کنزُیومر الیکٹرانک شو (CES2025) جدید ٹیکنالوجی کی ہر سال جنوری میں لاس ویگاس، نیواڈا کنونشن سینٹر ریاست ہائے مُتحدہ امریکا میں ہونے والی نُمائش، اِس سال 7جنوری سے 11جنوری تک ہوئی۔ جس میں شرکت کی ایڈوانس ٹکٹ کی قیمت تقریباً 300ڈالر سے 500ڈالر تک تھی۔

یہ جدید ٹیکنالوجی کا عالمی نمائشی شو جو ہر سال لاس ویگاس کنونشن سنٹر،  نیواڈا میں منعقد ہوتا ہے۔ اِس ایونٹ میں دُنیا بھر کی ٹیکنالوجی کمپنیاں، انُوکھے اسٹارٹ اَپس اور اِنڈسٹری کے ماہرین کو ایک جگہ اکٹھا کرتی ہیں تاکہ وہ اپنی جدید ترین مصنُوعات اور ٹیکنالوجیز کی نمائش کرسکیں۔

CES کا مقصد نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی، اُن کے اِستعمال، اور اُن کے اثرات پر توجہ دینا ہے۔ اِس ایونٹ میں مختلف شعبوں جیسے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبُوٹکس، اسمارٹ ہوم ٹیکنالوجی، اور ویئر ایبل ڈیوائسز کی جدید ترین ایجادات پیش کی جاتی ہیں۔

یہ شو 4دِن تک جاری رہا، جِس میں جدید ٹیکنالوجی کے نئے آئیڈیاز پر مختلف سیشنز ، پریزنٹیشنز ، اور نمائشیں منعقد کی گئیں۔ اِس نِمائش میں امریکا کی ہیومینائیڈ روبُوٹ بنانے والی بڑی کمپنی رئیل بوٹیکس کے چیف ایگزیکٹیو اینڈریو کیگول نے بھی شرکت کی۔

اینڈریو کیگول نے اپنی کمپنی کی ایک پراڈکٹ متعارف کرائی جوکہ خالصتاً انسانوں کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ پراڈکٹ آریا نامی ایک جدید ترین خاتون روبوٹ ہے۔

پریزنٹیشن میں رئیل بوٹیکس نے آریا کو ایک اِنقلابی حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ جِس کا مقصد خاص طور پر مردوں میں اکیلے پن کے احساس کو کم کرنا ہے۔

کیگول نے آریا کی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہوئے ہالی ووڈ کی فلم “HER” میں مُوجود AI ساتھی کے ساتھ بھی تشبیہ دیتے ہوئے انسانی تعلقات کو ترجیح دینے کا دعویٰ کیا۔

آریا ایک ہیومینائیڈ روبُوٹ ہے، جِسے بطورگرل فرینڈ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اِس کی 3مختلف قیمتیں ہیں جن میں مکمل فنکشنل روبوٹ کی قیمت 175,000 ڈالر ہے۔ آریا کا ڈیزائن انتہائی ماہرانہ ہے۔ جس میں انسانی تاثرات کی نقل کرنے کے لیے 17 RFID موٹرز  شامل کیے گئے ہیں۔

RFID ٹیکنالوجی کی مدد سے آریا اپنی شخصیت کو بوقت ضرورت ڈھال سکتی ہے۔RFID (ریڈیو فریکوئنسی آئیڈینٹیفیکیشن) ایک جدید ٹیکنالوجی ہے جو چیزوں کی شناخت اور ٹریکنگ کے لیے ریڈیو لہروں کا استعمال کرتی ہے۔

یہ بنیادی طور پر دو اہم اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے، RFID چپ، جو کسی چیز کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔RFID ریڈر جو اس چپ سے معلومات کو پڑھتا ہے۔ اِس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بغیر کِسی جسمانی رابطے کے کام کرتی ہے۔ جِس سے معلومات کی تیز ترین مُنتقلی ممکن ہوتی ہے۔

