Nai Baat:
2025-01-27@16:54:55 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

’’1857 اور طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے یہ کالم میں نے 27 نومبر 2023 کو لکھا تھا جب طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف پچاس دن ہوئے تھے۔ اس وقت دور دور تک اس معرکے کے حتمی نتائج کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا اور تجزیہ کار حماس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور اہل فلسطین کی تباہی و بربادی کے نوحے لکھ رہے تھے۔ تب میں نے لکھا تھا کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں 1857 اور 7 اکتوبر 2023 جیسے واقعات ضرور آتے ہیں اور یہی واقعات کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے اقدام کا فیصلہ تاریخ نے کرنا اور آج 470 دن گزرنے کے بعد تاریخ کا فیصلہ 8 ارب انسانوں کے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ اس فیصلے کے مزید نتائج آنا ابھی باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کی شکست کو تسلیم کر چکا ہے اور حماس واہل فلسطین کے جذبوں نے دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں پرانی تحریر کو دہرانے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں لیکن نئی خامہ فرسائی سے بہتر تھا کہ تاریخ کی گواہی کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

1857 کا معرکہ تاریخ کے صفحات پر کس نام سے درج ہے غدر یا جنگ آزادی؟ اگر یہ سوال 1857 یا اس سے ایک دو سال بعد کیا جاتا تو شاید کسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہ ہوتا لیکن آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد تاریخ اس قضیے کو طے کر چکی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ یہ معرکہ صرف معرکہ نہیں بلکہ یہ تحریک پاکستان کی شروعات تھی۔ یہ معرکہ صرف معرکہ یا غدر نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی منظم کوشش اور پہلی جنگ آزادی تھی۔ مؤرخ، جج، صحافی، تجریہ کار، سیاستدان، عالم دین اور برصغیر میں رہنے والا عام انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے اگر برصغیر کی تاریخ میں 1857 نہ آتا تو شاید ہندوستان آج بھی سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ہوتا اور شاید آج پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ ملک بھی نہ ہوتے۔ 1857 کے حوالے سے آج تک جتنا لٹریچر شائع ہوا سب میں اسے جنگ آزادی کا عنوان دیا گیا۔ اگرچہ تاریخ میںکچھ ایسے کردار بھی سامنے آئے جنہوں نے اس معرکے کو جنگ آزادی کی بجائے غدر کا عنوان دیا مگر تاریخ نے ان کرداروں اور ان کے دئیے گئے عنوانات کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔ مثلاً سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کے بانیوں میں سے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی قربانیوں اور دردمندی کا زمانہ گواہ ہے مگر ان کے نامہ اعمال میں ایک غلطی ایسی تھی جو ہر عہد میں نمایاں رہی اور نہ جانے کب تک ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ 1857 کا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سر سید احمد خان قلم کاغذ تھام کر اس کے اسباب لکھنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دے دیا اور رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر برطانوی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔ انگریز ان کی کوششوں سے تو مطمئن نہ ہوا البتہ اس نے چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ سر سید احمد خان نے اپنے تئیں معاملات کی توجیہ اور وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ انتہا پر چلے گئے اور اس انتہا پر پہنچ کر ان سے وہ غلطی ہوئی جو تاحال ان کا پیچھا کر رہی ہے اور نہ جانے کب ان کے نامہ اعمال میں کھٹکتی رہے گی۔ اس غلطی نے بہت سارے اہل علم کو ان کے بارے میں سوئے ظن مبتلا کر دیا۔ بہر حال ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، سر سید احمد خان ہوں یا کوئی اور جس نے بھی 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا عنوان دیا تاریخ نے ان کو پذیرائی نہیں بخشی۔

قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب انہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے سامنے سرنڈر کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے غلامی کے طوق کو قبول کرنا ہے یا اپنی مقدور بھر طاقت جمع کر کے آزادی کے بھجتی چنگاری کو سلگاتے رہنا ہے۔ اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جو کیا اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندوستان کے لیے 1857 کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے 1857 کو نکال دیا جائے تو ہندوستان کے پاس کچھ نہیں بچتا اور اگر 1857 نہ ہوتا تو آج ہندوستان کا وجود اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اسی طرح اگر اہل فلسطین کی تاریخ میں سات اکتوبر نہ آتا تو آج ان کا بیانیہ معدوم ہو چکا ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اسرائیل کے قیام کو جواز بخش چکی تھی، مسلم ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ سعودیہ اور یو ای اے جیسے ممالک میں باقاعدہ آمد و رفت شروع ہو چکی تھی، کئی ممالک میں سفارت خانے فعال ہو چکے تھے اور پاکستان جیسے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا بیانیہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو تاریخ کے صفحات سے محو کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں حماس نے الاقصیٰ نامی طوفان برپا کر کے یہ اعلان کر دیا کہ وہ یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ حماس اور اہل فلسطین کو اندازہ تھا کہ اس کی انہیں قیمت چکانا پڑے گی، آج وہ یہ قیمت چکا رہے ہیں مگر وہ تاریخ اور اپنے عہد میں دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ ان کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور وہ ممالک جو ڈیڑھ ماہ پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین تھے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اہل فلسطین کے لیے یہ فیصلہ اور یہ لمحات مشکل تو ہیں لیکن زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے طوق کو قبول کرنے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہیں، یہی سب کچھ 1857 میں ہوا تھا اور یہی فیصلہ اہل فلسطین نے کیا ہے۔

1857 میں بھی مصلحت پسندوں نے کہا تھا کہ سلطنت برطانیہ جیسی منظم طاقت سے ٹکرانا کوئی عقل مندی نہیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی اس عہد کی عقل مندی تھی۔ قوموں کے بعض اقدامات کا فیصلہ وقت نہیں تاریخ کرتی ہے اور 1857 کے اقدام کے درست ہونے کی گواہی آج تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور اہل فلسطین کو اس سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے اور تاریخ زندہ قوموں کے ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں بہت سارے مصلحت پسندوں نے حماس اور اہل فلسطین کو مطعون کیا، انہیں اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے تئیں یہ فیصلے صادر کیے کہ اہل فلسطین کو اس جنگ سے سوائے لاشوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اہل فلسطین کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا، انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ یورپ و امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اہل فلسطین صبر کرتے اور جب تک اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی اور جنگی صلاحیت حاصل نہ کر لیتے اس جنگ میں نہ کودتے۔ ایسے مصلحت پسند 1857 میں بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور تاریخ کے ہر موڑ پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جنگیں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے نہیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور اہل فلسطین نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ انہوں نے اس جنگ سے وہ حاصل کر لیا ہے جو اسرائیل اور اس کے ہمنوا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت آشکار ہوئی ہے۔ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے اور فلسطینی بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔ زندہ قوموں کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے اتنے خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ اگر چند ہزار فلسطینیوں کی شہادت سے اہل فلسطین کا بیانیہ از سر نو زندہ ہو گیا ہے اور دنیا اسرائیل کے بارے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ سات اکتوبر 2023 کا دن اہل فلسطین کے لیے 1857 کی حیثیت رکھتا ہے اور 1857 کی برصغیر پاک و ہند میں کیا حیثیت ہے اس سے ساری دنیا آگاہ ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اور اہل فلسطین طوفان الاقصی کی تاریخ میں اسرائیل کے کا بیانیہ تسلیم کر کا فیصلہ تاریخ کے تاریخ نے تھا کہ کے لیے کے نام ہے اور کر دیا اور اس

پڑھیں:

