Nai Baat:
2025-01-27@16:58:12 GMT

وائس چانسلرز تعیناتی کے مجوزہ معیار پر اعتراض کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

وائس چانسلرز تعیناتی کے مجوزہ معیار پر اعتراض کیوں؟

گزشتہ کئی دن سے سندھ کی سرکاری جامعات خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ بیشتر جامعات میں اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔ تعلیمی اور تدریسی عمل معطل ہے۔ حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔ احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کابینہ نے سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ 2018ء میں کچھ ترامیم کی منظوری دی ہے۔ یہ ترامیم سندھ کی جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کے رائج طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق ہیں۔ تجویز ہوا ہے کہ گریڈ اکیس یا بائیس کا کوئی بھی سرکاری افسر، جو چار سالہ انتظامی تجربے کا حامل ہو، سرکاری جامعہ میں وائس چانسلر کے عہدے کیلئے درخواست دینے کا اہل ہو گا۔ایسے امیدوار کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کی شرط نہیں ہے، البتہ متعلقہ مضمون میں ایم۔اے کی ڈگری لازمی ہے۔ اس ضمن میں انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو پروفیسر بننے کا اہل ہے ، اور چار سال کا تجربہ رکھتا ہے، وہ بھی وائس چانسلر بننے کا اہل ہو گا۔

