مقامی حکومتیں کیوں ضروری ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہر دور میں حکمران طبقہ نے ملک و قوم کو پس پشت ڈال کر ذاتی،سیاسی،گروہی مفادات کو اہمیت دی،اپنی ذات،پارٹی کو ملک و قوم پر مقدم جانا،ہر کوئی اخبارات میں شہ سرخی بننے اور اپنی ذات کو اجاگر کرنے کی تگ و دو میں مبتلا رہا،بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے اور مرحومہ والدہ بارے مضمون نصاب میں شامل کرایا ہے،یہ کام دراصل مورخین کا ہے کہ وہ کس حکمران کو مسیحا جان کر اس کے کارناموں سے قوم کو آگہی دیں،خود سے ایسی کوشش کو ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے کے سوا کچھ نام نہیں دیا جا سکتا،اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ ملک کے کسی صوبہ میں بلدیاتی نظام کی بنیاد مضبوط نہیں ہو سکی،پنجاب جہاں کبھی پنچائتی نظام کے تحت مقامی سطح پر بہت سے معاملات کا تصفیہ کرا دیا جاتا تھا آج بلدیاتی نظام سے محروم ہے،جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش ہی تیز رفتار ترقی اور کرپشن کی راہیں مسدود کرنے کی ضامن ہے۔
ایوب خان نے بی ڈی سسٹم کے تحت بلدیاتی نظام اپنایا مقصد خود کو اکثریت سے صدر مملکت منتخب کرانا تھا،ضیاالحق نے مئیر سسٹم اپنایا اور نچلی سطح تک عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی،مقصد تا عمر صدرمنتخب ہونا تھا،تاہم ضیاالحق کے بعد بلدیاتی نظام کچھ عرصہ کیلئے چلتا رہا ،مگر بعد ازاں آنے والی جمہوری حکومتوں نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں کوئی دلچسپی نہ لی،پرویز مشرف نے ضلعی حکومت کا نظام اپنایا مگر بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے اس نظام کو مسترد کر دیا مگر کوئی اور نیا نظام مرتب کرنے کیلئے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی،بلدیاتی ادارے محکوم بنا دئیے گئے ،نچلی سطح پر بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب سے ارکان اسمبلی کی اپنے حلقوں میں ’’ظل الٰہی‘‘بننے کی خواہش کو گزند پہنچی جس کے بعد اول تو ان اداروں کو بے اختیار رکھا گیا اور بالاخر الیکشن ہی نہ کرائے گئے،بلدیاتی اداروں کے آخری الیکشن سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے مگر بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز تو درکنار دفاتر بھی نہ دئیے گئے،نتیجے میں بلدیاتی ادارے بے وقعت ہو گئے اور عوامی مسائل و مشکلات کے حل میں معاون ثابت نہ ہو سکے۔
ہر حکومت نے بلدیاتی نظام میں اپنے مفاد کے تحت ترامیم کر کے نیا نظام متعارف کرانے کی کوشش کی،پنجاب کا پیش کردہ بلدیاتی نظام 2013ء مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانے ، لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے اور حکمرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کے عمل کی نفی کرتا ہے ،جبکہ دنیا میں موثر حکمرانی کا دارو مدار نچلی سطح تک زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی اور مضبوط مقامی نظام حکومت پر ہے ،اسی تناظر میں دنیا کے بیشتر ممالک حکمرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کی طرف گامزن ہیں ، جبکہ ہم ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے انہی غلطیوں کو دہراکرمسائل میں اضافہ کرتے جاتے ہیں ،مسلم لیگ( ن)کی حکومت نے پنجاب میں مقامی حکومتوں سے متعلق ’’ نیا بلدیاتی ایکٹ2013ئ‘‘کابینہ سے منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں پیش کرکے منظوری حاصل کی مگر اس کے بعد چاروں جانب خاموشی ہے، اس نئے نظام کو2013ء کا نام دیا گیا ہے ، لیکن عملی طور پر یہ 1979ء کے بلدیاتی نظام سے مماثل ہے ،یہ نظام مقامی حکومتوں کی بجائے بلدیاتی اداروں کو فوقیت دیتا ہے، بلدیاتی اداروں میں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں سیاسی، انتظامی ا و رمالی اختیارات ضلعی سطح کی بجائے صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں ، جس سے اس نظام کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے ،پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا مجوزہ نظام 1973ء کے دستور کی شق 140-Aکے بھی خلاف اور متصادم ہے ،کیونکہ آئین کی شق 140-Aکے تحت ’’ تمام صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنا تے ہوئے سیاسی، انتظامی او ر مالی اختیارات کو عوام کے منتخب مقامی نمائندوں کو منتقل کریں گے‘‘اسی طرح آئین کی شق 32کے تحت ریاست پابند ہے کہ مقامی حکومتوں کے اداروں کو منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائیں اور ان میں بالخصوص کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں اور عورتوں کی نمائندگی کو یقینی بنائیں، 15مئی 2006ء کومیثاق جمہوریت جیسے سیاسی معاہدے میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی نے مقامی حکومتوں کے نظام پر جو اتفاق کیا تھا ، وہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ میشاق جمہوریت کی شق 10میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد’’مقامی حکومتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرکے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان اداروں کو مکمل طور پر خود مختاری دی جائیگی‘‘ اب پنجاب میں جو نظام سامنے لایا جارہا ہے وہ 1973ء کے آئین سمیت میثاق جمہوریت میں کی گئی سیاسی و قانونی کمٹمنٹ کے برعکس ہے۔
