Nai Baat:
2025-01-27@17:07:36 GMT

یوکرین سے فلسطین

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

یوکرین سے فلسطین

بلاضرورت جنگوں نے دنیا کے اہم ترین ممالک کی اقتصادیات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کی دہشت دنیا پر طاری رہی، اب ان کا وہی حال ہے جو غریب پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں کا ہے، بس بھرم سا ہے کچھ کا تو وہ بھی نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے صدور وزرائے اعظم بلکہ بعض کے تو آرمی چیف بھی ان ممالک کے مارکیٹنگ منیجر کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی صدر بھی اب اسی شمار میں آ گئے ہیں ان کا انداز قدرے مختلف ہے۔ وہ دو سو سے زائد ڈائریکٹو جاری اور ان پر عملدرآمد کرنے کے بعد اب ان لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، جنہوں نے ان کا ایک پیغام موصول ہونے کے باوجود اپنے عہدوں سے استعفے نہیں دیئے۔ دیکھنا ہے وہ برطرف کر دیئے جاتے ہیں یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی بعض سرگرم سیاسی شخصیات ان کے لے کام جاری رکھنے کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔

امریکی صدر نے اپنی ایک تقریر میں سعودی عرب کی طرف سے امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اس انویسٹمنٹ کا اعلان کچھ عرصہ قبل ایک خلیجی اخبار نے کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ انویسٹمنٹ کم ہے۔ وہ ایک ٹریلین ڈالر کی انویسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے یہ بھی کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے، اس کے وسائل بہت زیادہ ہیں۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں انویسٹمنٹ کرتا ہے لیکن اپنی پالیسی کے مطابق صدر ٹرمپ کی طرف سے اس فرمائش کے فوراً بعد ’’جذبہ خیرسگالی‘‘ کے طور پر ان کی طرف سے ایک ٹریلین ڈالر انویسٹمنٹ کا اعلان سامنے آ سکتا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے گزشتہ زمانہ اقتدار میں سعودی ولی عہد کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کرائون پرنس کو پسند کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اپنی فرمائش کے اظہار کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے احسانات بھی جتلائے ہیں لیکن بڑی طاقتیں اور ان حکومتوں کے سربراہ ان احسانات کا کبھی ذکر تک نہیں کرتے جو یہ ملک امریکہ پر کرتے ہیں، مثلاً وہ پاکستان کی ان قربانیوں کا ذکر کریں گے جو ان کی حمایت میں ان کے مخالفین سے ہم نے جنگیں لڑیں بالخصوص ان سے جن سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا۔ ان جنگوں میں پاکستان کو بھاری جانی اور اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس حوالے سے دی گئی امداد کا جو چرچا کیا جاتا ہے اس میں کافی مبالغہ ہے۔ پاکستان میں وہ سڑکیں اُدھڑ کر رہ گئیں جہاں سے اسلحہ کے ٹرالر گزر کر افغانستان جاتے تھے۔ ڈرون اٹیک کی زد میں آ کر پاکستانی مرد و زن بھی نشانہ بنتے رہے۔ ملک کو حالت جنگ میں دیکھ کر اس قدر انویسٹمنٹ پاکستان نہ آئی جو پُرامن پاکستان میں آسکتی تھی۔ یہ تمام قربانیاں کم نہیں ہیں۔

امریکی صدر سعودی عرب سے تیل کی قیمتیں فوری طور پر کم کرانا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی وہ یہ شکوہ نہیں بھولے کہ اب تک تو یہ قیمتیں کم ہو جانا چاہیے تھیں کیونکہ روس نے قیمتیں کم کر کے اپنی سیل بڑھا لی، یوں اسے کثیر آمدن کے سبب یوکرین کی جنگ جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ٹرمپ کے خیال میں اگر سعودی عرب کی طرف سے تیل کی قیمتیں گزشتہ برس ہی کم کر دی جاتیں تو اب تک یوکرین کی جنگ ختم ہو چکی ہوتی۔ حیرت کی بات ہے انہوں نے یورپی ممالک اور بالخصوص امریکہ کی طرف سے دوران جنگ اسرائیل کو کی جانے والی اسلحہ کی ترسیل اور دی جانے والی اربوں ڈالر امداد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، ان میں کچھ امدادی پیکیج تو ایسے تھے جن کے لیے خصوصی طور پر کانگریس سے منظوری حاصل کی گئی۔ یہ امداد نہ ہوتی تو فلسطین میں جنگ جلد بند ہو جاتی۔ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ اس جنگ کے خاتمے سے بعض ملکوں کی اقتصادیات پر منفی اثر پڑے گا جو اسلحہ فروخت کرنے کے علاوہ بعض دیگر اہم اشیا براہ راست یا بالواسطہ متحارب ممالک کو فراہم کر رہے تھے لیکن دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ جنگ توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور مخالف پر گہری نظر رکھنے کے لیے شروع ہوئی جس میں بعض دیگر ممالک امریکہ کے اتحادی ہونے کے سبب یا اس کی شہ پر اس میں کود پڑے، رسوا ہوئے اور پھر اس جنگ سے نکل گئے۔