سرکاری جامعات کے اساتذہ اور انکی نمائندہ تنظیم اس مجوزہ معیار (criterion) پر شدید معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے سندھ حکومت دراصل سرکاری افسروں اور بیوروکریٹس کو جامعات کا وائس چانسلر بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کا نکتہ نظر ہے کہ جامعات کی سربراہی کیلئے پی۔ایچ۔ڈی کی شرط ختم کرنے سے تحقیقی اور تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو گا۔ یہ بیانات بھی میری نگاہ سے گزرے کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی کس طرح تعلیمی معاملات کی تفہیم کرسکے گا۔ سینڈیکیٹ ا ور دیگر اہم فارموں، علمی تحقیق اور عالمی درجہ بندی سے جڑے پیچیدہ معاملات کو کیسے سمجھے گا؟ یہ بھی سننے کو ملا کہ ایک نان۔ پی۔ایچ۔ڈی سربراہ کی تقرری سے متعلقہ جامعہ کے وقار پر زد پڑے گی۔ وغیرہ وغیرہ ۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جامعہ کی سربراہی کیلئے پی۔ ایچ ۔ڈی کے حامل پروفیسر کے علاوہ کسی اور کو تعینات نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا مؤقف ہے کہ سرکاری جامعات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان جنسی ہراسانی اور مالی بد عنوانی کے مرتکب ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تنبیہ کی ہے کہ احتجاج پر اکسانے اور اسے ہوا دینے والے وائس چانسلر اس عمل سے باز نہ آئے تو ان کی گرفت کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی یہ بات قابل جواز معلوم نہیں ہوتی۔ اگر کچھ وائس چانسلر صاحبان مالی بد عنوانی یا ہراسانی میں ملوث ہیں ، تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ کسی بیوروکریٹ کو کسی جامعہ کے عہدے پر بٹھا دیں، یا کسی مسجد کے مولوی کو، ایسی شکایات تب بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ مطلب یہ کہ مالی بد عنوانی اور ہراسانی کے جواز پر جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنے میں کوئی منطق نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کوئی اور دلیل پیش کریں۔
تاہم دوسری طرف اس بات میں بھی وزن نہیں ہے کہ صرف تدریسی تجربے کا حامل ایک پی۔ایچ۔ڈی پروفیسر ہی جامعہ کے معاملات کو عمدہ طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کوئی نان پی۔ایچ۔ڈی اس قابل نہیں کہ کسی جامعہ کے انتظامی معاملات کو سمجھ سکے یا چلا سکے۔ احتجاج اور اعتراض کرنے والوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی۔ایچ۔ڈی وائس چانسلروں کی موجودگی میں گزشتہ کئی برس سے ہماری سرکاری جامعات زوال پذیر کیوں ہیں؟ہمای اعلیٰ تعلیم کا معیار کیوں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے؟78 سال گزرنے کے باوجود عالمی سطح پر ہماری ڈگریوں کی وہ اہمیت کیوں نہیں ہے، جو ہونی چاہیے ؟ سب سے اہم بات یہ کہ ہماری سرکاری جامعات اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے بدترین مالی بحران کا شکار کیوں ہیں؟
وائس چانسلر جامعہ کے انتظامی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک انتظامی عہدہ ہے۔اس عہدے سے جڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے آپ کو اچھا، متحرک اور ایماندار منتظم ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ پی۔ایچ۔ ڈی ڈگری کی اہمیت نہیں ہے ۔ اس بات کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی کہ بیوروکریٹس کی تعیناتیوں کیلئے جامعات کے پھاٹک کھلے چھوڑ دئیے جائیں۔ تا ہم اس نکتہ نظر سے اتفاق کرنا بھی ممکن نہیں کہ کوئی نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی جامعہ کو عمدہ طریقے سے نہیں چلا سکتا۔ ایک نان ۔ پی۔ایچ۔ڈی کسی صوبائی یا وفاقی وزارت کو عمدگی سے چلا سکتا ہے تو ایک جامعہ کو کیوں نہیں؟ ہماری افسر شاہی میں بہت سے اچھے اور قابل افسران موجود ہیں۔دوسری طرف ایسے بھی ہیں جن کے ماتھے پر بدعنوانی اور بد انتظامی کا داغ لگا ہے۔ اسی طرح جامعات میں بھی قابل اور ایماندار اساتذہ موجود ہیں اور اس کے قطعی برعکس بھی۔ یعنی کسی ایک شعبے کو سو فیصد ٹھیک یا غلط نہیں کہا جا سکتا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی کم وبیش تمام سرکاری جامعات خسارے کا شکار ہیں۔ بیشتر جامعات ملازمین اور اساتذہ کو بروقت تنخواہ اور پنشن ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جامعات کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یا ادھر ادھر سے ادھار مانگ کر گزارا کرنا پڑ تاہے۔ ایک نان پی۔ایچ ۔ڈی اگر مالی بحران میں گھری جامعہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتا ہے تو اس کی تعیناتی میں کیا حرج ہے؟مثال کے طور پر معاشی امور کا ایک اچھا ماہرسرکاری جامعہ کو مالی بحران سے نجات دلا نے کے قابل ہے تو اس کو ضرور موقع ملنا چاہیے۔

