ٹرمپ کا امریکا، مستقبل کیسا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری 20 جنوری 2025 کو ایک تاریخی لمحہ تھا، جس میں کئی عالمی رہنما، سیاستدان اور کاروباری شخصیات شریک ہوئیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والی اہم عالمی شخصیات میں ارجنٹینا کے صدر خاویر، ایکواڈور کے صدر اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شامل تھے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کے خصوصی مندوب کے طور پر موجود تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنا نمائندہ تقریب کے لیے واشنگٹن روانہ کیا۔ پاکستان کی نمائندگی سفیرِ پاکستان رضوان سعید شیخ نے کی۔
تقریب میں سابق امریکی صدور جیسے بل کلنٹن، جارج بش اور بارک اوباما بھی موجود تھے، جو امریکی سیاسی تسلسل کی علامت تھے۔ کاروباری شخصیات میں ایلون مسک، جیف بیزوس، مارک زکربرگ، ٹم کک اور برنارڈ آرنالٹ نے شرکت کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عالمی اقتصادی برادری کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز میں جو اقدام اٹھایا، وہ بائیڈن حکومت کے 78 حکم ناموں کو منسوخ کرنا تھا، جس سے ان کی سیاست میں مستقل مزاجی اور واضح سمت نظر آتی ہے۔ ان میں ٹک ٹاک پر پابندی کا حکم نامہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل فسادات میں اپنے پندرہ سو حامیوں کو بھی معافی دی، جو شاید یہ ظاہر کرنے کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے اور یہی وجہ ہے کہ اتنے سخت گیر موقف کے باوجود امریکی عوام نے انہیں دوبارہ صدارت کی کرسی پر بٹھایا۔
ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے بائیڈن کے حکومتی فیصلوں کو فوری طور پر چیلنج کیا، خصوصاً وہ فیصلے جو امریکی معیشت، ماحولیاتی پالیسی اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں اہم تبدیلیوں کا سبب بنے تھے۔
اس فیصلے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ٹرمپ امریکی عوام کے مفادات کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں اور وہ بائیڈن کی انتظامیہ کی پالیسیوں کو محض اس لیے مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے خیال میں امریکی مفادات کے خلاف ہیں۔ یہ عمل ٹرمپ کے سخت اور منظم اندازِ حکومت کو مزید اجاگر کرتا ہے، جو انہیں اپنے حامیوں کے درمیان ایک مضبوط اور واضح رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی پوری دنیا میں ٹرمپ کی سوچ کی نوید سنائی دینے لگی ہے۔ اس کا سب سے پہلا ثبوت افغانستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی واضح پالیسی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی افغانستان کے حوالے سے سخت اور واضح نظر آتی ہے، جس میں امداد کی فراہمی کو افغانستان کی جانب سے اسلحے کی واپسی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
یہ موقف ان کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کے عین مطابق ہے، جو کہ امریکی مفادات کو ترجیح دینے پر مرکوز ہے۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ افغانستان میں جاری جنگی صورت حال اور اسلحے کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے ایک سخت اقدام کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا مقصد افغان حکومت کو عالمی دباؤ کے تحت دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کی ترغیب دینا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بھی جائزہ لیں تو ڈونلڈ ٹرمپ جارحانہ انداز ہی اپنائے رکھیں گے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ پاکستانی حکومت پر آنے والے دنوں میں ہمیں ٹرمپ انتظامیہ کا بڑھتا ہوا دباؤ بھی نظر آئے۔ بانی پی ٹی آئی اس بات کی امید لیے بیٹھے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ان کے دوست موجود ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن حقیقت میں ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ٹرمپ پاکستان کے سیاسی معاملات سے زیادہ امریکی مفادات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل بھی بائیڈن جاتے جاتے مسترد کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی حوصلہ افزا بات ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس پر مستزاد یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ پاکستان کے معاملات کافی کے ایک کپ کی وجہ سے امید تھی کہ بہتر ہوں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اور افغانستان کے ساتھ معاملات غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ دراندازی بڑھ رہی ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ کہ کرم مسئلے کے حوالے سے شنید یہی ہے کہ اس کو سپورٹ شاید سرحد پار سے ہی مل رہی ہے۔ ایسے حالات میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کے حوالے سے کوئی ایسا غیر متوقع فیصلہ کرتے دکھائی نہیں دے رہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو۔ اس لیے اس حوالے سے پاکستان کے لیے فی الحال کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
ٹرمپ کا انتقامی مزاج نہ صرف عالمی دنیا میں اثرات مرتب کرنے جا رہا ہے بلکہ خود امریکا میں بھی اس کے اثرات دکھائی دینا شروع ہوچکے ہیں۔ اپنے 1500 حامیوں کے لیے صدارتی معافی اس کی واضح مثال ہے۔ دو پولیس اہلکاروں کی معافی بھی ایک واضح مثال ہے کہ ڈونلڈ جے ٹرمپ امریکا میں غیر روایتی اندازِ سیاست اپناتے ہوئے نہ صرف اپنے مخالفین کو سوچنے پر مجبور کریں گے کہ ان کا مقابلہ وہ کیسے کریں بلکہ ان کے حامی بھی مضبوط ہوں گے کہ ٹرمپ انہیں تنہا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
عالمی سطح پر غزہ کے معاملات کا کریڈٹ خود لینے کے بعد اگلا کریڈٹ وہ یوکرین جنگ کا بھی لیں گے جس کا وہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نہ صرف روس کے صدر سے ملاقات کریں گے بلکہ یوکرین جنگ کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے۔
بائیڈن انتظامیہ بیشک مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کے دوران ڈیڑھ سال جاری رہنے والی حالیہ لڑائی میں 45 ہزار فلسطینیوں کے جان سے جانے کے بعد ہونے والی جنگ بندی کا کریڈٹ تو لیتی ہے لیکن ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ ان کے دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور اب ابراہم اکارڈ میں ان کی دلچسپی یقینی طور پر خطے کی صورتحال کو ایک نیا رنگ دے سکتی ہے۔
تمام آراء اس بات پر متفق ہو جاتی ہیں کہ نئے امریکی صدر مزاج میں یکسر سیاسی انداز سے دور ہیں۔ اور ان کا بے باک لہجہ ہی ہے جو ان کو ایک نمایاں شخصیت بناتا ہے۔ لیکن جتنے بھی اندازے لگا لیے جائیں، امریکی عوام کے لیے وہی قابل قبول ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی بھی صورت وہ دوبارہ وائٹ ہاؤس نہ پہنچ پاتے۔
مستقبل کا منظر نامہ جو بھی ہو، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ امریکی شہریت کے حوالے سے سخت موقف، پیدائش پر شہریت کے حق کی مخالفت، تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں انہیں واپس بھیجنے کے حوالے سے ٹھوس لہجہ، اور امریکا کا عالمی ادارہ صحت سے الگ ہونا، سب اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امریکا ایک نئی صبح دیکھنے جا رہا ہے۔ اب یہ صبح مثبت انداز میں ہوگی یا منفی انداز میں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی مفادات افغانستان کے کے حوالے سے پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کی کہ ٹرمپ کے ساتھ ہیں کہ اس بات کے لیے کے صدر
پڑھیں:
مودی کا ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد
مودی کا ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز
نئی دہلی (آئی پی ایس )بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نریندر مودی کا کہنا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے بات چیت کی ہے، امریکا کے ساتھ باہمی مفاد اور بھروسہ مند شراکت داری کے لیے پرعزم ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک مل کر عوامی فلاح کیلیے کام کریں گے۔نریندر مودی کے مطابق امریکا اور بھارت مشترکہ طور پر عالمی امن و سلامتی اور خوشحالی کیلییکام کریں گے۔ نریندر مودی نے کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کو دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