ٹرمپ 47 ویں امریکی سربراہ، ہمارے فارم 47 کے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
بعض ہندسے بڑے دلچسپ انداز سے ایک دوسرے سے میچ کرجاتے ہیں۔ امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں اور 47 ویں سربراہ ہیں، جبکہ ہمارے یہاں سیاست کے ایوانوں میں، اپوزیشن کے جلسوں میں، اخبارات کی خبروں میں، ٹاک شوز کی بحثوں میں فارم 45 اور فارم 47 چرچا رہتا ہے اور یہ شاید اس وقت تک رہے جب تک کہ امریکا میں 48 واں سربراہ نہ آجائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے وزیراعظم شہباز شریف میں نمبر 47 ہی مشترک نہیں ہے بلکہ کئی اور چیزیں بھی مشترک پائی جاتی ہیں۔ ٹرمپ کا سارا زور امریکی معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے پر ہے ہمارے وزیراعظم کی بھی ترجیح اوّل ملکی معیشت کو بام عروج پر لے جانا ہے۔ امریکی نومنتخب صدر دنیا میں امن و امان قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہمارے وزیر اعظم بھی دنیا کو امن وامان کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے نزدیک پہلے امریکا بعد میں کوئی اور ہمارے وزیراعظم کے نزدیک بھی پہلے پاکستان، ٹرمپ فلسطین میں دو ریاستی حل چاہتے ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم بھی اسی حل کے حامی ہیں (پاکستانی عوام اس کے حامی نہیں ہیں ان کی رائے ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے یعنی ایک ریاست ہونا چاہیے) ٹرمپ چاہتے تھے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔ انہوں نے یہ مذاکرات کامیاب کرادیے، ہمارے وزیراعظم بھی ان مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ افغانستان میں موجود 7 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ واپس لانا چاہیے، ہمارے وزیراعظم بھی یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی اسلحہ امریکا واپس جانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تارکین وطن کو جو ہماری معیشت پر بوجھ ہیں انہیں امریکا چھوڑ کر اپنے وطن واپس جانا چاہیے، ہمارے وزیراعظم بھی یہی کہتے ہیں جو افغانیوں کو اب انہیں واپس جانا چاہیے کہ وہ ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔ ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاروباری فرد ہیں اور ہمارے وزیراعظم
بھی کاروباری آدمی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکا کے صدر بنے ہیں شہباز شریف بھی ملک کے دوسری بار وزیراعظم بنے ہیں، دونوں انتخاب کے نتیجے میں برسراقتدار آئے ہیں ایک اور خوبصورت قدر مشترک یہ ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر دعائیہ تقریب میں تلاوت قرآن پاک ہوئی تھی اور اذان بھی دی گئی جبکہ شہباز شریف کی تقریب حلف بردار ی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا تھا۔
یہ تو وہ نکات تھے جو دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان مشترک تھے اب وہ نکات جن میں اشتراک نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ عوام کے منتخب سربراہ ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم خواص کے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں ہمارے وزیراعظم اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ امریکی صدر کی پشت پر تمام بڑے امریکی سرمایہ دار ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم پاکستانی سرمایہ داروں کی پشت پر ہیں۔ امریکی سربراہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے سوچتے اور پالیسیاں بناتے ہیں جبکہ پاکستانی حکمران ملکی اشرافیہ کے حوالے سے سوچتے اور اسی حوالے سے قانون سازی کرتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار تبدیل ہوتا ہے تو دنیا میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی لیکن امریکا میں اقتدار کی تبدیلی سے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کینیڈا، میکسیکو، یورپی یونین سمیت کئی ممالک میں بے چینی اور اضطراب نظر آرہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ افغان حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کرے، پھر دنیا نے دیکھا کہ قطر میں امریکا اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے تحت امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں لیکن 7 ارب سے زائد کا جدید اسلحہ وہیں چھوڑ دیا۔ اب جب صدر ٹرمپ نے افغانستان سے اپنا اسلحہ واپس لانے کی بات کی تو افغان حکومت نے اسلحہ واپس دینے سے انکار کردیا ویسے بھی جنگوں میں مال غنیمت تو واپس نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے جو دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں ان کے پاس سے زیادہ تر امریکی اسلحہ ہی نکلتا ہے۔ ٹرمپ بنیادی طور پر کاروباری آدمی ہیں اور ایک بزنس مین چاہتا ہے کہ پُر امن ماحول میں کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ وہ مختلف محاذ پر برپا جنگوں سے امریکا کو نکالنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا ایک خاص ایلچی سخت ہدایات کے ساتھ نیتن یاہو کے پاس بھیجا۔ جہانزیب خانزادہ کے پروگرام میں ایک امریکی پروفیسر بتا رہے تھے کہ نیتن یاہو نے اس ایلچی کو کہا کہ آج ایک مذہبی دن ہے بعد میں ملاقات کرلیںگے، ایلچی نے کہا کہ ہمیں پتا ہے آپ کتنے مذہبی ہیں پھر پروفیسر نے یہ بھی کہا کہ جو سخت الفاظ اس نے استعمال کیے وہ ہم یہاں میڈیا پر دہرا نہیں سکتے۔ اس کے بعد نیتن یاہو نے تحریری معاہدے پر دستخط کیے۔ ادھر اس نے دستخط کیے ادھر صدر ٹرمپ نے پہلے اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ ہوگیا، جبکہ یہ معاہدہ 6 ماہ سے دوحا میں مذاکرات کی میز پر رکھا ہوا تھا یہ بات تو طے ہے کہ اگر اتنا امریکی دباؤ نہ ہوتا تو اسرائیل غزہ پر مزید بمباری کرتا اور سیکڑوں فلسطینی شہید ہوتے رہتے۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی کہانی بڑی دلچسپ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ پاکستان شروع سے امریکا کا اتحادی رہا ہے۔ لیکن امریکا نے پاکستان کو جب جب لفٹ کرائی ہے جب جب اسے اپنی ضرورت پڑی۔ 60ء کی دہائی میں سینٹو اور سیٹو کا رکن بنایا اور اسّی دہائی پاکستان کے امریکا سے تعلقات عروج پر تھے ان تعلقات میں شگاف اس وقت پڑا جب 1965ء کی جنگ میں امریکا نے یہ کہہ کر پاکستان کی مدد سے منہ موڑ لیا کہ سینٹو اور سیٹو کے معاہدے تو کمیونسٹ بلاک کے خلاف ہیں، پھر یہ کہ جنگ میں مدد تو دور کی بات ہے اسلحے کی سپلائی روک دی اور حتیٰ کے اس کے پرزے تک روک لیے اس لیے 65ء کی جنگ کے زمانے میں ہمیں دیواروں پر یہ شعر لکھا نظر آتا تھا کہ: امریکا سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔ سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں چھٹے بحری بیڑے کا آسرا دے کر ہمیں دھوکے میں رکھا۔ پھر 1978 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو دو برس تک تو امریکا دور سے بیٹھ کر تماشا دیکھتا رہا پھر جب یہ دیکھا کہ پاکستان کی ہر طرح کی مدد سے افغان مجاہدین نے روس کی پیش قدمی نہ صرف روک دی بلکہ روسی فوجوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا اس وقت پھر پاکستان پر دست شفقت رکھا، ان دنوں دوستی عروج پر تھی پھر جب روس کو شکست ہوئی اور اس نے اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں تو پھر خاموشی چھا گئی 90ء کی دہائی میں عمومی طور پر پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری رہی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو دھمکی دے کر دوستی کا ماحول بنایا۔ 20 سال تک سر ٹکرانے کے بعد جب امریکا کو افغانستان میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملی تو پھر پاکستان سے تعلقات میں کھینچاؤ پیدا ہو گیا امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بظاہر ہمارا ساتھ دیا لیکن اندرون خانہ ہمارے خلاف افغان مجاہدین کی عملاً مدد کی ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں پھر پاکستان کی ضرورت پڑی کہ افغان طالبان سے بات کر کے انہیں امریکا سے مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ جب یہ مطلب بھی نکل گیا تو ٹرمپ کے آخری دور سے تعلقات میں سرد مہری آگئی جو بائیڈن کے پورے دور میں رہی اور ٹرمپ کے دوبارہ آنے کے بعد بھی اس میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہمارے وزیراعظم بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اسلحہ افغانستان سے جبکہ ہمارے تعلقات میں پاکستان کی چاہتے ہیں ہیں جبکہ ٹرمپ کے اور اس کے بعد
پڑھیں:
مودی کا ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد
مودی کا ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ، دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز
نئی دہلی (آئی پی ایس )بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نریندر مودی کا کہنا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے بات چیت کی ہے، امریکا کے ساتھ باہمی مفاد اور بھروسہ مند شراکت داری کے لیے پرعزم ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک مل کر عوامی فلاح کیلیے کام کریں گے۔نریندر مودی کے مطابق امریکا اور بھارت مشترکہ طور پر عالمی امن و سلامتی اور خوشحالی کیلییکام کریں گے۔ نریندر مودی نے کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کو دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