ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نقصانات
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
مصنوعی ذہانت اب صرف سائنس فکشن کی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے بہت کم وقت میں دنیا کو اپنی محیر العقول ترقی سے محظوظ اور ہر شعبہ زندگی میں گہرائی تک رسائی حاصل کی ہے۔ مصنوعی ذہانت عصرِ حاضر کی ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہی انقلاب برپا کر رہی ہے۔ خود کار گاڑیوں سے لے کر ورچوئل اسسٹنٹ تک، مصنوعی ذہانت تیزی سے انسانی زندگی اور کام کرنے کے طریقوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ اس کے فوائد نا قابلِ شمار ہیں، جیسے تیز رفتار اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت، وقت اور وسائل کی بچت، مشکل اور پیچیدہ کاموں کو خود کار بنانا، شعبہ صحت میں بیماریوں کی جلد تشخیص، مؤثر علاج اور روبوٹک سرجری کے ذریعے پیچیدہ آپریشنز، موسمیاتی تبدیلی، آفات سے نجات میں مدد، صنعتی پیداوار میں اضافہ اور تعلیمی شعبے میں انفرادی ضرورت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنے میں مصنوعی ذہانت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت تحقیق و ترقی کے عمل کو تیز کرنے، قدرتی آفات کی پیشگوئی کرنے اور انسانوں کی زندگی کو آسان اور محفوظ بنانے میں بھی مددگار ہے۔ اس کی مدد سے گھنٹوں میں کیے جانے والے کام چند سیکنڈز میں پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ صارفین کسی بھی وقت انسانی مداخلت یا وقفے کے بغیر مدد تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ بڑے ڈیٹا سیٹس کا تیزی سے تجزیہ کر کے انسانی غلطیوں سے وابستہ خطرات کو کم کرتے ہوئے بہتر فیصلہ سازی کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں نت نئی حیرت انگیز ایجادات ہو رہی ہیں جو انسانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی راہیں دکھا رہی ہیں۔ اس سب کے جہاں بے حد فوائد ہیں وہیں یہ اپنے ساتھ بڑے بھیانک خطرات بھی لیے ہوئے ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اثر ہمارے معاشرتی، اقتصادی، اخلاقی اور فلسفیانہ ڈھانچوں پر واضح طور پر پڑ رہا ہے۔ جہاں مصنوعی ذہانت نے انسان کو آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع دئیے ہیں، مگر اس کے غلط استعمال نے انسان کو اس کے فطری اور معاشرتی کردار سے دور کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی ترقی سے ملازمت کے مواقع پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آٹو میشن اور روبوٹکس کے آنے سے بہت سے لوگوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں جس کے باعث معاشرتی سطح پر غربت اور معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور ہر چیز کے لیے ڈیجیٹل آلات کی موجودگی نے انسانوں کو سست بنا دیا ہے۔ ایسے مسائل جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا آج معاشرہ ان کی لپیٹ میں ہے۔ جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے انسان اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو رہا ہے، اب اخلاقیات، محبت، ادب، شفقت، احترام، شرافت اور انسانیت کو بھول کر مشین بن رہے ہیں۔
پرائیویسی کا اس قدر فقدان ہے کہ موبائل فونز اور ایپلیکیشنز کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت اب ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ یہ ایپلیکیشنز ہماری روزمرہ کی گفتگو، ویب سرچز، جغرافیائی مقام اور بہت ساری ذاتی تفصیلات کو جمع و محفوظ کرتی ہیں، پھر ہر فرد کی پسند، نا پسند اور دلچسپیوں کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے۔ غرض ایک انسان جس قدر اپنی ذات سے واقف ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ مصنوعی ذہانت اس کی دلچسپیوں، پسند و نا پسند سے واقفیت رکھتی ہے۔ ان ہی دلچسپیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس انسان کی ٹائم لائن پر اشتہارات نشر کیے جاتے ہیں اور آن لائن مواد تجویز کیا جاتا ہے۔ جتنا جس پلیٹ فارم کا دورہ کیا جائے گا اور جس پر جتنا زیادہ وقت صرف کیا جائے گا وہ پلیٹ فارم اسی قدر زیادہ اشتہارات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔ اکثر اوقات ان تمام معلومات کا استعمال تجارتی مقاصد یا دیگر غیر متوقع طریقوں سے کیا جا تا ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جہاں اس نے کئی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں کی ہیں، وہاں اس کے خطرات بھی نظر آ رہے ہیں جیسے کے روزگار کی کمی، اظہارِ رائے کی آزادی یا کسی فرد کے حق کی خلاف ورزی، ذاتی معلومات کے تحفظ کا مسئلہ اور انسانی جذبات و اخلاقیات پر اثر ات۔ مصنوعی ذہانت کے سسٹمز صرف اتنے ہی اچھے ہیں جتنے ڈیٹا پر وہ تربیت یافتہ ہیں۔ اگر اس ڈیٹا میں تعصبات ہیں تو مصنوعی اے آئی الگورتھم غیر ارادی طور پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا استعمال جعلی خبریں پھیلانے یا لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے یہ سسٹمز انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو مکمل طور پر نقل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان سسٹمز کے اندر ایسے بہت سارے خلا موجود ہیں جنہیں بعض اوقات ہیکرز اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے معاشرتی نا ہمواری، اخلاقی زوال اور دیگر سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جن سے نمٹنے کیلئے مناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ حکمت، بصیرت اور اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی اثرات میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کا نظام زیادہ ترقی یافتہ ہوتا جاتا ہے، اس بات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ معاشرے کے لازم و ملزوم نظاموں پر اپنا کنٹرول کھو سکتے ہیں۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ موجودہ عدم مساوات کو بڑھا بھی سکتی ہے۔ جو لوگ مصنوعی ذہانت، تعلیم اور وسائل تک رسائی رکھتے ہیں وہ ملازمت میں ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہوں گے، جبکہ جو اس سب تک رسائی نہیں رکھتے انہیں معاشی پسماندگی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی صنعتیں دولت اور طاقت کو چند بڑی کارپوریشنز کے ہاتھ میں مرکوز کر سکتی ہیں، جو دولت کی عدم مساوات کو بڑھاتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اس کی نشوونما کے لیے ایک محتاط، متوازن نقطہ نظر کا تقاضا کرتی ہے۔ پالیسی سازوں، کاروباری اداروں اور تکنیکی ماہرین کو ایسے فریم ورک تخلیق کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو شفافیت، انصاف اور احتساب کو ترجیح دیں۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں عوامی فہم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے،وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو ایک سہولت کے طور پر استعمال کیا جائے نا کہ اسے زندگی کا محور بنا لیں۔ انسان کو چاہیے کہ ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، لیکن اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے اعتدال اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت اس کے علاوہ تک رسائی کے ساتھ کیا جا رہی ہے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
میٹا کا 2025 میں مصنوعی ذہانت پر 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
میٹا نے 2025 میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 2025 اے آئی کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہوگا اور اس میں میٹا کا کردار نمایاں ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کمپنی اپنے اے آئی منصوبوں کے تحت ایک نیا اور جدید ڈیٹا سینٹر تعمیر کرے گی، جس سے میٹا کی بنیادی مصنوعات اور کاروباری شعبوں میں مزید ترقی ہوگی۔
زکربرگ نے کہا کہ اس سرمایہ کاری سے نئی ٹیکنالوجیز کی راہ ہموار ہوگی اور امریکی ٹیکنالوجی میں قیادت کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اے آئی انفراسٹرکچر میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ذکر کیا تھا۔
ٹرمپ کے اس اعلان پر ان کے اتحادی ایلون مسک نے کہا تھا کہ اس رقم کے لیے درکار فنڈز حقیقت میں موجود نہیں ہیں۔
مائیکروسافٹ کے صدر بریڈ اسمتھ نے بھی اس مالی سال کے دوران اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر، اے آئی ماڈلز کی تربیت، اور کلاؤڈ بیسڈ ایپلی کیشنز کی ترقی کے لیے تقریباً 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بریڈ اسمتھ نے اپنی ایک آن لائن پوسٹ میں کہا کہ امریکا نئی ٹیکنالوجی کی لہر میں سب سے آگے رہنے کے لیے بھرپور تیاری کے ساتھ موجود ہے۔