Nai Baat:
2025-01-27@17:06:44 GMT

ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں

غالباً 2004 کی بات ہے ریڈیو پاکستان لاہور کے زیرِ اہتمام 23 مارچ کے حوالے سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے ہال نمبر تین میں کل پاکستان مشاعرہ تھا جس کا میں پروڈیوسر تھا۔ مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان کے علاوہ اس مشاعرے میں ملک بھر سے منیر نیازی، احمد فراز، افتخار عارف، ظفر اقبال، شہزاد احمد، ناز خیالوی، قاسم پیر زادہ، اسلم انصاری، ریاض مجید، منیر سیفی، اسلم کولسری اور عطاء الحق قاسمی جیسے سینئر اور نامور شعراء شریک تھے۔ دور نزدیک کے سبھی مہمان شاعر ہال میں سٹیج کے سامنے پہلی رو میں کرسیوں پر تشریف فرما تھے، ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ مشاعرے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے امجد اسلام امجد جن کے ذمے مشاعرے کی نظامت تھی سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھے شعراء کی فہرست ترتیب دے رہے تھے کہ اسی دوران ہال کے واش روم کی طرف سے منیر نیازی آتے دکھائی دیئے۔ جیسے ہی امجد صاحب کی نظر نیازی صاحب پر پڑی تو وہ فہرست بنانا چھوڑ کر نیازی صاحب کو دیکھنے لگے جو کسی مدہوشی کے عالم میں چلتے ہوئے اب عین مشاعرے کی صدارتی کرسی کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے وہ اس پر بیٹھنے ہی والے ہوں۔ اس سے پہلے کہ منیر نیازی صدارتی کرسی پر براجمان ہو جاتے۔ امجد صاحب نے بروقت اس خطرے کو بھانپ کر بلند آواز میں نیازی صاحب کو مخاطب کر کے کہا ’’نیازی صاحب یہ صدر کی کرسی ہے‘‘۔ منیر نیازی نے امجد صاحب کی آواز سنی اور اسی عالم مدہوشی میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا ’’وہ کون ہے‘‘۔ اس پر امجد صاحب نے دوبارہ بلند آواز میں کہا ’’احمد ندیم قاسمی صاحب‘‘۔ اب کی بار منیر نیازی نے باقاعدہ گردن موڑ کر امجد اسلام امجد کی طرف دیکھا اور پھر بڑے ڈرامائی انداز میں کہا ’’وہ کون ہے‘‘۔ جو لوگ منیر نیازی کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منیر نیازی ایسے ہی تھے اور ایسا سوال اور ایسا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں۔ دلچسپ اور مزے کی بات ہے کہ یہ انوکھا انداز اُن پر جچتا بھی تھا اور سوائے ایک آدھ زود رنج کے بڑے بڑے شاعر اپنے حوالے سے اُن کے ایسے جملوں کا مزا لیتے تھے۔ منیر نیازی منفرد لب و لہجے کے ایک ایسے خوبصورت شاعر تھے جن کی شاعری، برجستہ جملوں اور شخصیت کا جادو آج بھی اردو ادب کے قارئین کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں میں یوں تو اچھا شعر کہنے والے بڑے بڑے باکمال شاعر پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ جو رومانوی فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں ایک خوبصورت، خوش لباس، خوش گلو اور کرشماتی شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بنتا ہے۔ ہمارے ادبی منظر نامے میں اب تک اس معیار پر صرف منیر نیازی ہی پورا اُترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منیر نیازی کے اس فانی دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کی مقبولیت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ اُن سے پیار کرنے والے انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے آج بھی یاد کرتے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح میرا شمار بھی اُن کے پرستاروں میں ہوتا ہے مگر میں اس حوالے سے خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اُن کے ساتھ دو تین مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1998ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے پنجابی شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ کے لیے فلیپ بھی لکھا تھا۔ میرے لیے اُن کی وہ چند لائنیں آج بھی کسی قیمتی اعزاز سے کم نہیں ہیں۔ باکمال شاعری، برجستہ جملوں اور اپنی دلکش شخصیت کے مختلف حوالوں سے یوں تو منیر نیازی مجھے بھی اُن کے دیگر بے شمار چاہنے والوںکی طرح اکثر کسی نہ کسی بہانے سے یاد آتے رہتے ہیں مگر آج اتنے عرصے بعد خاص طور پر اپنے سامنے گزرا اُن کا یہ مزیدار واقعہ مجھے فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر فرحت جبیں ورک کی منیر نیازی کے شعری تصورات کے حوالے سے لکھی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ دیکھ کر بس یونہی یاد آ گیا ہے۔ منیر نیازی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے تنقید اور تحقیق کی یہ خوبصورت کتاب ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے اپنے ہاں یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کے اختتام پر عنایت کی تھی جس میں شرکت کے لیے میں اُن کی دعوت پر خاص طور پر لاہور سے گیا تھا۔ کچھ نئے دوستوں سے پہلی بار بالمشافہ ملنے کے حوالے سے میرے لیے یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کی صدارت شکیل جاذب نے کی جبکہ مہمان خصوصی صائمہ آفتاب تھیں دیگر شاعروں میں میرے علاوہ سبھی مقامی شاعر تھے جن میں میرے ’’دُورکے جاننے والوں‘‘ میں بس خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر فاخرہ نورین اور ڈاکٹر عزیز فیصل ہی تھے۔ باقی سارا مال نیا تھا نئے شاعروں میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے شیدا جنٹری میں پھس گیا ہو۔ یہ ایک شاندار مشاعرہ تھا جس میں ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کے حسن انتظام اور اُن کی خوبصورت نظامت کے علاوہ مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں میری درخواست پر بطور خاص ہمارے دوست اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ذوالفقار احسن بھی ایک سامع کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ مجھے نہیں پتا اُن کی مشاعرہ سننے میں کتنی دلچسپی تھی البتہ سٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ اپنے دائیں بائیں مشاعرہ دیکھنے میں وہ اختتام تک بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ حتیٰ کہ مشاعرے کے بعد جب سموسوں اور چائے کا دور چل رہا تھا وہاں بھی ڈاکٹر ذوالفقار احسن کی یہ وارفتگی پوری طرح برقرار رہی۔ ڈاکٹر صاحب مرد و زن کی تفریق کے بغیر لگا تار کسی ماہر تلوار باز کی طرح اپنے برجستہ جملوں سے کشتوں کے پشتے یا پشتوں کے کشتے لگاتے جا رہے تھے۔ اُن کے شوخ اور مزیدار جملوں سے کچھ لوگ محظوظ تو کچھ اِدھر اُدھر کھسک کر محفوظ ہوتے رہے۔ مجھے چونکہ واپسی کی جلدی تھی اور بھوک بھی شدید لگی تھی اس لیے میں نے ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک سے یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی کہ ’’ڈاکٹر صاحبہ مجھے اجازت دیں میں نے لاہور پہنچ کر روٹی شوٹی بھی کھانی ہے‘‘۔ اس پر پتا نہیں کیوں ڈاکٹر ذوالفقار احسن ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جہاں تک ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کی منیر نیازی کے فن اور شخصیت پر مبنی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ کی بات ہے تو اس حوالے عرض کروں کہ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے ناں ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘‘۔ ایک تو ہم سب کے پسندیدہ شاعر منیر نیازی کا ذکر اور اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے جس محبت، عقیدت اور لگن سے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اس نے ہمارے جیسے بندے کو بھی یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب بازار علم و ادب میں پی ایچ ڈی کے ’’ریڈی میڈ‘‘ مقالوں کا سستا لنڈا بازار لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کسی ’’ریڈی میڈ‘‘ فارمولے کی بجائے ڈھیروںکتابیں کھنگال کر جس عرق ریزی سے منیر نیازی کی شخصیت، حالات زندگی اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کا تفصیل اور استدلال سے تجزیہ کیا ہے۔ منیر نیازی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے اور اُن سے حقیقی معنوں میں حظ اُٹھانے کے لیے اردو ادب کے قارئین اور تنقید و تحقیق کے طالب علموں کے لیے یقینا یہ ایک بہترین اور مستند کتاب ہے جس پر بلاشبہ ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک تحسین کی مستحق ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ڈاکٹر فرحت جبیں و رک منیر نیازی کے ڈاکٹر صاحبہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نیازی صاحب مشاعرے کی ا ج بھی کے لیے مجھے ا

