لبنان میں 18 فروری تک عارضی امن برقرار
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
گزشتہ شب لبنان کی وزارت صحت نے ایک ابتدائی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جارحیت اور فائرنگ کے نتیجے میں ملک کے جنوب میں 22 لبنانی شہید اور 124 افراد زخمی ہوئے جن میں 9 بچے اور ایک امدادی کارکن شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میقاتی کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ 18 فروری 2025 تک برقرار رہے گا۔ فارس نیوز کے مطابق، یہ فیصلہ لبنانی صدر جوزف عون، پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری اور امریکی فریق کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔ لبنان کے وزیر اعظم کے دفتر نے زور دیا کہ جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی اس معاہدے کی تمام شقوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ لبنانی حکومت نے جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد، جو اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کی نگرانی کر رہی ہے، لبنان کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ پر زور دیا ہے اور اس جنگ بندی کے معاہدے پر 18 فروری 2025 تک عمل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کمیٹی جنگ بندی کے تمام نکات پر عمل درآمد اور قرارداد 1701 کی تکمیل کی نگرانی جاری رکھے گی۔
وزیر اعظم میقاتی کے دفتر نے مزید کہا کہ لبنانی حکومت کی درخواست پر، امریکہ ان لبنانی قیدیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات شروع کرے گا جو 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی قید میں چلے گئے تھے۔ اتوار کی شام، جب جنگ بندی کی 60 دن کی مدت ختم ہونے والی تھی اور اسرائیلی افواج لبنانی پناہ گزینوں پر حملے کر رہی تھیں جو اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی 18 فروری تک بڑھا دی گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ لبنان، اسرائیل اور امریکہ نے ان لبنانی قیدیوں کی واپسی پر بات چیت شروع کر دی ہے جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کے ہاتھوں قید ہوئے تھے۔ گزشتہ روز صبح 4 بجے، اسرائیل کے لیے لبنان سے پیچھے ہٹنے کی 60 دن کی مہلت ختم ہو گئی، تاہم اسرائیلی فوج اب بھی جنوبی لبنان کے کچھ علاقوں پر قابض ہے۔ اس دوران، سرحدی دیہاتوں اور شہروں کے لبنانی باشندے اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن صہیونی فوجیوں نے ان پر فائرنگ کی۔
اس کے جواب میں، لبنان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں ان لبنانی شہریوں پر اسرائیلی فوج کے حملے کی شدید مذمت کی جو اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ وزارت نے جنگ بندی کی نگرانی کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے اور جلد از جلد لبنانی سرزمین سے نکل جائے۔ گزشتہ شب لبنان کی وزارت صحت نے ایک ابتدائی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جارحیت اور فائرنگ کے نتیجے میں ملک کے جنوب میں 22 لبنانی شہید اور 124 افراد زخمی ہوئے جن میں 9 بچے اور ایک امدادی کارکن شامل ہیں۔
لبنان کے صدارتی دفتر نے بھی اطلاع دی ہے کہ صدر جوزف عون اندرونی اور بیرونی رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اسرائیلی فوجیوں کی لبنانی دیہاتوں سے مکمل واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی دوران، حزب اللہ لبنان نے اتوار کی شب ایک بیان میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو جنوبی لبنان سے انخلا پر مجبور کرے۔ حزب اللہ نے کہا کہ لبنان کی سرزمین میں قابض افواج کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور فوج، عوام، مزاحمت کا توازن ملک کو دشمنوں کی چالوں سے محفوظ رکھے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج ایک بیان میں کی نگرانی کر جنگ بندی کی اعلان کیا کہ لبنان لبنان کی لبنان کے دفتر نے نے ایک کے بعد
پڑھیں:
دہشت گردی کا خطرہ: ڈنمارک کی طرف سے جرمنی کے ساتھ سرحدی نگرانی میں توسیع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) کوپن ہیگن سے ہفتہ 12 اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ڈینش وزارت انصاف کی طرف سے جرمنی کے ساتھ بارڈر پر کنٹرول کی مدت میں ایک بار پھر چھ ماہ کی توسیع کے اعلان کرتے ہوئے جمعہ 11 اپریل کی رات اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اسکینڈے نیویا کی اس بادشاہت کو ابھی تک دہشت گردی کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔
وجہ مشرق وسطیٰ کا خونریز تنازعوزارت انصاف کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ڈنمارک کو مسلم عسکریت پسندوں کی طرف سے درپیش دہشت گردی کے اس 'سنجیدہ خطرے‘ کا تعلق مشر ق وسطیٰ میں پائے جانے والے موجودہ خونریز تنازعے سے ہے۔
یورپ کو زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے، وزیراعظم ڈنمارک
ڈینش وزیر انصاف پیٹر ہُمل گارڈ نے ایک بیان میں کہا، ''ڈنمارک کے خلاف دہشت گردی کا خطرہ ابھی تک بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
(جاری ہے)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں آئندہ بھی بڑی احتیاط سے اس امر پر نظر رکھنا ہو گی کہ ہماری قومی سرحدیں پار کر کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت کس کو دی جاتی ہے اور کس کو نہیں۔‘‘ڈنمارک کی سرحد کینیڈا سے جا ملی، ’وہسکی جنگ‘ بالآخر ختم
کوپن ہیگن حکومت کے مطابق ڈنمارک کی قومی سرحدوں پر عبوری نوعیت کے نگرانی کے عمل کو جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ملکی پولیس کے لیے 'سرحد پار سے دہشت گردی اور جرائم‘ کے خلاف کامیابی سے لڑنے کا امکان باقی رہے۔
‘‘ ڈینش سرحدوں کی نگرانی پہلی بار 2016ء میںیورپی یونین کے شینگن زون میں شامل ڈنمارک نے اپنی قومی سرحدوں کی دوبارہ نگرانی کا عمل 2016ء کے اوائل میں اس وقت محدود عرصے کے لیے شروع کیا تھا، جب یورپی یونین میں لاکھوں تارکین وطن کی آمد کے ساتھ مہاجرین کا بحران پیدا ہوا تھا۔
ڈنمارک کا ایک بلین درخت لگانے اور دس فیصد زرعی زمین کو جنگلات میں بدلنے کا تاریخی منصوبہ
تب سے لے کر اب تک اس بارڈر کنٹرول کی مدت میں متعدد مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر توسیع کی جاتی رہی ہے۔
تاہم اس عرصے کے دوران اس نگرانی میں کبھی مقابلتاﹰ کچھ نرمی اور کبھی دوبارہ سختی بھی کی جاتی رہی۔اپریل 2023ء میں کوپن ہیگن حکومت نے اس سرحدی نگرانی میں زیادہ توجہ جرائم کی روک تھام پر دینا شروع کر دی تھی۔
ڈنمارک نے جنوبی کوریائی نوڈلز پر پابندی کیوں لگائی؟
اسی لیے تب بڑی تعداد میں ڈینش پولیس اہلکار صرف ہمسایہ ممالک کے ساتھ باقاعدہ سرحدی گزرگاہوں پر تعینات کرنے کے بجائے بین الاقوامی سرحدوں کے قریبی ڈینش علاقوں میں تعینات کرنا شروع کر دیے گئے تھے۔
ملکی وزارت انصاف کے مطابق اس اقدام کا ایک واضح طور پر مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اس شمالی یورپی ملک میں سرحد پار کر کے کیے جانے والے جرائم کی شرح بہت کم ہو گئی۔
ادارت: امتیاز احمد