اساتذہ کا احتجاج، سندھ کی جامعات میں دو دن تک تدریسی عمل معطل رکھنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اساتذہ اور اکیڈمیا سے متعلق وزیر اعلی سندھ کے ریمارکس کے بعددیڈلاک مزید شدت اختیار کرگیا۔سندھ کی سرکاری جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم فپواسا نے جامعات میں مزید دو روز کلاسز کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ سندھ کی سرکاری جامعات میں جاری بحران کے حل اور آئندہ اقدامات پر غور کیلئے اتوار کو فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (FAPUASA) کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔فپواسا نے یونیورسٹیز میں اکیڈمیا بحران کا ذمہ دار حکومت سندھ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کے عہدے پر بیورو کریٹس کی تعیناتی اور اساتذہ کی کنٹریکٹ پر تقرریوں کے خلاف یونیورسٹیز کے اساتذہ منگل کو کراچی پریس کلب پر جمع ہونگے جبکہ کلاسز کا بائیکاٹ پیر اور منگل کو بھی جاری رہے گا، تمام جامعات میں اساتذہ کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔فپواسا کے سیکریٹری عبدالرحمن ناگراج کے جاری کردہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ اجلاس میں تفصیلی مشاورت کے بعد شرکا نے جو قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں اس کے مطابق فپواسا سندھ حکومت کو سرکاری جامعات میں جاری بحران کا براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے ۔ حکومت کے غیرسنجیدہ اور متکبرانہ رویے نے بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے ، حکومت کے اشتعال انگیز رویے کی وجہ سے اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔اعلامیہ کے مطابق منگل 28 جنوری کو سندھ کی تمام سرکاری جامعات کی اساتذہ کی تنظیمیں کراچی پریس کلب پر بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گی، فپواسا سندھ چیپٹر دیگر تنظیموں سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (سپلا)، کراچی بار ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی گروپس کو بھی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاکہ تدریسی برادری کے مطالبات کی حمایت کی جا سکے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: سرکاری جامعات جامعات میں اساتذہ کی سندھ کی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ سندھ کا وڈیرانہ لب و لہجہ پست ذہنی سطح کا اظہار ہے، منعم ظفر خان
کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے وزیر اعلیٰ سندھ کے صوبے کی سرکاری جامعات اور وائس چانسلرز کے بارے میں ریمارکس کے حوالے سے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے تعلیم سے وابستہ معزز شخصیات کے بارے میں وڈیرانہ لب و لہجہ اختیار کر کے تعلیم سے وابستہ شخصیات کے حوالے سے اپنی پست ذہنی سطح کا اظہار کر دیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اصل مسئلہ جامعات کی خودمختاری کو ہدف بنا کر اپناتابع کرنا اور اساتذہ کی مستقل تقرری کے بجائے انہیں کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا ہے اور جامعات میں تسلیم سے وابستہ سینئر اساتذہ، وائس چانسلرز کو مقرر کرنے کے بجائے بیورو کریٹ کو تعینات کرنا ہے جب کہ یہ بات ہر محقیق اچھی طرح جانتا ہے کہ بیورو کریٹس نے پاکستان کے دیگر شعبوں کا کیا حال کیا ہے، ان کی کارکردگی کی مثالیں ہر تھوڑے عرصے کے بعد دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ اس ساری حقیقت کے سامنے ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ، بیورو کریٹس کو سرکاری جامعات کا وائس چانسلربنانے پر مصر ہیں۔ اس کے لیے طویل عرصے سے کوششیں جاری ہیں اور اب وزیر اعلیٰ کے گفتگو سے ساری حقیقت کھل کر بھی سامنے آگئی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر ایک علمی مقام و مرتبے کا نام ہے، کراچی یونیورسٹی سمیت صوبے کی دیگر جامعات میں ایسے وائس چانسلرز گزرے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی جامعہ کے شناخت اور کارکردگی کو معتبر بنایا بلکہ انہوں نے ہی علم و تدریس کے نئے پہلوؤں کو نمایاں کیا لیکن وزیر اعلیٰ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے لاکھوں طلبہ وطالبات کے ان وائس چانسلرز کی خدمات کو سرے سے نظر انداز کر کے گنتی کے چند افراد کو بطور مثال پیش کیاحالانکہ وہ بھول گئے کہ ایسے تمام افراد اپنے جیسوں کے منظور ِ نظر اور سفارشی طور پر بھرتی کیے گئے تھے، جس سے ان کے تقابلی معیار کا بخوبی انداز کیا جا سکتا ہے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ سرکاری ِ جامعات کے حوالے سے جماعت اسلامی اساتذہ اور طلبہ کی تحریک کی مکمل پشتیبان ہے، اس حوالے سے ہم ان کے مطالبات کی منظوری تک ان کی جدو جہد میں شریک رہیں گے۔