پڑھیں:

ذوالفقار عطرے

ڈاکٹر علی حماد‘ امریکا میں دل کے ڈاکٹر ہیں۔ تقریباً پینتس برس سے دل کی شریانوں میں اسٹنٹ ڈال رہے ہیں۔ آسودہ حال زندگی ہے۔ مگر اپنے اندر سے لاہور کو باہر نہیں نکال پائے۔ ان سے اسکول کے زمانے سے دوستی ہے۔ چند برس پہلے ڈاکٹر صاحب نے صوفی شاعری شروع کر دی ۔ مسلسل مشق سے انھوں نے اس شعبہ میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ خیال ہے کہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ جسے روزگار زمانہ نے ڈاکٹر بنا ڈالا۔ لوگوں کی اکثریت کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔

قدرت نے ان کے اندر جوہنر رکھا ہوتا ہے، وہ فکر روزگار میں ماند پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ختم ہو چکا ہے۔ مگر حقیقت میں اصل جوہر قدرت کبھی بھی ضایع نہیں ہونے دیتی۔ کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی بھی زینے پر‘ انسان کے اندر جو خالص ہنر قدرت نے ودیعت کر رکھا ہے‘وہ باہر ضرورنکلتا ہے۔یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب نے اپنا کلام چند برس سے مسلسل مجھے بھیجنا شروع کر دیا۔

پڑھنے کے لائق بھی تھا اور قابل ستائش بھی۔ دو ماہ پہلے‘ ایک غزل بھجوائی اور کہنے لگے کہ اس کو موسیقی میں ڈھالنے کے لیے‘ دھن بنوانی چاہیے۔ پھر ایک اچھے گلوکار سے گوائی جائے۔ اب یہ بارگراں میرے اوپر آن پڑا‘ کہ ایک ایسا قابل موسیقار تلاش کیا جا ئے جو صوفی طرز کی غزل کو موسیقی سے روشناس کرا سکے۔ مگر کون؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دو دوستوں سے مشورہ کیا۔ مگر ان کے بتائے ہوئے ناموں سے مطمئن نہ ہو پایا۔

ایک دن‘ اتفاق سے یوٹیوب پر اردو موسیقی سن رہا تھا کہ ایک سفید بالوں والے بزرگ شخص کو موسیقی ترتیب دیتے ہوئے سنا۔ میرے لیے ان کا نام بالکل اجنبی تھا، ذوالفقار عطرے۔ بہرحال یوٹیوب پر جب ان کی ترتیب شدہ موسیقی اور گانے سنے‘ تو ششدر رہ گیا۔ کمال سنجیدہ کام ۔بلکہ حیران کر دینے والا جید کام۔ فیصلہ کیا کہ یہ موسیقار ‘ ڈاکٹر صاحب کے صوفی کلام کو نبھا پائے گا۔ مگر دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ انھیں تلاش کیسے کیا جائے، یہ کراچی میں رہتے ہیں، لاہور میں یا کسی اور شہر میں ۔ ابتدائی معلومات لیں تو پتہ چلا کہ لاہور ہی کے باسی ہیں۔ لاہور آرٹس کونسل سے ٹیلیفون نمبر لیا۔

آج سے تقریباً چار ہفتے پہلے ‘ ان سے فون پر بات ہوئی۔ حددرجہ تہذیب یافتہ آواز ۔ ایسا لگا کہ کسی درویش سے بات کر رہا ہوں ۔ مدعا بیان کیا۔ تو فرمانے لگے کہ آپ کے دفتر خود آؤں گا۔ علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتا ہوں۔ یہ ان کی انکساری تھی کہ خود چل کر میرے پاس آنے کا عندیہ دیا۔ ورنہ اصولاً مجھے ان کے پاس جانا چاہیے تھا۔ خیر میرا کاروباری دفتر‘ گلبرگ میں ہے۔ وقت مقررہ پر وہ تشریف لے آئے۔

اس موقع پر مرد صحرا‘ یعنی ڈاکٹر ارشد بٹ کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ اس لیے کہ بٹ صاحب ‘ موسیقی کو سمجھ کر سنتے ہیں اور انھیں موسیقی سے دلی لگاؤ بھی ہے۔ دراصل مرد صحرا بھی ‘ گردش زمانہ کی بدولت میڈیکل کے مشکل شعبہ میں آ گیا۔ ورنہ اندر وہ ایک موسیقار کی روح لیے پھرتا ہے۔ حد درجہ ‘ بلند پایہ محقق بھی ہے۔ عطرے صاحب تشریف لائے۔ تو ایک بھرپور نشست ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ ذوالفقار عطرے بذات خود ‘ موسیقی کا ایک سمندر ہے۔ بلا کا کمال انسان۔ بے تکلفی سے بتانے لگے کہ کسی بھی نغمے کی موسیقی ‘ ترتیب دیتے ہوئے‘ وہ الفاظ پر غور کرتے ہیں۔