اعتراض ہو رہا ہے کہ وائس چانسلر کا پی۔ایچ۔ڈی ہونا بے حد ضروری ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری بہت سی نجی اور سرکاری جامعات نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں بیچنے کی دکانیں کھول رکھی ہیں؟ آپ لاکھوں روپے فیس بھریں اور یہ ڈگری خرید کر ماتھے پر سجا لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر کو علمی تحقیق کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تاکہ وہ تحقیقی عمل کی ترویج کیلئے کام کر سکے۔ ہمارے ہاں بہت سے اساتذہ نے تحقیقی مقالے لکھنے کی ایک اندھی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو ہر سال بیس بیس تحقیقی مقالے لکھتے اور چھپواتے ہیں۔ اگلے دن وزارت تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر بتا رہے تھے کہ ایک یونیورسٹی پروفیسر نے انہیں باقاعدہ پیشکش کی کہ آپ کے نام سے پندرہ بیس آرٹیکل چند مہینوں میں شائع کر کے آپ کی وائس چانسلر شپ کی بنیادی requirement پوری کی جا سکتی ہے۔تو کیا پندرہ ، بیس تحقیقی مقالے لکھنا اور پی ۔ایچ،ڈی کرنا ا س قدر مشکل کام ہے ، جو پروفیسروں کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا ؟ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
نان پی۔ایچ۔ڈیز کی تعیناتی سے جامعہ کا وقار متاثر ہو گا۔ عرض ہے کہ ہماری جامعات کا وقار تب بھی متاثر ہوتا ہے جب ہمارے پروفیسر صاحبان کی جعلی تحقیق اور چربہ سازی کے قصے عالمی سطح پر مشہور ہوتے ہیں۔ ان پروفیسر صاحبا ن کی جعلی ڈگریوں اور تحقیقی مقالہ جات کے قصے بھی ہمیں یاد ہیں جو برسوں جامعات کے وائس چانسلر رہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشنوں میں اعلیٰ عہدوں پرتعینات بھی۔
بہرحال وزیر اعلیٰ سندھ کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ وائس چانسلر وں کی تعیناتی کا جو طریقہ کار رائج ہے ، اس کے ذریعے گھوم پھر کر چند نام ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے بار بار وائس چانسلر بن رہے ہیں۔ باقی صوبوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ وائس چانسلر تعیناتی کے عمل میں نئے امیدواروں کو بھی موقع دینا چاہتا ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ سندھ کی وزارت تعلیم کے ایک افسر سے میری بات ہوئی، پتہ یہ چلا کہ اس مجوزہ معیار میں صرف نان پی۔ایچ۔ڈیز نہیں بلکہ کم انتظامی تجربے کے حامل نسبتاً جو نیئر پروفیسروں کیلئے بھی وائس چانسلر بننے کی راہ ہموار ہوگی۔

ویسے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں غیر تدریسی پس منظر کے حامل سربراہان کی تعیناتی کی مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی آئیوا (IOWA)اور پرڈیو( (Purdueجیسی نامور سرکاری جامعات سمیت کئی یونیورسٹیوں میں غیر تدریسی پس منظر کی حامل شخصیات جامعات کی سربراہ بنیں۔ یورپ میں بھی یہ مثالیں موجود ہیں۔البتہ وہاں برسوں سے یہ بحث جاری ہے کہ جامعہ کے سربراہ کے تدریسی اور غیر تدریسی پس منظر سے جامعہ پر عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی آپ یہ بحث ہونے دیجئے اور یہ نیا تجربہ بھی۔تاہم لازم ہے کہ سندھ حکومت یا کوئی بھی صوبائی حکومت یہ تجربہ کرتی ہے تو اس کے پیش نظر جامعات کا مفاد اور اصلاح احوال ہو نہ کہ اقربا پروری اور دوست نوازی۔سندھ حکومت باقاعدہ قانون سازی کر کے غیر تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے جامعات کے دروازے کھول رہی ہے تو تدریسی پس منظر کے حامل افراد کیلئے بھی حکومت کے دروازے کھولے۔ وزیر اعلیٰ سندھ ذہین پروفیسروں کو اپنی حکومت اور مشاورتی حلقے کاحصہ بنائیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت سندھ لگے ہاتھوں یہ تجربہ بھی کر ڈالے۔

 

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری جامعات وائس چانسلر جامعات میں کی تعیناتی نان پی ایچ وزیر اعلی جامعات کے موجود ہیں پی ایچ ڈی رہا ہے کہ جامعہ کے جامعہ کو ہے تو اس نہیں ہے سندھ کی ہوتا ہے میں بھی کے حامل ایک نان اس بات

پڑھیں:

یہ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

گوانزو سے ایو کی فلائٹ میں ایک بھارتی ہمسفر ہوئے، تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ دہلی سے ہیں اور خواتین کے فینسی پرس بناتے ہیں اور یہاں سے ان کے لیے رنگدار ریگزین خریدنے آتے ہیں۔ مزید کا سلسلہ آگے بڑھا تو مزید معلوم ہوا کہ وہ ہر 3 ماہ بعد چین آتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ وہاں سے ہی آرڈرز کیوں نہیں دے دیتے، ہر 3 ماہ بعد آنا کیوں ضروری ہے؟ تو اس پر انہوں نے ایک حیران کردینے والی بات بتائی۔