یہ مختلف رینج میں کام کر سکتی ہے، جو کہ چند سینٹی میٹر سے لے کر کئی میٹر تک ہو سکتی ہے۔RFID  ٹریکنگ، وقت کی بچت، اور انسانی غلطیوں میں کمی کیلیے مفید ہے جبکہ اس کے نقصانات میں بھاری لاگت اور پرائیویسی کے مسائل شامل ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی مُختلف صنعتوں میں ایک اہم ٹول بن چکی ہے، خاص طور پر انوینٹری مینجمنٹ اور سپلائی چین میں اسکا بڑا اہم کردار ہے۔ RFID کی مدد سے ہی رئیل بوٹیکس نے آریا متعارف کروائی۔

ریئل بوٹیکس ایک ٹیکنالوجی کمپنی ہے جو ہیومینائیڈ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں کام کرتی ہے۔ یہ کمپنی خاص طور پر ایسے روبوٹ تیار کرنے میں مہارت رکھتی ہے جو انسانی جذبات اور تعاملات کی نقل کر سکیں۔

ریئل بوٹیکس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی تعلقات کو بہتر بنانا اور اکیلے پن کے احساس کو کم کرنا ہے۔ اس کمپنی نے مختلف پروڈکٹس متعارف کروائے۔

جن میں آریا جیسے روبوٹ شامل ہیں، جو دوستی اور رومانوی تعلقات کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ریئل بوٹیکس کی مصنوعات میں جدید گفتگو کی صلاحیتیں، انسانی تاثرات کی نقل کرنے کی صلاحیت، اور صارفین کی ضروریات کے مطابق ڈھلنے کی خصوصیات رکھتے ہیں۔

ریئل بوٹیکس کا وژن ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائیں اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنائیں۔ یہ کمپنی اس میدان میں جدت طرازی کے لیے مشہور ہے اور اس کی مصنوعات نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ جبکہ آریا کی جدید خصوصیات نے جہاں تعریفیں حاصل کیں ،  وہیں آن لائن بحث بھی چھیڑ دی ہے۔

آریا کی یہ صلاحیت کہ وہ نہ صرف  رومانوی بلکہ بات چیت  کرنے والی ساتھی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ اس کی یہ صلاحیت  اس بات پر بڑے سوالات اٹھاتی ہے کہ روبوٹ ذاتی تعلقات میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور ایسی ٹیکنالوجی کی اخلاقیات کیا ہیں؟

 جیسے جیسے ریئل بوٹیکس کمپنی اس نئے میدان میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت آریا انسانی زندگیوں میں مخصوص کردار کی امید اور تنازعہ دونوں کی علامت بنتی جا رہی ہے۔

آریا کی RFID ٹیکنالوجی اسے منفرد بناتی ہے کیونکہ یہ نہ صرف اپنے صارفین کی شخصیت کے مطابق ڈھل سکتی ہے بلکہ دوسروں کی چہرے کی خصوصیات کو بھی پہچان سکتی ہے۔ یہ اپنی مرضی کے مطابق بنوائی جا سکتی ہے، اس لیے مختلف صارفین اپنی پسند کے مطابق اسے ترتیب دلوا سکتے ہیں۔ اس کی جدید گفتگو کی صلاحیتیں اسے ایک اسمارٹ ساتھی بناتی ہیں۔

ریئل بوٹیکس کے سی ای او اینڈریو کیگول کا کہنا ہے کہ آریا ایک انقلابی حل ہے جو خاص طور پر مردوں میں تنہائی کے احساس کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ وہ اس کی مثال ہالی ووڈ کی فلم “Her”  میں موجود AI ساتھی سے دیتے ہیں، جس نے انسانی جذبات کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی جہت کو پیش کیا تھا۔

آریا کی یہ خصوصیات مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک منفرد تجربہ ہے۔ جہاں لوگ ایک ایسے ساتھی کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں جو ہمیشہ ان کے ساتھ موجود رہے گی۔ جو نہ چھوڑ کر جائے گی اور نہ ہی مرے گی۔