غزل یا نظم میں موجود ‘ استعمال شدہ الفاظ بذات خود بتاتے ہیں کہ انھیں کس راگ میں ڈھالا جا ئے۔ انھیں کس لے میں استعمال کیا جائے۔ ایسے لگتا تھا کہ عطرے صاحب کے سامنے‘ الفاظ اور موسیقی ‘ دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ان کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کس طرح دھن کوترتیب دیتے ہیں۔ کس طرح‘ موسیقی کے بت کو تراشتے ہوئے‘ الفاظ کے حساب سے راگ کو باہر نکالتے ہیں۔ اور پھر وہی الفاظ موسیقی کے ذریعے ‘ امر ہو جاتے ہیں۔ سننے والے سحر زدہ ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار صاحب بڑی دیر تک اپنے فنی سفر کی بابت بتاتے رہے۔

اوائل عمری میں ہی نور جہاں سے گانے گنواتے رہے۔ وہ عطائی نہیں تھے۔ ان کا تعلق اس گھرانے سے تھا جس کی رگوں میں موسیقی خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ بتانے لگے کہ جب میڈم نور جہاں کے پاس اپنے پہلے پہلے گانوں کے لیے گئے تو میڈم حیران رہ گئی۔ کیونکہ وہ ان کا تقریباً لڑکپن تھا۔ میڈم کو یقین نہیں آیا کہ اتنی چھوٹی عمر کا لڑکا ان کے گانوں کی موسیقی ترتیب دے پائے گا۔ مگر جب‘ نور جہاں نے اس نوجوان کا کام دیکھا اور سنا‘ تو وہ بھی حیران رہ گئیں۔ ان کی پہلی فلم کے گانے بھی حددرجہ مشہور ہو گئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ فلم انڈسٹری میں‘ ذوالفقار عطرے کا نام بھی گونجنے لگا۔ انھوں نے مجموعی طور پر تین سو سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ تین گھنٹے کی نشست میں بہت سی باتیں ہوئیں۔

ایسے محسوس ہوا کہ وہ تنہائی کا شکار ہیں۔ یہ اس طرح معلوم ہوا کہ میں نے پوچھا کہ دن کیسے گزارتے ہیں۔ فلموں کا کام تو پاکستان میں تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جواب تھاکہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں تقریباً مقید رہتا ہوں۔ باہر بہت ہی کم نکلنا ہوتا ہے۔ اور اپنے ماضی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔ انھیں پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ شدید بے اعتنائی کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی ہمارے معاشرے میں وہ قدر نہیں ہو پائی ‘ جس کے وہ مستحق تھے۔ زمانے سے گلہ تھا کہ کافی حد تک فراموش کر دیے گئے ہیں۔ یا شاید یوں کہہ لیجیے کہ ان کے پاس فن کا جو خزانہ تھا‘ وہ اسے پورا استعمال نہ کر پائے۔اور شومئی قسمت ‘ اسے آگے منتقل بھی نہیں کر پائے۔ یہ غم ان کی باتوں سے عیاں تھا۔ ویسے ہمارے جیسے سطحی ملک میں‘ اہل فن کی قدر ‘ کم ہی ہوتی ہے۔

بہت ہی کم نظر آیا ہے کہ کسی بھی شعبے کا مایہ ناز فنکار‘ واقعی اپنے بنیادی مسائل سے اوپر اٹھ پایا ہو۔ اکثریت صرف سفید پوشی نبھاتے نبھاتے ‘ زندگی کا سفر طے کر لیتی ہے۔ اور پھرتمام کوچہ ازل کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ شاید عطرے صاحب بھی انھی لوگوں میں سے ایک تھے۔ بہرحال ان کے سر پر اپنی چھت ضرور تھی۔