’کہنے لگے کہ گوانزو میں خواتین کے پرس بیچنے والی مارکیٹ میں ہر دکان پر ہر 3 ماہ بعد سب کچھ بدلا ہوا ہوتاہے، پرس کا میٹیریل، ڈیزائن، رنگ، ٹیکسچر سب کے سب نئے ہوئے ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہر 3 ماہ بعد سب سے پہلے مارکیٹ جاتا ہوں وہاں نئے میٹیریل اور ڈیزائن کی تصاویر لیتا ہوں پھر ’ایو‘ کے قریب فیکٹریوں میں جاتا ہوں اور جو ڈیزائن وہاں دکانوں پر چنے ہوتے ان کا خام مال آرڈر کرتا ہوں۔

اس طرح ہم اپنے شہر میں ہر تیسرے ماہ نئے میٹیریل اور نئے ڈیزائن متعارف کرواتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس وقت اپنی مارکیٹ کے لیڈر ہیں۔

آپ ان دونوں باتوں کا تصور کریں کہ وہ کیسے لوگ ہیں؟، جو ہر تیسرے ماہ نئے ڈیزائن کے حصول کے لیے دہلی سے گوانزو کا سفر کرتے ہیں اور وہ کیا لوگ ہوں گے جو ہر 3 ماہ بعد نئی چیزیں سوچ کر ان کو بناکر دکانوں میں لے آتے ہیں اور پھر اس سوچ کا موازنہ اپنے رویوں سے کریں۔

پچھلے دنوں لاہور میں خواتین کی مصنوعات کی بہت بڑی نمائش تھی، 2 سو کے قریب اسٹال ہوئے ہو‍ں گے، سارے اسٹال صرف اسی آس پر دیکھے کہ شاید کوئی نیا آئیڈیا کوئی، نئی چیز، کوئی متاثر کن تخیل کی عملی صورت نظر آجائے۔۔۔۔۔مگر وہی سلے ان سلے کپڑے، چٹنی اچار، مربے، چائنہ کی بنی جیولری، پرس اور ڈیکوریشن آئٹم۔۔۔اور۔۔۔بس‘۔

صرف ایک صاحبہ شاید حیدرآباد سے تشریف لائیں تھیں، جنہوں نے کچھ مینیچر بنا رکھے تھے جو مقناطیس کی مدد سے فریج کے باہر لگائے جاسکتے ہیں، ان کا کام مختلف، تخیل نیا اور اشیا خوبصورت اور قابل ستائش تھیں، یا پھر ایک ڈی ہائیڈریٹڈ فوڈ کا اسٹال تھاجو ہماری ایک بہن فوزیہ بدر نے لگا رکھا تھا، اس میں کچھ نیا اور مختلف دیکھنے کو ملا اور پھر باقی سب وہی کچھ۔

بہرحال میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خواتین کو یہ کام نہیں کرنا چاہییں، ضرور کریں مگر، مگر انہوں نے خود پر جدید ٹیکنالوجی اور جدید اشیا بنانے کے دروازے بند کیوں کررکھے ہیں؟۔ جو سینکڑوں ہزاروں نئے میدان ہیں، شعبے ہیں ان میں کام کیوں نہیں کرتیں۔

مثال کے طور پر بیجنگ میں ایک فیکٹری سے ہم نے لوہے کی جانچ کرنے والی جدید الیکٹرانکس مشینیں خریدیں وہ فیکٹری ایک عورت کی ملکیت تھی۔ گوانزو میں سلیکان ربر سے بنی اشیا کی ایک بہت بڑی فیکٹری خاتون چلارہی تھی۔

یوہان میں انجن کے عالمی معیار کے پرزے  بنانے اور آدھی دنیا کو برآمد کرنے والی فیکٹری خاتون کی تھی۔ شنگھائی میں ایک خاتون جہازوں کے بہت ہی زبردست چھوٹے پلاسٹک کے ماڈلز بنارہی تھیں جو ہر ٹریول ایجنسی میں پڑے ہوتے ہیں، شوقین لوگ گھروں میں بھی رکھتے ہیں۔

