سوفا معاہدہ اور جاپانی عوام کا بدلتا ہوا موڈ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایٹمی تباہی نے جاپان کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا۔ 7 سال تک امریکی نگرانی میں رہنے کے بعد 1952ء میں جاپان نے سان فرانسسکو معاہدے کے تحت آزادی حاصل کی لیکن خطے کی صورتحال کے پیش نظر اب بھی جاپان کو ایک ایسے اتحادی کی ضرورت تھی جو نہ صرف اس کی سلامتی کو یقینی بنائے بلکہ سرد جنگ کے دوران اسے سوویت یونین اور چین جیسی طاقتوں سے تحفظ بھی فراہم کرے۔ ایٹمی تباہی اور معاشی مشکلات کے ساتھ دفاعی طاقت محدود ہونے کی وجہ سے اس وقت جاپان نے امریکا کے ساتھ دفاعی تعاون کا راستہ اختیار کیا، اور یوں 1960 میں ’’اسٹیٹس آف فورسز ایگریمنٹ‘‘ (SOFA) کے نام سے ایک معاہدہ وجود میں آیا۔ یہ معاہدہ جاپان اور امریکا کے درمیان لانگ ٹرم تعاون کی بنیاد بنا، جس کے ذریعے امریکی افواج کو جاپان میں قیام اور آپریشن کی اجازت ملی لیکن یہ معاہدہ اپنے پہلے ہی دن سے ایک متنازع شکل میں سامنے آیا، جس کی وجہ اس معاہدے کا عمومی تاثر تھا۔ معاہدے کے ناقدین کے مطابق یہ معاہدہ امریکا کو ایک بالادست قوت اور جاپانی قوانین سے مستثنیٰ ہونے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ سوفا معاہدے کے مطابق امریکی فوجی اڈے جاپانی حدود میں رہنے کے باوجود امریکی کنٹرول میں ہیں اور امریکی اہلکاروں پر جاپانی قوانین کا اطلاق جزوی طور پر ہی ہوتا ہے، جبکہ اس معاہدے میں جاپانی حکومت کو امریکی فوجی آپریشنز اور سازو سامان پر محدود نگرانی کا حق دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ چونکہ عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا تھا لہٰذا اس معاہدے کے فوراً بعد ہی جاپانی عوام نے احتجاج کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے اس معاہدے کو ’’امریکی تسلط‘‘ کی علامت قرار دیا اور مظاہروں کے ذریعے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ ناقدین نے اس معاہدے کو جاپانی خودمختاری خاص طور پر اوکیناوا کے عوام کے لیے ایک سوالیہ نشان قرار دیا، جہاں امریکی فوجی اڈے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ عوامی خدشات نے مزید شدت اختیار کی، جن کی بنیاد حقیقی واقعات اور مسائل پر تھی۔ جیسا کہ سوفا معاہدے کے تحت امریکی افواج کی جانب سے کسی بھی حادثے یا جرم کے ارتکاب کی صورت میں جاپانی حکام کی جانب سے قانونی اقدامات کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ آنے والے وقت میں جاپانی عوام کے یہ خدشات سچ ثابت ہوئے جس کی ایک مثال 2004ء میں ہونے والا ایک واقعہ ہے جب اوکیناوا یونیورسٹی کیمپس میں امریکی ہیلی کاپٹر کو ایک حادثہ پیش آنے کے بعد امریکی افواج نے جائے وقوعہ کو سیل کر کے جاپانی پولیس کو تحقیقات سے روک دیا۔ اس واقعے کے علاوہ مزید چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اس معاہدے کو عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اوکیناوا میں وقتاً فوقتاً امریکی فوجیوں کے ہاتھوں سنگین جرائم کے ارتکاب کے واقعات بھی سامنے آتے رہے، اوکی ناوا جہاں یہ اڈے قائم ہیں کی مقامی آبادی کو امریکی طیاروں کی نچلی پروازوں سے شدید تحفظات ہیں جو ان کے لیے شور اور حادثات کا خطرہ بنی رہتی ہیں۔ اوکی ناوا کے علاوہ شیمانے اور یاماگوچی کے رہائشی بھی ان امریکی طیاروں کی نچلی پروازوں سے پریشان رہتے ہیں، جن سے حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ مزید برآں 1995ء میں امریکی فوجیوں کی جانب سے ایک اسکول کی طالبہ کے ساتھ زیادتی نے جاپانی عوام کے غم و غصے کو مزید بھڑکایا۔ جاپانی شہری اس بات پر بھی خاصے برہم نظر آتے ہیں کہ امریکی فوجی اہلکاروں کو گاڑیوں پر کم یا معاف شدہ ٹیکس کی سہولتیں حاصل ہیں، ناراض شہری برملا اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس سے مقامی حکومتوں کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوتا ہے۔ دوسری جانب امریکا کثیر الجہت مفادات کی بنا پر اس معاہدے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ان مفادات میں تزویراتی (اسٹرٹیجک) کنٹرول اور دفاعی امور کے علاوہ امریکا کے معاشی مفادات بھی شامل ہیں۔