 طے یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب امریکا سے اپنی کوئی غزل بھجوائیں گے اور عطرے صاحب اس کی دھن ترتیب دیں گے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ کس سے گوانی ہے۔ علی نے ایک غزل بھجوائی‘ جو میںنے عطرے صاحب کو بھجوائی ڈالی۔دو تین دن بعد ان کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہیں کہ وہ مزید پانچ چھ غزلیں بھجوا دیں تا کہ فیصلہ کر سکیں کہ کس غزل کا انتخاب کرنا ہے۔ میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی کہ وہ ہر کلام کو گوانے کے حق میں نہیں تھے۔ دراصل وہ ایک عظیم موسیقار تھے۔ انھیںاپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ معلوم تھا کہ کونسا کلام موسیقی کے اعتبار سے نبھایا جا سکتا ہے۔

بہر حال ڈاکٹر صاحب نے اپنی پانچ غزلیں‘ اور بھجوا دیں ۔ جو فوراً عطرے صاحب کو بھجوا دی گئیں۔ ان کا پھر فون آیا کہ اب معاملہ ٹھیک ہے۔ دس بارہ دن لیں گے۔ اور پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کہ کس غزل کی دھن بنائیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی غزل کی ایک سے زیادہ دھنیں ترتیب کر دیں۔ خیر ایک ہفتہ گزر گیا۔ اسی اثنا ء میں ڈاکٹر صاحب بھی امریکا سے ایک ہفتے کے لیے لاہور آ گئے۔ پندرہ دن گزر چکے تھے۔

حسب وعدہ‘ عطرے صاحب کو فون کیا کہ پوچھ سکوں کہ کتنا کام مکمل ہو چکا ہے ۔فون کسی اجنبی نوجوان نے اٹھایا۔ گزارش کی کہ عطرے صاحب سے بات کرا دیں۔ تو اس نوجوان نے رونا شروع کر دیا۔ ان کا بیٹا بول رہا ہوں۔ میرے والد تو ایک دن قبل خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ گفتگو ختم ہو گئی۔ مجھے قطعاً یقین نہ آیا۔ زندگی سے بھرپور شخص سے میری چند دن قبل ایک خوشگوار ملاقات ہوئی تھی۔ اور آج وہ واقعی دنیا میں نہیں ہے۔ بہر حال دوبارہ فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے قل ہو رہے ہیں۔ اب یقین ہو چلا کہ موسیقی کے فن کا ایک عظیم نام منوں مٹی اوڑھ کر سو چکا ہے۔

 کافی دیراکیلا بیٹھ کر سوچتا رہا کہ اسی جگہ پر عطرے صاحب سے ایک بھرپور نشست ہوئی تھی۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے صوفی کلام کے لیے موسقی بنائیںگے۔ اور پھریک دم‘ سب کچھ ختم ہو گیا۔ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ میری‘ ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہو گی۔ دوستی کا ایک سلسلہ جو ابھی شروع ہوا ہی ہے‘ یک دم ‘ ٹوٹ جائے گا۔ واقعی ‘ موت ‘ ہم میں سے ہر ایک کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہے۔ اور وقت آنے پر دبوچ لیتی ہے۔

سانس کی ڈور کب ‘ کہاں اور کس طرح ٹوٹ جائے‘ اس کے متعلق کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ذوالفقار عطرے کی زندگی کی تان ‘ چند دن پہلے ‘ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی۔اور ہم سب کو افسردہ کر گئی۔ موسیقی کا فقید المثال علم لیے‘ عطرے صاحب‘ کے نصیب میں بس اتنا ہی سفر تھا۔ جو چند دن پہلے اختتام پذیر ہو گیا! بس یہی زندگی ہے!

متعلقہ مضامین

  • نیلم منیر نے شادی کے بعد اداکاری کے حوالے سے بڑا اعلان کردیا
  • اداکارہ نیلم منیر کی شادی کے بعد پہلی پوسٹ وائرل ہو گئی
  • افغانستان ویمن کرکٹ ٹیم تین سال بعد ایکشن میں نظر آئے گی
  • شادی کے بعد نیلم منیر نے شوہر کے ہمراہ پہلی تصویر شیئر کر دی
  • ذوالفقار عطرے
  • عالمی ایوارڈ یافتہ مصور منیر ڈھرنال انتقال کر گئے
  • عریبین گلف انٹرنیشنل اسکول الجبیل کے تحت مشاعرہ
  • پنڈی کی عدالت نے توہین مذہب کے 4 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنادی
  • پاکستان کا اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے تعاون کو مضبوط بنانے پر زور