سب سے دلچسپ بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آریا نے ٹیسلا کے Optimus آپٹمس روبوٹ کو فیسینیٹنگ  کہتے ہوئے اُس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے یوں یہ اے آئی ٹو اے آئی انٹریکشن کی بھی ایک جھلک بھی ہوگئی ہے۔

تاہم آریا کی آمد نے سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ایک بڑی بحث چھیڑ دی ہے جو اس کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ لوگوں کے درمیان یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا ایک روبوٹ کو رومانوی ساتھی کے طور پر قبول کرنا اخلاقی ہے؟

کیا یہ انسانی تعلقات کو متاثر کرے گا؟

 کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانوں کے درمیان حقیقی تعلقات کی جگہ لے سکتی ہے جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک راستہ ہے جو انسان کی ضرورت کو کم کر سکتا ہے۔

البتہ میرے خیال میں آریا جیسے روبُوٹ کی موجُودگی اِنسانی تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرتے ہوئے لوگوں کو حقیقی تعلقات سے دور کرنے کا سبب بنے گی۔ جِس سے ان کی سوشل اسکلز مُتاثر ہوں گی۔ مزید یہ کہ اگر لوگ اپنی جذباتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک روبوٹ پر انحصار کرنے لگیں گے تو یہ انسانی تعلقات کی بنیادی نوعیت کو ہی تباہ کردے گا۔

جیسے ابھی صرف  فی میل روبوٹ ہے، مگر مستقبل میں میل روبوٹ بھی آئے گا اور دونوں کی موجودگی انسانی تعلقات کی بنیادی نوعیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔ جب مرد فی میل روبوٹ خریدیں گے تو یہ خواتین کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے، جس سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے۔

اسی طر ح اگر خواتین میل روبوٹ کو ترجیح دیں تو یہ مردوں کے لیے بھی نفسیاتی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں جنسوں کے درمیان تعلقات میں ایک نئی نوعیت کی مسابقت پیدا ہو سکتی ہے۔ پھر  جب لوگ مشینوں کی طرف زیادہ راغب ہوں گے تو اس کا اثر نئی نسل کی پیدائش پر پڑ سکتا ہے، جس سے سماجیت اور  آبادی کی ساخت متاثر ہو سکتی ہے۔

البتہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے یہ ایک موقع ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شناخت کے مطابق روبوٹک ساتھیوں کا انتخاب کریں۔ لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مشینی تعلقات ان کی زندگیوں میں حقیقی خوشی فراہم کر سکیں گے؟

کیونکہ اس سے فیملی سسٹم میں بھی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ اگر لوگ مشینوں کی طرف زیادہ راغب ہوں گے تو روایتی خاندانی ڈھانچے میں تبدیلیاں یقینی طور پر ممکن ہیں۔ جس سے بچوں کی تربیت اور ان کی نفسیاتی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔

مشینی ساتھیوں کی طرف زیادہ مائل ہونے سے نئی نسل کی تخلیق سے جڑے ہوئے جوڑوں کی نفسیاتی صورتحال پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اولاد کی خواہشات کمزور ہو سکتی ہیں۔

چونکہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں انسانی تعلقات میں فاصلے بڑھ رہے ہیں تو کئی ایسے لوگ جو مختلف محرکات کی بنا پر رشتوں سے اکتائے ہوئے ہونگے وہ روبوٹس کو ترحیج دیں گے۔

مگر یہ بھی یقینی ہے کہ انسان، انسانوں کی نسبت روبوٹس سے زیادہ جلدی اکتا جائیں گے جس کی وجہ سے ذہنی صحت کی خرابی کے خطرات لاحق ہیں۔

البتہ روبوٹ کے ساتھ تعلقات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوگی اور ان تبدیلیوں کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہوگا۔