جاپان میں امریکی موجودگی اسے چین، روس اور شمالی کوریا جیسے خطروں پر نظر رکھنے کا بھرپور موقع فراہم کرتی ہے جبکہ کوئی بھی ایسی صورتحال جس میں خطے میں امریکا یا اس کے اتحادیوں کے مفادات متاثر ہو رہے ہوں تو انہیں فوری تحفظ فراہم کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے، مزید برآں جاپان میں فوجی اڈے رکھنے سے امریکا کے دفاعی اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اگر ماضی کی جاپانی حکومتوں کے مؤقف کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک یہ کہتے ہوئے معاہدے میں ترمیم کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس سے جاپان۔ امریکا تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم، موجودہ وزیراعظم شیگیرو اِشیبا نے عوامی تحفظ اور خودمختاری کو بہتر بنانے کے لیے اب معاہدے میں ترمیم کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، ایک سروے کے مطابق، جاپان کے47 پری فیچرز ہیں جن میں سے33 پری فیکچرز میں کرائے گئے سروے کے نتائج کے مطابق26 پری فیکچرز نے اس معاہدے میں ترمیم کی حمایت کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عوامی شعور اور ماضی کے واقعات کے باعث اب معاہدے میں تبدیلی کی ضرورت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
سوفا معاہدے کے مخالفین کا بیانیہ یہ ہے کہ اس معاہدے میں تبدیلیوں سے جاپانی خودمختاری کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور اس سے عوامی شکایات کم ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں جاپان، امریکا تعلقات کو مزید متوازن بنائیں گی۔ سوفا معاہدہ کے مخالفین کے مطابق یہ معاہدہ ہرچند کہ جاپان- امریکا تعلقات کی بنیاد ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اطلاق کی وجہ سے جن مسائل نے جنم لیا ہے وہ جاپانی عوام اور حکومت کے لیے اب ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدے میں ترمیم نہ صرف عوامی خدشات کو دور کرے گی بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئے اور مضبوط دور میں داخل کرے گی، جہاں جاپانی عوام کی خودمختاری اور تحفظ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔
دوسری جانب یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ یہ معاہدہ ختم ہو۔ ختم ہونا تو بہت دور کی بات ہے اس میں کوئی ترمیم بھی لائی جائے، کیونکہ سوفا نہ صرف جاپان اور امریکا کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہے بلکہ معاشی طور پر بھی امریکا کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہ معاہدہ امریکی افواج کو جاپان میں قیام اور آپریشنز کے لیے قانونی حیثیت ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ امریکا کو معاشی فوائد کا حامل بھی ہے۔ واضح رہے کہ جاپان امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کے لیے سالانہ اربوں ین خرچ کرتا ہے۔ یہ اخراجات جاپانی عوام کے ٹیکس سے پورے کیے جاتے ہیں، جبکہ امریکا کو اس سے اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کا فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان موجود دفاعی سازو سامان کی فروخت معاہدے کے تحت، جاپان کو امریکی اسلحہ اور دفاعی سازو سامان خریدنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جس سے امریکا کی دفاعی صنعت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، اس کے علاوہ جاپان امریکی فوجی اڈوں کی تعمیر و مرمت کا خرچ بھی برداشت کرتا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا ان اڈوں کی دیکھ بھال پر اضافی خرچ کیے بغیر خطے میں اپنے فوجی آپریشنز جاری رکھ سکتا ہے۔