بچوں اور خواتین کیلئے کچھ نہ بدلا!
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
خواتین کے خلاف مظالم کی تاریخ بہت تلخ اور صدیوں پرانی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ صنفی، جنسی اور جسمانی تشدد کا یہ سلسلہ اس ماڈرن اور ترقی یافتہ دور میں بھی جاری ہے۔ عورت ذات کیلئے کچھ بھی نہ بدلا۔ یہ مسئلہ کسی ایک ملک یا معاشرے کا نہیں بلکہ پوری دنیا اس کی زد میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی ہر تیسری عورت جسمانی، صنفی اور جنسی تشدد کا شکار بنتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ خواتین کو پبلک اور پرائیویٹ دونوں جگہوں پر ہراسمنٹ، صنفی، جسمانی اور معاشی استحصال کا سامنا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نت نئی ایجادات انسانی زندگی میں آسانیاں لیکر آئی ہے تاہم عورت کے لیے آسانی پیدا نہ ہوئی اور وہ سائبر وائلنس کا شکار ہو گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کس طرح خواتین نشانہ بن رہی ہے اس بارے تفصیل سے پھر لکھوں گی۔ فی الحال تو اتنا جان لیں کہ گلوبلی 16 سے 58 فیصد لڑکیوں اور خواتین کو آن لائن تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے معاشروں کی تربیت اور ان رویوں کا شاخسانہ ہے کہ کس طرح ہم نے ہر ٹول اور پلیٹ فارم کو خواتین کے خلاف استعمال کیا ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کافی کام کر رہے ہیں مگر پاکستان میں ارباب اختیار کو شاید اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ہر سال پہلے سے زیادہ خواتین کے خلاف تشدد کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خاتون کو خود پر ہونے والے تشدد بارے رپورٹ کرنے پر سماجی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جو واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں وہ اصل واقعات کا 50 فیصد بھی نہیں۔ پاکستان میں ہر سال 1000 سے زیادہ خواتین تو صرف غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد کی شدت کو زیادہ محسوس کیا جا سکتا ہے جہاں تقریباً 90 فیصد خواتین زندگی میں ایک بار ضرور تشدد کا نشانہ بنی۔ گزشتہ برس خواتین کے خلاف تشدد کے 5 ہزار 112 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جن میں قتل، خودکشی، اغوا، عصمت دری اور جسمانی تشدد کے واقعات شامل ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ ماہ صرف دسمبر میں 500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جرائم میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2021 کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں 30 فیصد خواتین یا 73 کروڑ خواتین اپنے ہی ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار بن چکی ہیں۔ اس وقت عورتیں اور بچے سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہیں۔ دنیا کی کل آبادی میں بچیوں کی تعداد 1.
لہٰذا تھوڑی سی توجہ عوام کی خاطر ان قوانین پر عملدرآمد کرانے پر بھی کر لیں شاید کچھ بہتری آ جائے۔ اس وقت صوبہ پنجاب پر ایک خاتون برسرِ اقتدار ہیں۔ ان کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ خواتین کے مسائل پر بھی توجہ دیں اور ان کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کیلئے سنجیدہ کوشش کریں۔ اس وقت ان کا صوبہ ان جرائم میں سرفہرست ہے۔ حکمران خود کو صرف ٹی وی سکرینوں کی زینت بنانے کی بجائے اپنے اپنے صوبوں میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کو سختی سے اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ ایک دوسرے پر روزانہ کی لفظی گولہ باری کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔ اپنا گھر ان آرڈر رکھیں۔ صرف نئے ادارے بنا دینے سے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔ جو پہلے موجود ہیں ان پر توجہ دیں۔ اچھی شہرت والے، ایماندار افسران کو ذمہ داریاں سونپیں گے تو یقینا بہتری آئے گی۔ یاد رکھیں کہ آج کے عوام زیادہ باشعور اور انہیں محض اشتہارات کے ذریعے زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: خواتین اور بچوں خواتین کے خلاف پاکستان میں میں خواتین اور خواتین خواتین کو سے زیادہ رپورٹ ہو جا سکتا تشدد کے تشدد کا کے ساتھ کا شکار ملک میں کے لیے
پڑھیں:
گارڈن سے بچوں کا اغوا: تلاش کیلئے حیدرآباد سے سراغ رساں کتے منگوائے ہیں، ایس ایس پی سٹی
فائل فوٹو۔کراچی کے علاقے گارڈن سے دو بچوں کے اغوا سے متعلق تفتیش جاری ہے۔ ایس ایس پی سٹی عارف عزیز نے کہا کہ سراغ رساں کتے حیدرآباد سے منگوائے گئے ہیں۔
ایس ایس پی عارف عزیز نے مزید کہنا کہ علاقے کے گھروں اور زیرتعمیر پروجیکٹس کی تلاشی لی جائے گی۔
انہوں نے کہا علاقے کی دوبارہ جیو فینسنگ کرائی گئی ہے۔ سینئر پولیس افسر کے مطابق بچوں کے زیر استعمال کپڑے اور جوتے بھی منگوالیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا امید ہے کہ جلد بچوں کو بحفاظت بازیاب کروالیں گے، پولیس کی ٹیمیں دن رات اس کیس پر کام کر رہی ہیں۔