دہشت گرد! قومی دھارے میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے پیچھے براہ راست بھارت اور دیگر دشمن ممالک ملوث ہیں جن کا اصل مقصد پاکستان کو معاشی اور دفاعی طور پر کمزور کرنا ہے، سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارت نے اس صوبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ جس کے لیے ازلی دشمن بھارت نے پہلے بلوچستان میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کی چنگاری سلگائی، علیحدگی پسند، شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی بنیادیں رکھیں پھر انہیں اپنی ہی ریاست کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ، ٹریننگ اور فنڈنگ فراہم کی، اس طرح بلوچستان میں باقاعدہ دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ دہشت گرد تنظیموں نے کریمہ بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، صبیحہ بلوچ جیسے اپنے ایجنٹوں اور سہولت کاروں کے ذریعے کالجز، یونیورسٹیوں میں تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں اور طالبات کو ریاستی مظالم کی جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں سنا کر ورغلایا اور پھر انہیں معصوم بے گناہ افراد کو شہید کرنے کا ٹارگٹ دیا،چند روز قبل بلوچستان میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کے چار اہم کمانڈرز نے ہتھیار ڈال دئیے، کمانڈر نجیب اللہ، چنگیز خان، فراز بشیر اور عبدالرشید قومی دھارے میں شامل ہو گئے۔ جو کہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے اہم دہشت گرد بی آر پی کے کمانڈر نجیب اللہ نے بتایا کہ دشمن ممالک ریاست پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نجیب اللہ نے بتایا کہ اس نے 2005ء میں دہشت گرد تنظیم بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) میں شمولیت اختیار کی تھی، براہمداغ بگٹی کے کہنے پر دو گروپس بنائے، ایک گروپ کی قیادت خود نجیب اللہ جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت گلزار امام شنبے کر رہا تھا، ان گروپس کی قلات میں ٹریننگ کرائی گئی جس کے بعد ریاست اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ نجیب اللہ نے مزید بتایا کہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو استعمال کرتی ہیں، جھوٹے وعدوں اور گمراہ کن پراپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے، پہاڑوں پر دو قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے ایک جسمانی ٹریننگ اور دوسری ذہنی ٹریننگ جس میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھا کر نوجوانوں کا برین واش کیا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر موجود نوجوانوں کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں اور دہشت گردوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دشمن ممالک کے ہینڈلزر کے عزائم کو دیکھ کر میری آنکھوں سے آزادی کی پٹی کھل گئی۔ ڈاکٹر اللہ نذر، ہر بیار مری، مہران مری، جاوید مینگل بیرونی ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مجھے دشمن ہمسایہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگوں نے ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے تعاون کرنے کا کہا، جس پر مجھے احساس ہوا کہ تمام دہشت گرد تنظیمیں غیر ملکی انٹیلی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہیں، وہاں سے میرا آزادی کا سفر شروع ہوا، نوجوانوں کو پیغام ہے کہ کسی بہکاوے میں آ کر ریاست کے خلاف مہم جوئی کا حصہ نہ بنیں، آج ان نوجوانوں کے پاس موقع ہے کہ واپسی کر سکتے ہیں۔ BNA کے کمانڈر عبدالرشید نے بتایا کہ وہ بی ایل ایف کے کمانڈر عابد زعمرانی کی برین واشنگ کی وجہ 2009 میں BLF میں شامل ہوا 2013 میں دلیپ شکاری کے پاس چلا گیا، 2016 میں BRA میں شامل ہوا، گلزار امام شنبے، دلیپ شکاری، مقدم مری، ماسٹر سلیم سے اس کے قریبی رابطے تھے۔ 2018ء میں BRA ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو وہ بلوچ نیشنلسٹ آرمی BNA میں شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی زندگی کے پندرہ سال ان تنظیموں کے ساتھ گزارے ہیں جس پر اسے پچھتاوا ہے اور ان کا اصل روپ دیکھ کر ان سے کنارہ کش ہو کر قومی دھارے میں شامل ہوا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی BLA کے کمانڈر 18 سالہ چنگیز خان نے بتایا کہ وہ آواران کے علاقہ مشکے کا رہائشی ہے، بی ایل اے کے سہولت کاروں نے اس کی ذہن سازی کر کے اسے گمراہ کیا اور ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسایا، اسی طرح 15 سالہ بشیر فراز نے بتایا کہ وہ بھی آواران کے علاقہ مشکے کا رہائشی ہے اور وہ موٹر سائیکل اور ایک لاکھ روپے کے لالچ میں آ کر دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو گیا۔ واضح رہے کہ یہ صرف چار کہانیاں نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح بلوچ قوم، نوجوانوں اور خواتین کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بلوچوں کے حقوق یا بلوچستان کے مفادات کی نہیں بلکہ ڈالروں اور غیر ملکی مفادات کی جنگ ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے دشمن ممالک کی ایما پر ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی ادارے ولسن سنٹر نے کالعدم تنظیم بی ایل اے کے گھناؤنا کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے دہشت گردوں کی جانب سے بلوچ خواتین کے استحصال سے متعلق ہوش ربا انکشافات کیے ہیں۔ ولسن سنٹر واشنگٹن کا ایک مستند تھنک ٹینک ہے جس کی رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کی جانب سے دہشتگرد کارروائیوں میں بلوچ خواتین کا استحصال کرنے کے مستند شواہد موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچ دہشت گرد تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے بلوچ خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث ہے، بی ایل اے عدیلہ بلوچ جیسی خواتین کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات کیلئے بھرتی کرتی ہے، بی ایل اے نے عدیلہ بلوچ کو نفسیاتی اور ذہنی دبائوکے بعد ناکام خود کش حملے پر مجبور کیا۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیمیں خواتین کی نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرتی ہیں، بی ایل اے خواتین کو خود کش بمباروں کے طور پر بھرتی کرنے کیلئے جنسی درندگی کرتی ہے۔ عدیلہ بلوچ، شاری بلوچ اور ماہل بلوچ کو بی ایل اے نے سماجی اور نفسیاتی دبائو پر خود کش بمبار بننے پر مجبور کیا۔ رپورٹ کے مطابق تربت کی 27 سالہ عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے فریب سے اپنے جال میں پھنسایا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق عالمی برادری کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے مکروہ عزائم کا نوٹس لینا چاہیے، عالمی سطح پر بی ایل اے کی دہشتگردی کی مذمت سے واضح ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے) ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں میں شامل ہو دشمن ممالک عدیلہ بلوچ نجیب اللہ کے کمانڈر بی ایل اے
پڑھیں:
اختر مینگل کا دھرتنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ
کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 اپریل 2025ء ) بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے دھرنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرلیا، اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت نامے بھجوا دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر پیر کو کوئٹہ میں کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ کانفرنس دھرنے کے مقام پر منعقد کی جائے گی، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ سردار اختر مینگل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں بلوچ لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات اور بلوچستان کو درپیش سنگین مسائل پر غور کیا جائے گا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین سیاسی کارکنوں کی رہائی بی این پی کا بنیادی مطالبہ ہے لیکن صوبائی حکومت بلوچ خواتین کارکنوں کی گرفتاری جیسے حساس معاملات پر سنجیدہ نہیں اور یہی ریاست کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ تین مرتبہ مذاکرات کیے گئے لیکن کوئی بامعنی نتیجہ نہیں نکلا، بلوچستان ایک بار پھر ریاستی جبر کا شکار ہے اور پانچویں فوجی آپریشن سے گزر رہا ہے، جو لوگ کبھی پرامن احتجاج کرتے تھے وہ اب پہاڑوں میں چلے گئے ہیں کیوں کہ جبری گمشدگیوں اور لاشوں کے پھینکے جانے جیسے مظالم نے احتجاج کا دروازہ بند کر دیا ہے، خواتین قانون سازوں کو آئینی ترامیم کے لیے ووٹ دینے پر اغوا اور دباؤ کا سامنا ہے، بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان کے عوام کے ساتھ مخلص نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر صوبے کے وسائل پر قبضہ کر رہی ہیں۔