اب جبکہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آچکی ہے اس معاہدے میں ترمیم کے امکانات اور بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں اتحادی ممالک سے دفاعی اخراجات کی مد میں زیادہ شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا، اس پس منظر میں، ٹرمپ حکومت کا آئندہ ممکنہ مؤقف جاپانی حکومت پر مزید مالی ذمہ داری عائد کرنے کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ حکومت ہر صورت اس بات کو یقینی بنانا چاہے گی کہ معاہدے میں کوئی بھی ترمیم امریکی افواج کی آپریشنل آزادی یا معاشی مفادات کو متاثر نہ کرے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے نزدیک یہ معاہدہ خطے میں امریکی اثر رسوخ خصوصاً چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی دفاعی تیاریوں کے تناظر میں ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں عوامی دباؤ اور مقامی حکومتوں کی تشویش جاپانی پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو تقویت دے سکتی ہیں، لیکن اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکی مخالفت ان کوششوں کو محدود کر سکتی ہے۔
ایک دوسری رائے کے مطابق جاپانی حکومت زمینی حقائق کے پیش نظر جاپان امریکا اتحاد کو نقصان سے بچانے کے لیے معاہدے کی بنیادی ساخت کو چھیڑنے سے گریز کرے گی لیکن ساتھ ہی اس بات کا امکان موجود ہے کہ معاہدے سے متعلق عوامی تشویش کو آپریشنل تبدیلیوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ امکان بہر حال موجود ہے کہ کسی بھی فارمولے کے تحت معاہدے میں تبدیلی کی کوششیں دوطرفہ تعلقات کو پیچیدہ بنانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سوفا معاہدہ جو بظاہر تو دفاعی ہے، لیکن اس کے معاشی پہلو امریکا کے لیے انتہائی فائدہ مند ہیں لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا سب سے پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، معاہدے میں ترمیم کے امکانات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔ جاپانی حکومت عوامی تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاہدے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا جاپان امریکی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے کوئی بڑا قدم اٹھانے کے قابل ہو گا یا نہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معاہدے میں ترمیم امریکی فوجی ا اس معاہدے میں جاپانی حکومت جاپانی عوام میں امریکی معاہدے کے تعلقات کو کہ امریکا میں جاپان معاہدے کو جاپان میں ان امریکی امریکا کے یہ معاہدہ کے مطابق کی ضرورت کے علاوہ عوام کے کے ساتھ ہوتا ہے کرنے کی کے تحت کے لیے کی وجہ کو ایک اس بات
پڑھیں:
ٹرمپ 47 ویں امریکی سربراہ، ہمارے فارم 47 کے
بعض ہندسے بڑے دلچسپ انداز سے ایک دوسرے سے میچ کرجاتے ہیں۔ امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں اور 47 ویں سربراہ ہیں، جبکہ ہمارے یہاں سیاست کے ایوانوں میں، اپوزیشن کے جلسوں میں، اخبارات کی خبروں میں، ٹاک شوز کی بحثوں میں فارم 45 اور فارم 47 چرچا رہتا ہے اور یہ شاید اس وقت تک رہے جب تک کہ امریکا میں 48 واں سربراہ نہ آجائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے وزیراعظم شہباز شریف میں نمبر 47 ہی مشترک نہیں ہے بلکہ کئی اور چیزیں بھی مشترک پائی جاتی ہیں۔ ٹرمپ کا سارا زور امریکی معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے پر ہے ہمارے وزیراعظم کی بھی ترجیح اوّل ملکی معیشت کو بام عروج پر لے جانا ہے۔ امریکی نومنتخب صدر دنیا میں امن و امان قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہمارے وزیر اعظم بھی دنیا کو امن وامان کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے نزدیک پہلے امریکا بعد میں کوئی اور ہمارے وزیراعظم کے نزدیک بھی پہلے پاکستان، ٹرمپ فلسطین میں دو ریاستی حل چاہتے ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم بھی اسی حل کے حامی ہیں (پاکستانی عوام اس کے حامی نہیں ہیں ان کی رائے ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے یعنی ایک ریاست ہونا چاہیے) ٹرمپ چاہتے تھے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔ انہوں نے یہ مذاکرات کامیاب کرادیے، ہمارے وزیراعظم بھی ان مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ افغانستان میں موجود 7 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ واپس لانا چاہیے، ہمارے وزیراعظم بھی یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی اسلحہ امریکا واپس جانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تارکین وطن کو جو ہماری معیشت پر بوجھ ہیں انہیں امریکا چھوڑ کر اپنے وطن واپس جانا چاہیے، ہمارے وزیراعظم بھی یہی کہتے ہیں جو افغانیوں کو اب انہیں واپس جانا چاہیے کہ وہ ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔ ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاروباری فرد ہیں اور ہمارے وزیراعظم
بھی کاروباری آدمی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکا کے صدر بنے ہیں شہباز شریف بھی ملک کے دوسری بار وزیراعظم بنے ہیں، دونوں انتخاب کے نتیجے میں برسراقتدار آئے ہیں ایک اور خوبصورت قدر مشترک یہ ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر دعائیہ تقریب میں تلاوت قرآن پاک ہوئی تھی اور اذان بھی دی گئی جبکہ شہباز شریف کی تقریب حلف بردار ی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا تھا۔
یہ تو وہ نکات تھے جو دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان مشترک تھے اب وہ نکات جن میں اشتراک نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ عوام کے منتخب سربراہ ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم خواص کے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں ہمارے وزیراعظم اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ امریکی صدر کی پشت پر تمام بڑے امریکی سرمایہ دار ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم پاکستانی سرمایہ داروں کی پشت پر ہیں۔ امریکی سربراہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے سوچتے اور پالیسیاں بناتے ہیں جبکہ پاکستانی حکمران ملکی اشرافیہ کے حوالے سے سوچتے اور اسی حوالے سے قانون سازی کرتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار تبدیل ہوتا ہے تو دنیا میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی لیکن امریکا میں اقتدار کی تبدیلی سے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کینیڈا، میکسیکو، یورپی یونین سمیت کئی ممالک میں بے چینی اور اضطراب نظر آرہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ افغان حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کرے، پھر دنیا نے دیکھا کہ قطر میں امریکا اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے تحت امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں لیکن 7 ارب سے زائد کا جدید اسلحہ وہیں چھوڑ دیا۔ اب جب صدر ٹرمپ نے افغانستان سے اپنا اسلحہ واپس لانے کی بات کی تو افغان حکومت نے اسلحہ واپس دینے سے انکار کردیا ویسے بھی جنگوں میں مال غنیمت تو واپس نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے جو دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں ان کے پاس سے زیادہ تر امریکی اسلحہ ہی نکلتا ہے۔ ٹرمپ بنیادی طور پر کاروباری آدمی ہیں اور ایک بزنس مین چاہتا ہے کہ پُر امن ماحول میں کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ وہ مختلف محاذ پر برپا جنگوں سے امریکا کو نکالنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا ایک خاص ایلچی سخت ہدایات کے ساتھ نیتن یاہو کے پاس بھیجا۔ جہانزیب خانزادہ کے پروگرام میں ایک امریکی پروفیسر بتا رہے تھے کہ نیتن یاہو نے اس ایلچی کو کہا کہ آج ایک مذہبی دن ہے بعد میں ملاقات کرلیںگے، ایلچی نے کہا کہ ہمیں پتا ہے آپ کتنے مذہبی ہیں پھر پروفیسر نے یہ بھی کہا کہ جو سخت الفاظ اس نے استعمال کیے وہ ہم یہاں میڈیا پر دہرا نہیں سکتے۔ اس کے بعد نیتن یاہو نے تحریری معاہدے پر دستخط کیے۔ ادھر اس نے دستخط کیے ادھر صدر ٹرمپ نے پہلے اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ ہوگیا، جبکہ یہ معاہدہ 6 ماہ سے دوحا میں مذاکرات کی میز پر رکھا ہوا تھا یہ بات تو طے ہے کہ اگر اتنا امریکی دباؤ نہ ہوتا تو اسرائیل غزہ پر مزید بمباری کرتا اور سیکڑوں فلسطینی شہید ہوتے رہتے۔
امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی کہانی بڑی دلچسپ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ پاکستان شروع سے امریکا کا اتحادی رہا ہے۔ لیکن امریکا نے پاکستان کو جب جب لفٹ کرائی ہے جب جب اسے اپنی ضرورت پڑی۔ 60ء کی دہائی میں سینٹو اور سیٹو کا رکن بنایا اور اسّی دہائی پاکستان کے امریکا سے تعلقات عروج پر تھے ان تعلقات میں شگاف اس وقت پڑا جب 1965ء کی جنگ میں امریکا نے یہ کہہ کر پاکستان کی مدد سے منہ موڑ لیا کہ سینٹو اور سیٹو کے معاہدے تو کمیونسٹ بلاک کے خلاف ہیں، پھر یہ کہ جنگ میں مدد تو دور کی بات ہے اسلحے کی سپلائی روک دی اور حتیٰ کے اس کے پرزے تک روک لیے اس لیے 65ء کی جنگ کے زمانے میں ہمیں دیواروں پر یہ شعر لکھا نظر آتا تھا کہ: امریکا سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔ سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں چھٹے بحری بیڑے کا آسرا دے کر ہمیں دھوکے میں رکھا۔ پھر 1978 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو دو برس تک تو امریکا دور سے بیٹھ کر تماشا دیکھتا رہا پھر جب یہ دیکھا کہ پاکستان کی ہر طرح کی مدد سے افغان مجاہدین نے روس کی پیش قدمی نہ صرف روک دی بلکہ روسی فوجوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا اس وقت پھر پاکستان پر دست شفقت رکھا، ان دنوں دوستی عروج پر تھی پھر جب روس کو شکست ہوئی اور اس نے اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں تو پھر خاموشی چھا گئی 90ء کی دہائی میں عمومی طور پر پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری رہی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو دھمکی دے کر دوستی کا ماحول بنایا۔ 20 سال تک سر ٹکرانے کے بعد جب امریکا کو افغانستان میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملی تو پھر پاکستان سے تعلقات میں کھینچاؤ پیدا ہو گیا امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بظاہر ہمارا ساتھ دیا لیکن اندرون خانہ ہمارے خلاف افغان مجاہدین کی عملاً مدد کی ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں پھر پاکستان کی ضرورت پڑی کہ افغان طالبان سے بات کر کے انہیں امریکا سے مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ جب یہ مطلب بھی نکل گیا تو ٹرمپ کے آخری دور سے تعلقات میں سرد مہری آگئی جو بائیڈن کے پورے دور میں رہی اور ٹرمپ کے دوبارہ آنے کے بعد بھی اس میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