طرف نہیں لائیں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دور جدید میں نوجوان ہی انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں اور جتنی ایسے انقلابات کی ضرورت آج پاکستان کو ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی کہ انقلاب کی پکار بھی ہمیشہ نوجوانوں ہی سے اٹھتی ہے۔ البتہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا جب فوجی انقلاب برپا ہوتے تھے، اب وہ دور گئے۔ دیکھا جائے تو اگر روز اوّل ہی سے جب ہم آزاد ہوئے تھے اس زمانے سے اگر نوجوانوں کے لئے ایسی پالیسیز بنا دی جاتیں یا ملکی ترقی میں ان کے کردار کو بھی رکھا جاتا تو آج ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام دونوں کبھی خطرے میں نہ پڑتے۔ یہاں کوئی ہے جو میرے ان سوالات کا جواب دے کہ ہماری ہی پاک دھرتی کیوں دہشت گردی کا شکار بنائی گئی اور اس سفاک دہشت گردی کرنے والوں نے 70ہزار بے گناہوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت اور ماحول کس نے بنائے۔ کوئی اس سوال کا جواب تو دے کہ آج پھر اپنی پیاس بجھانے کے لیے مذاکرات کی آڑ میں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا یہ عمل نہ جانے ہمیں کب اور کہاں تک لے جائے؟ ہے کسی کے پاس اس کا جواب کہ ایسے حالات میں ہماری بحیثیت قوم ذمہ داریاں کیا ہیں۔ حکومت وقت گو ان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے مگر ہم کب تک اس سے چھٹکارا پائیں گے؟کب ہماری نسلیں لفظ دہشت گرد کو بھول پائیں گی؟
اکثر حلقوں میں ہم ایسے ہی انقلاب کی باتیں سنتے ہیں کہ وہ آگے آئیں کہ اگر وہ آ جائے تو قوم سدھر جائے گی۔ میرا یہ سوال ایک محب الوطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان نوجوانوں کے ساتھ بھی ہے جو پاکستان میں بہتری ، آسودگی ، معیشت ، سوسائٹی ، اچھے معاشرے اور سسٹم کا انقلاب برپا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کیسے اور کب آگے آئیں گے گو ہمارے نوجوان تو قدم بڑھانے کو تو تیار ہیں مگر ان کی راہنمائی کون کرے گا یہ بات ان کے علم میں نہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی جاننا ہوگی کہ قائداعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ جتنی ناانصافی ہو چکی اس کی بھی ایک حد تھی جو ہم نے اپنی انائوں میں ڈبو دی۔ اب ہماری انہی نوجوان نسلوں کا ایک فرض تو بنتا ہے کہ وہ استحکام اور عزم صمیم کو اپنی فطرت بناتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھیں جس سے کم از کم آنے والی نسلوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ 1947ء میں قائداعظمؒ نے قوم کی تشکیل اور آزادی کی خاطر ہزاروں انسانوں کی قربانیاں صرف آزادی انقلاب کے نام دیں۔ اگر ہمیں صرف معاشی اور سیاسی استحکام ہی کی طرف جانا ہے تو پھر آج کے نوجوانوں کو عمرانڈو سیاست سے نکالنا ضروری ہے کہ اس کے جو غلط ذہن سازی کی جس سے نوجوان تو تباہ ہوا سو ہوا اس سے ہماری نسلیں بری طرح سے متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملکی مسائل میں نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلے تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔
یہ ہم سب کا پاکستان اور اسے انہی نوجوان نسلوں نے بچانا ہے اسی کے لئے ہم کئی عشروں سے لڑ رہے ہیں مگر بے سود کہ ہمیں اچھی لیڈرشپ ہی نہیں ملی۔ انقلاب، قتل و غارت اور آتش زنی یا سفاکانہ مہم کا نام نہیں۔ یہ اِدھر اُدھر چند بم پھینکنے ، گولیاں چلانے نیز 9مئی کی طرح تہذیبی اور عسکری نشانیوں کو تباہ کرنے اور مساوات اور انصاف کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نام نہیں، قوموں میں آنے والے انقلاب مایوسی کا فلسفہ، نہ مایوس کن لوگوں کا عقیدہ۔ انقلاب ’’خدا شکن تو ہو سکتا ہے انسان شکن نہیں، ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی انقلاب کے بغیر اتحاد ہم آہنگی اور توازن کا وجود ممکن نہیں ہوتا پھر بقول ارسطو انقلاب قانون ہے، انقلاب تربیت ہے۔ انقلاب سچائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم آج ہماری قوم کے نو جوانوں کو اس حقیقت کا احساس ہو چکا ہے کہ آنے والا کل انہی نوجوان نسلوں کا ہے اور نوجوان غیر ذمہ دار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان سے زیادہ بہتر اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں۔ ان کے لئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ہمارے سرگرم اور طاقتور نظریات ہی ہمیں بہت آگے لے جانے اور بڑی قوم بنانے کے لئے کافی ہیں۔