جیسا کہ  آریا کی آمد ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نئی بحث کا آغاز کرتی ہے۔ یہ ایک طرف انسانی تعلقات میں تنہائی کے احساس کو کم کرنے کی امید دیتا ہے، جبکہ دوسری طرف اس کے استعمال کے اخلاقی پہلوؤں پر سوالات بھی اٹھاتا ہے۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کی دنیا ترقی کر رہی ہے۔

لہٰذا ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح انٹریکشن کو بہتر بنا سکتے ہیں اور یہ کہ ہمیں اپنی انسانی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے یا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی روبوٹک ساتھی گرل فرینڈ مصنوعی ذہانت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اے ا ئی مصنوعی ذہانت جدید ٹیکنالوجی کے احساس کو کم انسانی تعلقات ٹیکنالوجی کے ٹیکنالوجی کی مصنوعی ذہانت ریئل بوٹیکس کرنے کے لیے تعلقات میں ہو سکتی ہے تعلقات کی میل روبوٹ کے درمیان تعلقات کو ساتھی کے سکتے ہیں کے مطابق کو کم کر سکتا ہے کرتی ہے میں ایک کے ساتھ آریا کی اور ان کام کر

پڑھیں:

ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘

ہم عرصہ دراز سے انقلاب، انقلاب اور انقلاب یا یوں کہہ لیں کہ بچپن سے لے کر آج بڑھاپے کی عمر کو آنے تک کی باتیں سن رہے ہیں۔ آخر یہ انقلاب ہے کس چیز کا نام۔ نہ ہم نے کبھی پاکستان میں انقلاب کا درشن کیا اور نہ انقلاب نے پاکستان کی کبھی راہ دیکھی۔ اکثر سنتے ہیں کہ انقلاب آ گیا، کہاں آ گیا یہ انقلاب ہمیں بھی تو دکھائو، اس انقلاب کی شکل دکھائو۔ کیسی ہوتی ہے۔ اب یہاں دوسرے ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کی بات نہ کر دیں ہم تو کئی عشروں سے یہی سن رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا اب یہ دونوں استحکام لانے میں انہی کی ذمہ داری ہے جو بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور وہی دونوں کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں سسٹم میں اس وقت استحکام کی امید پیدا کی جا سکتی ہے جب تک آپ اس ملک کی 65فیصد یوتھ کو ایجوکیشن یا روزگار کی طرف نہیں لائیں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دور جدید میں نوجوان ہی انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں اور جتنی ایسے انقلابات کی ضرورت آج پاکستان کو ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی کہ انقلاب کی پکار بھی ہمیشہ نوجوانوں ہی سے اٹھتی ہے۔ البتہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا جب فوجی انقلاب برپا ہوتے تھے، اب وہ دور گئے۔ دیکھا جائے تو اگر روز اوّل ہی سے جب ہم آزاد ہوئے تھے اس زمانے سے اگر نوجوانوں کے لئے ایسی پالیسیز بنا دی جاتیں یا ملکی ترقی میں ان کے کردار کو بھی رکھا جاتا تو آج ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام دونوں کبھی خطرے میں نہ پڑتے۔ یہاں کوئی ہے جو میرے ان سوالات کا جواب دے کہ ہماری ہی پاک دھرتی کیوں دہشت گردی کا شکار بنائی گئی اور اس سفاک دہشت گردی کرنے والوں نے 70ہزار بے گناہوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت اور ماحول کس نے بنائے۔ کوئی اس سوال کا جواب تو دے کہ آج پھر اپنی پیاس بجھانے کے لیے مذاکرات کی آڑ میں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا یہ عمل نہ جانے ہمیں کب اور کہاں تک لے جائے؟ ہے کسی کے پاس اس کا جواب کہ ایسے حالات میں ہماری بحیثیت قوم ذمہ داریاں کیا ہیں۔ حکومت وقت گو ان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے مگر ہم کب تک اس سے چھٹکارا پائیں گے؟کب ہماری نسلیں لفظ دہشت گرد کو بھول پائیں گی؟