الخدمت فاؤنڈیشن کا 15ارب سے غزہ بحالی پراجیکٹ

7اکتوبر وہ بدقسمت دن تھا جب غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں پر مسلط ہونے والی اسرائیلی جنگ نے ان کیلئے زندگی مشکل بنا دی اس جنگ کے آغاز ہی سے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ،سیکرٹری جنرل سید وقاص انجم جعفری صاحب کی نگرانی میں ساڑھے 5 ارب روپے مالیت سے غزہ کے محصورین کیلئے امدادی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں سینئرمنیجر میڈیا ریلیشنز الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان شعیب ہاشمی نے۔ بتایا کہ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت 16 ائیر کارگو طیارے۔3بحری جہاز،اردن قاہرہ سے 50امدادی ٹرک 3,310ٹن کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی گئیں۔الخدمت اکیڈمک سکالرشپ پروگرام کے تحت 400 میڈیکل و انجینئرنگ کے طلباء کی ماہانہ مالی معاونت ،2الخدمت غزہ سکول جبکہ قائرہ میں غزہ کے مہاجرین کیلئے الخدمت سکولز میں 300 طلبہ و طالبات کی تعلیمی معاونت کی الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت اہل غزہ و مہاجرین کیلئے اب تک 35000فوڈ بیگز۔225?066 فوڈکین 171?398پک پکائے کھانے کے فوڈ کین ،14000آٹے کے تھیلے ،20892 چاول بیگز،17442افطارپیک،88000پانی کی بوتلیں ،522?000 جیری کین ،اور 59?512دیگر فورڈ اشیاء فراہم کی گئیں ۔

اسرائیل حماس میں جنگ بندی معاہدے کے بعد الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے غزہ میں جاری امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیرنو کے حوالے سے الخدمت فاؤنڈیشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن، سیکرٹری جنرل سید وقاص جعفری اور نائب صدور سمیت دیگر ذمہ داران نے خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمنٰ نے غزہ کی عوام کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیر نو کے حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے گزشتہ 15 ماہ میں ساڑھے 5 ارب روپے کی امدادی سرگرمیوں کے بعدا گلے 15 ماہ کے لیے ریلیف اور بحالی و تعمیر کے لیے 15 ارب روپے سے ’’ری بلڈ غزہ‘‘ مہم کا آغاز کر دیا ہے جس میں متاثرین کو عارضی شیلٹر، اشیائے ضروریات، اشیائے خوردونوش ، طبی سہولیات، ایمبولینس، موبائل ہیلتھ یونٹس، ادویات اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ابتدائی طور پر غزہ میں1 ہسپتال کی بحالی، مکمل یا جزوی طور پر متاثرہ 5 سکولوں کی تعمیر نو اور 25 مساجد کی تعمیر و بحالی کی جائے گی۔ غزہ کے متاثرین کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 100سے زائد صاف پانی کے منصوبہ جات، مکانات اور چھت کی فراہمی کے لیے رہائشی ٹاوراور 3000 یتیم بچوں کی مستقل کفالت منصوبے کا حصہ ہے۔ صدر الخدمت نے مزید کہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے بلکہ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے باعث لاکھوں متاثرین بے سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی عوام نے پہلے بھی اہل غزہ کے لیے دل کھول کر مدد کی اور ہمیں یقین ہے کہ اب بھی اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی بحالی و تعمیر نو کے لیے آگے بڑھیں گے۔الخدمت اس سلسلے میں اپنے پارٹنر اداروں کے اشتراک سے فیلڈ میں موجود ہے اور اہل غزہ کے لیے ہر ممکن امداد جاری رکھے ہوئے ہے دوسری طرف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے دوحہ قطر میں حماس کے سربراہ حسن درویش، سابق سربراہ خالد مشعل، مرکزی رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ اور دیگر مرکزی قائدین سے ملاقات کی جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔

