سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد : اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر فیصل سلیم رحمان کی سربراہی میں ہوا، جس میں مختلف ارکان نے اس بل پر گفتگو کی۔
جے یو آئی کے رہنما کامران مرتضیٰ نے اس بل کی مخالفت کی، جبکہ سیکرٹری داخلہ نے پیکا قانون میں کی جانے والی ترامیم کو عوام کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترامیم قانون کے بہتر نفاذ کے لیے لائی گئی ہیں اور قومی اسمبلی کی منظور شدہ ترامیم کو ہی منظور کیا جائے گا۔
صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے آزادی اظہار اور صحافت کو نقصان پہنچے گا۔ کمیٹی کے چیئرمین نے صحافتی تنظیموں کو تحریری سفارشات پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیا، مگر صحافتی تنظیموں نے کمیٹی میں تحریری سفارشات نہیں دیں۔
عرفان صدیقی نے اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خود کرایہ داری کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اور اس حوالے سے بھی قانونی ترامیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز
بھارت میں مسلم مخالف وقف بل کی منظوری کے بعد مغربی بنگال شدید احتجاج اور کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر بل کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس کے دوران مرشد آباد میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 150 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
پرتشدد مظاہروں کو روکنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
بی جے پی حکومت مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ جیوتیرمے سنگھ مہتو نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ متنازع قانون فورسز کو بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور فائرنگ جیسے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔
“کالا قانون” قرار دیے جانے والے اے ایف ایس پی اے کے اطلاق سے ریاست میں مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ناقدین نے اس اقدام کو بی جے پی کی جانب سے مغربی بنگال کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر ان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہتی ہے۔ کیا مذہبی شناخت بھارت میں جرم بن چکی ہے؟ کیا مغربی بنگال میں بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوالات اب بھارت کے جمہوری چہرے پر سنگین دھبے بن کر ابھر رہے ہیں۔