Nai Baat:
2025-04-15@06:24:53 GMT

ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نقصانات

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نقصانات

مصنوعی ذہانت اب صرف سائنس فکشن کی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے بہت کم وقت میں دنیا کو اپنی محیر العقول ترقی سے محظوظ اور ہر شعبہ زندگی میں گہرائی تک رسائی حاصل کی ہے۔ مصنوعی ذہانت عصرِ حاضر کی ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہی انقلاب برپا کر رہی ہے۔ خود کار گاڑیوں سے لے کر ورچوئل اسسٹنٹ تک، مصنوعی ذہانت تیزی سے انسانی زندگی اور کام کرنے کے طریقوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ اس کے فوائد نا قابلِ شمار ہیں، جیسے تیز رفتار اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت، وقت اور وسائل کی بچت، مشکل اور پیچیدہ کاموں کو خود کار بنانا، شعبہ صحت میں بیماریوں کی جلد تشخیص، مؤثر علاج اور روبوٹک سرجری کے ذریعے پیچیدہ آپریشنز، موسمیاتی تبدیلی، آفات سے نجات میں مدد، صنعتی پیداوار میں اضافہ اور تعلیمی شعبے میں انفرادی ضرورت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنے میں مصنوعی ذہانت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت تحقیق و ترقی کے عمل کو تیز کرنے، قدرتی آفات کی پیشگوئی کرنے اور انسانوں کی زندگی کو آسان اور محفوظ بنانے میں بھی مددگار ہے۔ اس کی مدد سے گھنٹوں میں کیے جانے والے کام چند سیکنڈز میں پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صارفین کسی بھی وقت انسانی مداخلت یا وقفے کے بغیر مدد تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ بڑے ڈیٹا سیٹس کا تیزی سے تجزیہ کر کے انسانی غلطیوں سے وابستہ خطرات کو کم کرتے ہوئے بہتر فیصلہ سازی کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں نت نئی حیرت انگیز ایجادات ہو رہی ہیں جو انسانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی راہیں دکھا رہی ہیں۔ اس سب کے جہاں بے حد فوائد ہیں وہیں یہ اپنے ساتھ بڑے بھیانک خطرات بھی لیے ہوئے ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اثر ہمارے معاشرتی، اقتصادی، اخلاقی اور فلسفیانہ ڈھانچوں پر واضح طور پر پڑ رہا ہے۔ جہاں مصنوعی ذہانت نے انسان کو آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع دئیے ہیں، مگر اس کے غلط استعمال نے انسان کو اس کے فطری اور معاشرتی کردار سے دور کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی ترقی سے ملازمت کے مواقع پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آٹو میشن اور روبوٹکس کے آنے سے بہت سے لوگوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں جس کے باعث معاشرتی سطح پر غربت اور معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور ہر چیز کے لیے ڈیجیٹل آلات کی موجودگی نے انسانوں کو سست بنا دیا ہے۔ ایسے مسائل جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا آج معاشرہ ان کی لپیٹ میں ہے۔ جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے انسان اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو رہا ہے، اب اخلاقیات، محبت، ادب، شفقت، احترام، شرافت اور انسانیت کو بھول کر مشین بن رہے ہیں۔
پرائیویسی کا اس قدر فقدان ہے کہ موبائل فونز اور ایپلیکیشنز کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت اب ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ یہ ایپلیکیشنز ہماری روزمرہ کی گفتگو، ویب سرچز، جغرافیائی مقام اور بہت ساری ذاتی تفصیلات کو جمع و محفوظ کرتی ہیں، پھر ہر فرد کی پسند، نا پسند اور دلچسپیوں کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے۔ غرض ایک انسان جس قدر اپنی ذات سے واقف ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ مصنوعی ذہانت اس کی دلچسپیوں، پسند و نا پسند سے واقفیت رکھتی ہے۔ ان ہی دلچسپیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس انسان کی ٹائم لائن پر اشتہارات نشر کیے جاتے ہیں اور آن لائن مواد تجویز کیا جاتا ہے۔ جتنا جس پلیٹ فارم کا دورہ کیا جائے گا اور جس پر جتنا زیادہ وقت صرف کیا جائے گا وہ پلیٹ فارم اسی قدر زیادہ اشتہارات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔ اکثر اوقات ان تمام معلومات کا استعمال تجارتی مقاصد یا دیگر غیر متوقع طریقوں سے کیا جا تا ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جہاں اس نے کئی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں، وہاں اس کے خطرات بھی نظر آ رہے ہیں جیسے کے روزگار کی کمی، اظہارِ رائے کی آزادی یا کسی فرد کے حق کی خلاف ورزی، ذاتی معلومات کے تحفظ کا مسئلہ اور انسانی جذبات و اخلاقیات پر اثر ات۔ مصنوعی ذہانت کے سسٹمز صرف اتنے ہی اچھے ہیں جتنے ڈیٹا پر وہ تربیت یافتہ ہیں۔ اگر اس ڈیٹا میں تعصبات ہیں تو مصنوعی اے آئی الگورتھم غیر ارادی طور پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا استعمال جعلی خبریں پھیلانے یا لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے یہ سسٹمز انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو مکمل طور پر نقل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان سسٹمز کے اندر ایسے بہت سارے خلا موجود ہیں جنہیں بعض اوقات ہیکرز اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے معاشرتی نا ہمواری، اخلاقی زوال اور دیگر سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جن سے نمٹنے کیلئے مناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ حکمت، بصیرت اور اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی اثرات میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کا نظام زیادہ ترقی یافتہ ہوتا جاتا ہے، اس بات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ معاشرے کے لازم و ملزوم نظاموں پر اپنا کنٹرول کھو سکتے ہیں۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ موجودہ عدم مساوات کو بڑھا بھی سکتی ہے۔ جو لوگ مصنوعی ذہانت، تعلیم اور وسائل تک رسائی رکھتے ہیں وہ ملازمت میں ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہوں گے، جبکہ جو اس سب تک رسائی نہیں رکھتے انہیں معاشی پسماندگی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی صنعتیں دولت اور طاقت کو چند بڑی کارپوریشنز کے ہاتھ میں مرکوز کر سکتی ہیں، جو دولت کی عدم مساوات کو بڑھاتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اس کی نشوونما کے لیے ایک محتاط، متوازن نقطہ نظر کا تقاضا کرتی ہے۔ پالیسی سازوں، کاروباری اداروں اور تکنیکی ماہرین کو ایسے فریم ورک تخلیق کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو شفافیت، انصاف اور احتساب کو ترجیح دیں۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں عوامی فہم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے،وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو ایک سہولت کے طور پر استعمال کیا جائے نا کہ اسے زندگی کا محور بنا لیں۔ انسان کو چاہیے کہ ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، لیکن اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے اعتدال اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت اس کے علاوہ تک رسائی کے ساتھ کیا جا رہی ہے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