اکثر حلقوں میں ہم ایسے ہی انقلاب کی باتیں سنتے ہیں کہ وہ آگے آئیں کہ اگر وہ آ جائے تو قوم سدھر جائے گی۔ میرا یہ سوال ایک محب الوطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان نوجوانوں کے ساتھ بھی ہے جو پاکستان میں بہتری ، آسودگی ، معیشت ، سوسائٹی ، اچھے معاشرے اور سسٹم کا انقلاب برپا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کیسے اور کب آگے آئیں گے گو ہمارے نوجوان تو قدم بڑھانے کو تو تیار ہیں مگر ان کی راہنمائی کون کرے گا یہ بات ان کے علم میں نہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی جاننا ہوگی کہ قائداعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ جتنی ناانصافی ہو چکی اس کی بھی ایک حد تھی جو ہم نے اپنی انائوں میں ڈبو دی۔ اب ہماری انہی نوجوان نسلوں کا ایک فرض تو بنتا ہے کہ وہ استحکام اور عزم صمیم کو اپنی فطرت بناتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھیں جس سے کم از کم آنے والی نسلوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ 1947ء میں قائداعظمؒ نے قوم کی تشکیل اور آزادی کی خاطر ہزاروں انسانوں کی قربانیاں صرف آزادی انقلاب کے نام دیں۔ اگر ہمیں صرف معاشی اور سیاسی استحکام ہی کی طرف جانا ہے تو پھر آج کے نوجوانوں کو عمرانڈو سیاست سے نکالنا ضروری ہے کہ اس کے جو غلط ذہن سازی کی جس سے نوجوان تو تباہ ہوا سو ہوا اس سے ہماری نسلیں بری طرح سے متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملکی مسائل میں نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلے تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔
یہ ہم سب کا پاکستان اور اسے انہی نوجوان نسلوں نے بچانا ہے اسی کے لئے ہم کئی عشروں سے لڑ رہے ہیں مگر بے سود کہ ہمیں اچھی لیڈرشپ ہی نہیں ملی۔ انقلاب، قتل و غارت اور آتش زنی یا سفاکانہ مہم کا نام نہیں۔ یہ اِدھر اُدھر چند بم پھینکنے ، گولیاں چلانے نیز 9مئی کی طرح تہذیبی اور عسکری نشانیوں کو تباہ کرنے اور مساوات اور انصاف کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نام نہیں، قوموں میں آنے والے انقلاب مایوسی کا فلسفہ، نہ مایوس کن لوگوں کا عقیدہ۔ انقلاب ’’خدا شکن تو ہو سکتا ہے انسان شکن نہیں، ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی انقلاب کے بغیر اتحاد ہم آہنگی اور توازن کا وجود ممکن نہیں ہوتا پھر بقول ارسطو انقلاب قانون ہے، انقلاب تربیت ہے۔ انقلاب سچائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم آج ہماری قوم کے نو جوانوں کو اس حقیقت کا احساس ہو چکا ہے کہ آنے والا کل انہی نوجوان نسلوں کا ہے اور نوجوان غیر ذمہ دار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان سے زیادہ بہتر اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں۔ ان کے لئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ہمارے سرگرم اور طاقتور نظریات ہی ہمیں بہت آگے لے جانے اور بڑی قوم بنانے کے لئے کافی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مصنوعی ذہانت نے سرخ لکیر عبور کر لی ، اپنے جیسے دوسرے بنانے شروع کردئے
  • چین کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل ’ڈیپسیک آر1‘ نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا
  • ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘
  • ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نقصانات
  • مصنوعی ذہانت کے میدان میں چین نے امریکہ کو مات دیدی
  • پاکستان میں پہلی بار شعبہ صحت میں باقاعدہ اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال
  • سپاہ پاسداران کی مشقوں کے دوران مصنوعی ذہانت سے لیس میزائلوں کا استعمال
  • میٹا کا 2025 میں مصنوعی ذہانت پر 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • تعلیم کا عالمی دن منایا گیا  مصنوعی ذہانت کا استعمال انقلاب  برپا کر سکتا ہے: صدر‘ بلاول