ٹھیک ہے سرِ دست ہم توقع نہیں کرسکتے کہ آپ اُٹھ کر لیپ ٹاپ اور موبائل بنانا شروع کردیں مگر بہت سے نہایت سادہ اور آسان کام ہیں جو کیے جاسکتے ہیں۔

مثلا مصنوعی جیولری، ہیربینڈز اور کلپس، موتی، لیسز، باورچی خانے کی اشیا، برتنوں کے اسٹینڈز، ٹوتھ پکس، نمک مرچوں والی چھوٹی بوتلیں، پلاسٹک کی دیگر  اشیا، اسی طرح سرامکس کے گلدان آرٹ پیسز اورگملے وغیرہ۔

چھوٹے سی این سی راؤٹر پر لکڑی، پلاسٹک اور پیتل کی سینکڑوں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے لاتعداد اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔

چھوٹی خود کار پلاسٹک کی مولڈنگ مشینوں پر ہزاروں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ ڈیجیٹل شوگر پرنٹرز سے کیکس، بسکٹس اور کھانے پینے کی دیگر اشیا پر تصاویر اور کارٹون وغیرہ بنا کر بچوں کی سالگرہ کو یاد گار بنایا جاسکتا ہے۔

چھوٹی ڈیجیٹل پرنٹر مشینوں اور چھوٹی کمپیوٹرائزڈ کڑھائی کی مشینیں جن کی قیمت 5 سے 7 لاکھ ہوتی ہے کو کسٹمائزڈ ڈیزائن کے کپڑے بنانےکے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ موبائل فون کے کورز اور فینسی اسیسریز بنائی جاسکتی ہیں۔ دنیا میں آج کل جو اور گندم وغیرہ سے بنے برتنوں کا چلن عام ہورہا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں اور استعمال شدہ اشیا کے ریپرز کی ری سائیکلنگ میں بھارت نے درجنوں سٹارٹ اَپس شروع کیے ہیں جن میں وہ ملبوسات سے لیکر پرس اور جوتے تک بنارہے ہیں ان میں بہت زیادہ پراجیکٹس خواتین نے شروع کیے ہیں۔

ہم نے کیوں مرد و زن کے فکروعمل کے میدان کو محدود کررکھا ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے لوگ بالخصوص ہماری خواتین بھی پرانے کاموں کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو بھی زیر استعمال لاکر اپنا اور اپنے ارد گرد لوگوں کا معیار زندگی بلند کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابنِ فاضل

اسینڈرڈ الیکٹرانکس بھارت بوتلیں پاکستان پرنٹرز پلاسٹک ٹوتھ پکس چین خواتین فیکٹریاں لیپ ٹاپ مشینیں

متعلقہ مضامین

  • بیوروکریٹس کی وی سی تعیناتی, انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کا احتجاجی مظاہرہ
  • بیوروکریٹس کی بطور وی سی تعیناتی معاملہ، سندھ کی جامعات میں مزید 2 دن تدریسی عمل بند، فپواسا
  • حالات نہیں نیت خراب ہے….؟
  • وزیراعلیٰ کا وڈیرانہ لب و لہجہ پست ذہنی سطح کا اظہار ہے،منعم ظفر
  • وزیر اعلیٰ سندھ کا وڈیرانہ لب و لہجہ پست ذہنی سطح کا اظہار ہے، منعم ظفر خان
  • خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں حروف تہجی کی ترتیب سے چانسلرز کی تعیناتی، لمحہ فکریہ ہے
  • تعلیمی پالیسیاں اور صوبہ سندھ میں طلبا و اساتذہ کا احتجاج
  • یہ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
  • دنیا کی بہترین 375 جامعات میں ایک بھی پاکستانی نہیں