ٹام اینڈ جیری کا اے آئی ورژن: نئی ٹیکنالوجی سے کارٹون کی دنیا میں تہلکہ 

ٹام اینڈ جیری کا کارٹون سو فیصد اے آئی کی تخلیق اور صرف ٹیکسٹ پرامپٹ کے ذریعے بنایا گیا

نیویارک (شوبز ڈیسک) حال ہی میں ٹام اینڈ جیری کا مصنوعی ذہانت(اے آئی)کے ذریعے بنایا گیا نیا ورژن سامنے آیا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال رہا ہے۔

اسٹین فورڈ اور NVIDIA کے مشترکہ پروجیکٹ TTT-MLP نے صرف ٹیکسٹ پرامپٹ کی بنیاد پر بنائی گئی اس مختصر ویڈیو میں کارٹون کی اصل روح کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ و

یڈیو میں ٹام کو نیویارک کے ایک دفتر میں جیری کے ساتھ اسی پرانی چھیڑ چھاڑ کرتے دکھایا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ مناظر بے ربط ضرور ہیں، لیکن اینی میشن کا معیار اور بیک گرانڈ میوزک اتنا شاندار ہے کہ یہ اصل سیریز کا ہی حصہ محسوس ہوتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت روایتی اینی میشن کی جگہ لے سکتی ہے؟ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو لے کر کئی دلچسپ تبصرے سامنے آئے ہیں۔

کچھ صارفین نے اے آئی کی اس کامیابی کو سراہا ہے، جبکہ بہت سے لوگ اب بھی اصل کارٹون بنانے والوں کی محنت کو فوقیت دے رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا اصل ورژن کی بات ہی کچھ اور تھی، اس میں وہ جادو تھا جو اے آئی نہیں لا سکتی۔ یہ ترقی اینی میٹرز اور فنکاروں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔

کیا آنے والے وقت میں اے آئی روایتی اینی میشن فنکاروں کی جگہ لے لے گی؟ یا پھر یہ محض ایک نیا ٹول ثابت ہوگی جو فنکاروں کے لیے کام کو آسان بنائے گی؟ فی الحال تو یہ بحث جاری ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ ٹیکنالوجی کی یہ دوڑ ابھی جاری رہے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم جلد ہی ٹام اینڈ جیری کی مکمل سیزن اے آئی کے ذریعے بنے ہوئے دیکھ پائیں گے؟ یا پھر شائقین اصل فنکاروں کی محنت کو ہی ترجیح دیں گے؟

وقت ہی بتائے گا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی اینی میشن کی دنیا میں کس طرح کے انقلاب لے کر آئے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پریمیئر لیگ کے کھلاڑیوں سمیت 9 فٹبالرز میں ممنوعہ ادویات استعمال کرنے کا انکشاف
  • ٹام اینڈ جیری کا اے آئی ورژن: نئی ٹیکنالوجی سے کارٹون کی دنیا میں تہلکہ 
  • دنیا میں 30 لاکھ بچے ادویات اثر نہ کرنے کے سبب چل بسے، اصل وجہ کیا ہے؟
  • گورنر ہاوس لاہور میں اسرائیلی مصنوعات استعمال کرنے پر پابندی عائد
  • چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
  • پاک امریکا تجارتی تعلقات اور ٹیرف ریلیف پر کلیدی پیشرفت
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریفائنریوں کو بھی ریلیف
  • یہ بھکاری ’’ ترقی ‘‘ کی جانب گامزن
  • مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
  • چین اور اسپین کےدرمیان شعبہ فلم میں وسیع تعاون