حافظ نعیم الرحمن نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے اور پندرہ ماہ تک مکمل ثابت قدمی کے ساتھ مزاحمت کرنے پر اہل غزہ اور حماس کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنان اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے موجود رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کل بھی اہل غزہ کے شانہ بشانہ تھی اور آئندہ بھی رہے گی، پاکستان کے عوام غزہ کی تعمیر نو میں اپنا فرض ادا کریں گے۔ ہم اس اہم موڑ پر اہل پاکستان کی جانب سے اظہار یکجہتی کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور غزہ کے ساٹھ ہزار شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ حماس اور اہل غزہ نے پوری امت کے لئے ایک قابل تقلید مثال پیش کی ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے جنگی اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ فلسطین کی سرزمین مکمل طور سے فلسطینیوں کا وطن ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر صرف ایک ریاست کا جائز وجود ہے اور وہ فلسطین ہے۔ فلسطین کی سرزمین کے ایک انچ پر بھی اسرائیل کا وجود ناقابل قبول ہے۔ فلسطین اور القدس کی مکمل آزادی تک اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
حماس کے سربراہ حسن درویش نے اہل فلسطین کی جانب سے جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کی ریلیف سرگرمیوں اور پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے ماضی میں بھی امت کے مسائل کے حل کے لئے قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ہم ان سے کلیدی کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے عوام لاکھوں کی تعداد میں اپنے تباہ حال گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ بحالی اور تعمیر نو کے کام میں ہم پاکستان کی حکومت اور عوام سے تعاون کی امید رکھتے ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن نے حماس کی قیادت کو یقین دلایا کہ وہ ہر فورم پر فلسطین کی آزادی کی آواز اٹھا تے رہیں گے۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی ممتاز شخصیات کا ایک وفد تشکیل دیا جائے گا جو بعض اہم ممالک کا دورہ کرے گا۔ امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں وزیر اعظم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کریں گے اس ملاقات کے فوراً بعد امیر جماعت اسلامی نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کو غزہ کے متاثرین کے لئے فوری طور سے دس ہزار خیمے بھیجنے کی ہدایت کی۔
ماہ رمضان المبارک اہل ایمان پر سایہ فگن ہونے والا ہے الحمدللہ اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد میں اہلِ ثروت حضرات انفاق فی سبیل اللہ کی راہ میں اربوں روپے مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں کاروبار سے وابستہ صنعتکار کارخانہ دار تاجر حضرات اس کار خیر کے کام میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ہم اس ضمن میں اہلِ ثروت حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں تعمیر بحالی کے منصوبے میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے ساتھ حسب سابق مالی تعاون کریں پاکستانی قوم نے اسلامی ایمانی، انسانی، فلاحی جذبے کے تحت فلسطین سمیت جہاں کہیں بھی مسلم ممالک کے عوام کو ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور الخدمت فاؤنڈیشن کی ٹیم نے اہل پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے امانت دیانت کے ساتھ فلسطین کے مظلوموں اور سیلاب زلزلہ یا کوئی اور ناگہانی آفت کے متاثرین تک امداد پہنچائی ہے پاکستان کے تمام چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز۔تنظیم تاجران پاکستان۔ انجمن تاجران پاکستان مارکیٹوں کی آرگنائزیشنز، ٹرانسپورٹرز اور دیگر کاروبار سے وابستہ بزنس مین عوام الناس کے تمام طبقات الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے غزہ فلسطین کی تعمیر و بحالی کے پروگرام میں مالی تعاون کریں۔

متعلقہ مضامین

  • الخدمت فاؤنڈیشن کا 15ارب سے غزہ بحالی پراجیکٹ
  • یوکرین سے فلسطین
  • بھر م بلندی کا…..
  • غزہ کے بعد
  • سماجی ابلاغ کے طوفان میں لرزتی سماجی روایات
  •  مریم نواز کے اقدامات انقلابی، اتنے منصوبے ملکی تاریخ میں کسی نے شروع نہیں کئے: عظمیٰ بخاری
  • احوال غزہ و فلسطین
  • برطانیہ، آئرلینڈ میں طوفان، ایک ہزار پروازیں منسوخ
  • برطانیہ میں طوفان سے تباہی کا خطرہ،امریکا میں ٹھنڈ سے 10 ہلاک