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یونین اور وارڈ کی سطح پر کونسلرز کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے ، جبکہ تحصیل، ٹائون، میونسپل کمیٹی، ضلع کونسل کا چیئرمین، لارڈ میئر،میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا،جمہوری قوتوں کا جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے گریز عملی طور پراپنے ہی طے کردہ اصولوں کے خلاف غیر جمہوری فیصلہ ہے ، غیر جماعتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں برادری یا دھڑے بندی کی سیاست کو تقویت حاصل ہوتی ہے ، میئر، لارڈ میئر صوبائی حکومت یا وزیر اعلیٰ کے دبائو میں رہیں گے،مقامی نظام حکومت کو مضبوط نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی بجٹ ہے، اصولی طورپر یہ بجٹ مقامی حکومتوں کے تحت خرچ ہونے چاہئیں، لیکن قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی توجہ بھی ترقیاتی بجٹ اور وسائل پر ہوتی ہے ، چنانچہ صوبائی او رمقامی حکومتوں کے درمیان ٹکرائو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ارکان اسمبلی اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
لوکل گورنمنٹ کا ادارہ جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے،بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں عوامی مسائل و مشکلات کا عوامی امنگوں کے مطابق حل ممکن ہے نہ ہی عوام کو ریلیف دینا ممکن ہے،ہمارے ہاں مگر مقامی حکومتوں کا تصور سیاسی خانوادوں کی سیاسی موت ہے لہٰذا منتخب ارکان اسمبلی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،منتخب بلدیاتی نمائندے اگر محکمہ لوکل گورنمنٹ سے مل کر نچلی سطح پر دیانتداری اور خلوص نیت سے کام کریں تو نہ صرف کرپشن کا گرم بازار بند کیا جا سکتا ہے بلکہ کروڑوں نہیں اربوں کی بچت کر کے عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل کئے جا سکتے ہیں،لیکن بد قسمتی سے عوام کوایسے منتخب نمائندے دینے میں دانستہ تساہل اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو ہر وقت عوام کی دسترس میں ہوں،مقامی حکومتوں کو اگر فعال کیا جائے ، بلدیاتی ادارے متحرک ہوں تو نہ صرف عوامی مسائل کو نچلی سطح پر مختصر وقت میں حل کیا جا سکتا ہے بلکہ نا گہانی صورت میں عوام کو بر وقت ریلیف دینے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں،اس سلسلے میں دیر کرنا ملک وقوم بلکہ عوام سے زیادتی ہو گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے بلدیاتی اداروں بلدیاتی نظام نچلی سطح پر اداروں کو کرنے کی کے نظام نظام کو کے تحت کے بعد کیا جا
پڑھیں:
غزہ: الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی حملے سے شہر کا نظام طب بری طرح متاثر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 اپریل 2025ء) اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے غزہ کے الاہلی ہسپتال کے غیر فعال ہونے کے بعد شہر میں طبی خدمات کے باقی ماندہ جزوی فعال مراکز پر بوجھ غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے طبی مراکز کو جنگ سے تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہونے والے اس حملے میں الاہلی ہسپتال کی فارمیسی سمیت متعدد عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
حملے میں ایک بچے کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جسے سر پر چوٹ آئی تھی۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' نے بتایا ہے کہ انتہائی نگہداشت کے متقاضی 40 مریضوں کو فی الوقت ہسپتال میں ہی طبی مدد مہیا کی جا رہی ہے جبکہ 50 مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
طبی مراکز پر بڑھتا بوجھ'ڈبلیو ایچ او' کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے کہا ہے کہ غزہ میں ادویات اور طبی سازوسامان کی شدید قلت ہے۔ 36 میں سے 15 ہسپتال غیرفعال ہو چکے ہیں جبکہ کوئی ایسا طبی مرکز نہیں ہے جسے اسرائیل کے حملوں میں نقصان نہ پہنچا ہو۔
'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبےکو دہرایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور طبی سہولیات پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ مریضوں، طبی عملے اور مراکز کو تحفظ ملنا چاہیے اور علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی پر عائد پابندی اٹھائی جانی چاہیے۔غزہ میں امدادی ٹیموں نے بتایا ہے کہ الاہلی ہسپتال پر حملے نے باقی ماندہ جزوی فعال ہسپتالوں پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے۔
ادویات کی شدید قلتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی ترجمان اولگا شیریکوو نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اب معمول بن گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں بیمار اور زخمی لوگوں کے علاج کے لیے ادویات سمیت ضروری طبی سازوسامان کی شدید قلت ہے۔
غزہ میں امداد کی فراہمی بند ہوئے سات ہفتے ہو گئے ہیں اور علاقے میں خوراک سمیت ضروری اشیا کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
'اوچا' کے مطابق 18 مارچ کو جنگ بندی کا خاتمہ ہونے کے بعد 390,000 سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی امدادی حکام نے اسرائیل کے ان دعووں کو مسترد کیا ہے جن میں ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں تمام فلسطینیوں کے لیے ضرورت کی خوراک موجود ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک پھیل رہی ہے جبکہ امدادی ٹیموں کو لوگوں کی زندگیاں بچانے سے دانستہ روکا جا رہا ہے۔
امداد کی بحالی کا مطالبہاولگا شیریکوو نے بتایا ہے کہ غزہ میں خوراک، ادویات، پناہ کا سامان اور دیگر اشیا تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور پہلے سے بدترین حالات مزید بگڑے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شہریوں کو تحفظ ملنا چاہیے اور علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی فوری بحال کی جانی چاہیے۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد علاقے میں 50 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 115,688 زخمی ہو گئے ہیں۔ ان میں 1,440 ہلاکتیں 18 مارچ کے بعد ہوئیں جبکہ اس عرصہ میں 3,647 افراد زخمی ہوئے ہیں۔