کوریا کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کو آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اس کی اقتصادی حالت بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن پاکستان کے کچھ بااثر خاندانوں ان کی کمپنیوں نے اس میں سپلائی کے کام میں خوب مال کمایا۔ انہی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد حکومتوں میں شامل تھے لہٰذا پالیسیاں ایسی ہی بنیں جن میں ان پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ نہ پڑا یوں یہ خاندان اس دور میں ارب پتی ہو گئے۔ جب کسی نے کروڑ روپے کا ذکر نہ سنا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ بنا کسی لگی لپٹی کے اپنے خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے الوداعی تقریب میں سابق صدر جوبائیڈن کے سامنے انہیں امریکہ کا کمزور ترین صدر کہا۔ وہ کئی روز سے جوبائیڈن اور اس کی حکومت سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں، چند روز قبل انہوں نے وہ تمام قلم تلف کرنے کا حکم دیا جن سے جوبائیڈن نے مختلف احکامات جاری کیے۔ دنیا ان کے اس طرز عمل سے متفکر نظر آتی ہے کہ ٹرمپ ان کی لیڈرشپ سے کیا برتائو کریں گے۔ امریکی صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد دنیا کے جن چار ممالک کے اہم افراد سے ملاقات کی ہے ان میں بھارت اور آسٹریلیا کے اہم سفارتکار شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کی ٹرمپ کی نظر میں کیا اہمیت ہے۔ دنیا بھر کے سفارتکار اپنے اپنے مقاصد کے پیش نظر واشنگٹن میں موجود ہیں۔ ہمارا سفارتخانہ اور اس سے منسلک سفارتی شخصیات کیا کر رہی ہیں، کسی کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ گمان ہے امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی شخصیت کی جگہ کوئی اور لے سکتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہ ہو گی بلکہ اسے معمول کی تبدیلی ہی سمجھنا چاہئے۔ پاکستان اور امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ایسی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر گزشتہ ماہ امریکہ جا چکے ہیں۔
امریکی صدر کے قریبی حلقے ٹرمپ کے دنیا کو بدلنے کے ارادوں کی بات کرتے ہیں لیکن یاد رہے امریکہ کے علاوہ اور بھی ممالک ہیں جو دنیا کو اپنے انداز سے چلانا چاہتے ہیں۔ ان میں روس چین اور ان کے اتحادی ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی توجہ یوکرین اور دوسری ترجیح اسرائیل کا قیام ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی عرصہ دراز سے دو ریاستی حل کے حق میں بیشتر مسلمان ممالک کو اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں۔ فلسطین کے قیام کے بعد کسی کے پاس اس کو نہ ماننے کا جواز بچے گا؟ فلسطین آزاد نہیں تقسیم ہو رہا ہے جس طرح سوڈان ہوا۔ اس آئینے میں ہر ملک کا کردار واضح ہے بالخصوص مسلمان ممالک کا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: امریکی صدر کی طرف سے انہوں نے ان ممالک نے اپنے کے لیے

پڑھیں:

مریکی ایوان نمائندگی کو پاکستان کیخلاف اُکسایا جا رہا، اس حد تک نہ جائیں ملک کا نقصان ہو: وزیر داخلہ

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ہیوسٹن، امریکہ میں میڈیا سے اہم گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں چین کے خلاف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ مخالفین زہریلا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ نوجوانوں کی تقریب میں شرکت کی تھی، اس کو پراپیگنڈہ کر کے غلط رنگ دیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسے پروپگینڈہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں کسی بھی اینٹی چائنہ فنکشن میں نہیں گیا، میرے دورے کا مقصد امریکہ کے سیاستدانوں سے ملکر دہشتگردی کے خلاف ایک مؤثر پلان بنانا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردی صرف پاکستان کی لڑائی نہیں یہ سب کی مشترکہ لڑائی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے گا اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کو پاکستان کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔ سیاست کریں لیکن اس حد تک نہ جائیں کہ پاکستان کا نقصان ہو۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اراکین کے ساتھ ملاقاتیں بہت مثبت رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ مشترکہ مفادات اور تعاون کے لئے وسیع گنجائش رکھتے ہیں، چینی صدر
  • یوکرین کا جنگ کے خاتمے کیلئے ٹرمپ کی مشروط حمایت کا اعلان
  • الخدمت فاؤنڈیشن کا 15ارب سے غزہ بحالی پراجیکٹ
  • 1857 اور طوفان الاقصیٰ!
  • مریکی ایوان نمائندگی کو پاکستان کیخلاف اُکسایا جا رہا، اس حد تک نہ جائیں ملک کا نقصان ہو: وزیر داخلہ
  • ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی
  • امریکہ میں کسی چین مخالف تقریب میں شرکت نہیں کی، محسن نقوی
  • امریکہ میں چین کیخلاف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی، محسن نقوی
  • انسانی اسمگلنگ…منافع بخش غیرقانونی کاروبار